جب میں سوچتا ہوں کہ وہ کون سی طاقت ہے جس نے ایک چھوٹی سی فونڈری کے مالک کو پاکستان کا بڑا صنعت کار بنا دیا وہ کون سی طاقت ہے جس نے گمنامی کے پردے میں چھپے اس خاندان کو عالمی میڈیا کا مرغوب ترین موضوع بنا دیا۔ وہ کون سی طاقت ہے جس نے عام ذہنی سطح اور واجبی تعلیم کے مالک اس کشمیری خاندان کو پاکستان کا کامیاب ترین سیاسی گھرانہ بنا دیا تو یقین جانیے شدید ذہنی کشمکش کے باوجود میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میاں محمد شریف کی کامیابی میں جو بھی عوامل ہوں لیکن اس میں ان کی نیک نیتی ضرور شامل تھی، مجھے میاں شریف سے ملاقات اور انہیں قریب سے سننے کا صرف ایک ہی بار موقع ملا۔ یہ شاید4 198ء کی بات ہوگی۔ میں بھارت اور پاکستان کے مابین ٹیسٹ میچ کی کوریج اور برادرم اسد جعفری اخبار جہاں کے لئے ٹائیٹل اسٹوریز کے حوالے سے لاہور میں تھے۔ جعفری صاحب کے ممتاز ناول نگار اور خوبصورت قلمکار بشریٰ رحمان سے دیرینہ اور محبت و تعظیم کا رشتہ تھا۔ ایک ہم ان کی اقامت گاہ پہنچے، تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے اگلے دن ایک اہم شخصیت کو اپنے گھر مدعو کر رکھا ہے۔ زندگی میں بڑے لوگوں کی جدوجہد اور کامیابی سمیٹنے کی داستانیں جعفری صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا۔ یہ شخصیت میاں محمد شریف کی تھی۔ اس طرح ہمیں میاں محمد شریف سے ملنے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ ان کی کہانی سن کر میں سوچنے لگا کہ گزشتہ سات ہزار برس کے اولیا، اہل سخاوت، انقلابیوں، باغیوں، شعلہ بیانوں، نثر نگاروں، شاعروں، فلسفیوں، مورخوں، وقائع نگاروں اساتذہ، سورمائوں، محققین، سائنسدانوں، موجدوں، تاجروں، ارب پتی صنعت کاروں، بنکاروں، کھلاڑیوں، مہم جوئوں، جہاز رانوں، سیاحوں، تعمیراتی ماہرین، موسیقاروں اور اداکاروں سمیت کسی بھی شعبے کی فہرست اٹھالیں، ننانوے فیصد نے غربت میں آنکھ کھولی۔ محرومیوں کی گھٹیپی، ذلتوں کا وزن اٹھایا۔ مجبوری اور پریشانیوں کا سامنا کیا اور ارادوں پر سواری کرتے ہوئے عظمت اور بلندی کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے۔
میاں شریف کی کہانی بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ ہم شریف خاندان کو بیک وقت خوش نصیب اور بدنصیب ترین خاندان کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ خاندان کا آغاز ریلوے روڈ لاہور پر لوہا کوٹنے سے ہوا۔ میاں نواز شریف کے والد اس خاندان کے اصل لیڈر اور ہیرو تھے۔ یہ دن میں لوہا کوٹتے اور شام کو پڑھائی کرتے۔ میٹرک کے بعد لوہے کی ایک بھٹی میں بھرتی ہو گئے، پھر آج کے وفاقی وزیر حماد اظہر کے دادا میاں فضل سے پرانی بھٹی خریدی اور کام شروع کر دیا، اللہ نے ہاتھ پکڑا اور یہ خوشحال ہوتے چلے گئے۔ ایوب خان کے دور میں یہ اتنا بڑا صنعتی گروپ بن چکا تھا کہ چین کے وزیر اعظم چوائن لائی ان کی فیکٹری دیکھنے لاہور آئے تھے۔ 1970ء کے الیکشن میں انہوں نے بھٹو صاحب کے خلاف اسمبلی الیکشن میں کھڑے علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال کی بھر پور مالی معاونت کی۔ بھٹو صاحب برسر اقتدار آئے تو اتفاق گروپ ان کے نشانے پر تھا۔ وہ نیشنلائز کر لیا گیا۔ لیکن وہ ہمت ہارنے والے نہیں تھے۔ برف کے پرانے کارخانے کو دوبارہ کھولا اور پھر اللہ نے ایسا ہاتھ پکڑا کہ وہ چند سالوں میں دوبارہ نصف درجن کارخانوں کے مالک بن گئے۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ مستقل مزاج تھے، وقت کے پابند اور محنت سے کبھی جی نہیں چراتے۔ بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن نے میاں شریف کو اپنے بڑے صاحبزادے نواز شریف کو سیاست میں دھکیلنے پر مجبور کر دیا اور پھر عروج و زوال کی ایک دلچسپ داستان لکھی گئی جنرل جیلانی اور پھر جنرل ضیاء الحق سے وابستگی کے سبب اس خاندان کے لئے سیاسی میدان میں آگے بڑھنے کے راستے کھل گئے۔ یہ خاندان سیاسی میدان میں آتا اور جاتا رہا۔ اقتدار میں آتے جاتے ان سے بہت کچھ چھینا بھی جاتا رہا اور بہت کچھ حاصل بھی ہوتا رہا۔ پورے گھرانے میں میاں محمد شریف اور محترمہ شمیم اختر کی بات چلتی تھی۔
90ء کی پوری دھائی سیاسی میدان میں میاں نواز شریف کے لئے سیاسی اعتبار سے نشیب و فراز کا دور تھا۔ 1999 میں جنرل مشرف نے نواز شریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا یہ شریف فیملی کے لئے ایک مشکل ترین دور تھا۔ لیکن آزمائش کے اس دور میں کلثوم نواز مسلم لیگ کی آواز بن کر سامنے آئیں، امور خانہ داری کے بعد سیاست کا میدان ان کے لئے اجنبی تھا لیکن وہ ایک جرأ تمند خاتون تھیں، مجھے یاد ہے ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب گرفتاری سے بچنے کے لئے بیگم کلثوم نواز نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی کے گھر جا پہنچیں۔ اس موقع پر چودھری شجاعت نے نواز شریف کے ساتھ اپنے گزرے ہوئے رفاقت کے دنوں، رواداری اور تعلق کو نبھایا وہ خود جناب مجید نظامی کے گھر تشریف لے گئے اور کلثوم نواز کو بٹھا کر اپنے گھر لے آئے۔ مریم نواز سیاسی پارٹی کی تنظیم اور اسے مستحکم کرنے کے فن سے بھی واقف ہیں۔ وہ بے نظیر کی طرح سیاسی میدان میں باقاعدہ کردار کے حوالے سے کسی تربیت کے مرحلے سے نہیں گزریں لیکن وہ مشاہداتی طور پر عالمی سیاسی بساط پر مختلف تبدیلیوں اور بدلتے رنگوں سے واقف ہیں۔ بھٹو کی طرح نواز شریف موجودہ حالات میں اپنی بیٹی کو سیاسی میراث سونپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مریم نواز نے اپنے والد کے ساتھ متعدد جلسوں میں خطاب کے جوہر دکھائے ان کی تقریر کا خاص انداز عوام میں پسند کیا جانے لگا وہ جیل کی دیواروں کے پیچھے بھی اولو العزم رہیں۔ ان کی تقریر کا موضوع زیادہ تر ان کے والد کی ذات اور عوام کی محرومیاں ہوتی ہیں، ان میں فرنٹ سے لیڈ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، انہیں قدم آگے بڑھانے اور وقت کے ساتھ لائن لینے کے لئے اپنے والد کی رہنمائی کا انتظار رہتا ہے۔ بظاہر نظریہ آتا ہے کہ مستقبل ان کا منتظر ہے لیکن انہیں احساس ہے کہ راستہ پیچیدہ ہے، بعض اوقات محسوس ہوتا ہے۔ ان کی عجلت پسندی اور جلد بازی ان کے راستے کو اور مشکل بنا دیتی ہے۔