اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلا کے دھاوے کو ان کا اضطراب کہیں گے یا پھر قومی اسمبلی میں ہونے والی دھینگا مشتی میں جس طرح عوام کے منتخب نمائندے آتش فشاں کی طرح پھٹے اورلاوے کی طرح بہتے چلے گئے اسے کیا کہیں گے ا۔ نصاف کرنے والے فورم اور قانون سازی کرنے والے ایوان میں جو کچھ ہوا اس سے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر عدم برداشت کا شکار ہو گیاہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی قانون دان تھے اور ان کا ذر یعہ معاش بھی وکالت تھا لیکن اسلام آباد کورٹ و میں جس طرح ججز کی توہین ہو ئی اور عدالت عالیہ کے پورے نظام کو تلپٹ کرکے رکھ دیا گیا، اس نے بہت سے سوالات کو ضرور جنم دیا۔ جب یہ سب کچھ ہوا، اسوقت انتظامیہ کہاں سوئی ہوئی تھی اور ججز کے تحفظ کے لئے اسپیشل سکیورٹی کہاں غائب تھی۔ پولیس اور رینجرز اتنی تاخیر سے کیوں پہنچی، جو کچھ ہوا اس نے وزارت داخلہ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ لاہور کے کارڈیالوجی ہسپتال میں ہونے والے وا قعہ پر حقیقی انصاف کا سہارا لیا جاتا تو انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ جیسا واقعہ نہ ہوتا۔ اسلام آباد ہوئی کورٹ میں ہونے والے واقعہ حکومت کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ کیا کسی صاحب اختیار کو اندازہ نہیں تھا کہ جب غیر قانونی تعمیر شدہ چیمبرز گرائے جائیں گے تو وکلاء مشتعل ہوں گے۔۔ کرپشن اور بد عنوانی میں لتھڑی ہوئی کیپٹیل ڈیوپلمنٹ اتھارٹی اور اس کے متعلقہ اہلکار اس وقت کہاں سوئے ہوئے تھے جب پورے اسلام آباد کی طرح یہاں بھی غیر قانونی تعمیرات بنی تھیں۔
قومی اسمبلی میں بھی گذشتہ دنوں طوفان بد تمیزی کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ عوام کے منتخب نمائندوں نے باہم دست گریبان ہو کر یہ پیغام دیا کہ ہم ایک سنگین اخلاقی اور معاشرتی بحران کا شکار ہو گئے ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ قوم کو پوری گھن گرج کے ساتھ اکیسویں صدی میں آگے لے جانے والے دعویدار حکمران اور صاحب اختیار اس سنگین بحران کی آہٹ تک نہیں سن رہے۔ انہیں مٹھی سے سرکتی ریت کا احساس تک نہیں ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے وہ کیا کیا جتن کر رہے ہیں، جلسے ہو رہے ہیں اور جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کھری کھری سنانے کے نشے میں زبانیں پھسل رہی ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب جا بجا اضطراب کے ساتھ وہ قیامت بھی نتھی ہے جسے کووڈ 19کہا جارہا ہے۔ جرثومہ نہ جانے کہاں سے چھوٹا اور کیونکہ دنیا کے گوشے گوشے سے زندگی کی رمق چھین لینے پر تلا ہوا ہے۔ مجھے نہیں خبر وہ کونسی آفت کون سا عذاب کون سا بانجھ پن تھا جو بائیس کروڑ لوگوں کے اس ریوڑ پر اترا اور انہوں نے اپنا رخ پلٹا اور پھر کیسے کیسے میر کارواں بن گئے اور جنہوں نے ٹامک ٹوئیاں مار کر پوری قوم کو کس منجدھار میں پھنسا دیا ہے۔ مسائل کا گرداب اور مشکلات و پریشانیوں کے بھنور میں ملک کی 80فیصد آبادی غوطے کھا رہی ہے اور صاحب اقتدار اور اختیار حضرات نیرو کی طرح بانسری بجا رہے ہیں۔ حیرانگی تو اس بات کی ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے نعرے لگانے والے ذہنی طور پر لولے لنگڑے، بہرے اور نا بالغ لوگ پوری قوم کو بھیڑوں کی طرح ہانکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی ہمارا وہ معاشرتی، معاشی اور سماجی بحران ہے۔ جس کے سبب تمام اسٹیک ہولڈر ز اور کردار اپنے اپنے مفادا ت کاکھیل کھیل رہے ہیں اور اسی سبب ہم من حیث القوم پیچھے کی طرف سرک رہے ہیں۔ میں یہ اس لئے کہتا ہوں کہ یہی پاکستان تھاجہاں لیاقت علی خان بھی تھے، جب شہید ہوئے تو جیب میں چند روپے اور اچکن کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان تھی۔ اس ملک پر ایسے لوگ بھی حکمران رہے، جن کے غیر جمہوری رویوں کے با وجود کوئی ان پر بے ایمانی، کند ذہنی اور تساہل کا الزام نہیں لگا سکتا۔ اخلاص، ایمانداری اور ذہانت کے موقع چودھری محمد علی تھے۔ عبد الرب نشتر تھے جس کے بچے گورنر ہائوس سے پیدل اسکو ل جاتے تھے۔ سکندر مرزا تھے، جن کی آخری عمر لندن کے ایک ہوٹل میں معمولی ملازمت کرتے گزری۔ ایوب خان تھے، جو ایوان صدر کے ایک ایک روپے کا حساب رکھتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو تھے، ضدی اور متکبرہونے کے با وجود ذہانت، مطالعے اور خطابت میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ یہاں مولانا مودودی جیسے عالم بھی تھے، جن کی فکر کی روشنی آج بھی لوگوں کو اندھیرے میں راستہ دکھاتی ہے۔ یہاں مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتی محمود، مولانا قمر الدین سیالوی، ڈاکٹر اسرار جو بھٹکے ہوئوں کو شراب خانے سے اٹھا کر مصلے پر بٹھاتے تھے۔ سید مظفر حسین شمس تھے، جنہوں نے زندگی بھر شیعہ سنی کی تفریق پیدا نہیں ہونے دی۔
آپ ایک نسل پیچھے پلٹ کر دیکھیں، آ پ کو زندگی کے ہر شعبے کے ٹاپ پر ایسے لوگ نظر آئیں گے جو ظرف، ذہانت، فطانت، محنت اور ایمانداری میں جن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ چھوڑیں انہیں بھی چھوڑیں، آپ اپنے ارد گرد دیکھیں، ان بوڑھوں کو دیکھیں جنہیں آپ روز دیکھتے ہیں اور ان پر توجہ دیے بغیر گزر جاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اس نسل سیزیادہ پڑھے لکھے، ایماندار اور اعلیٰ ظرف نہیں۔ کیا ان کی طرز زندگی میں اطمینان، سکون اور دھیما پن نہیں۔ چھوڑیں انہیں بھی چھوڑیں، آپ دیکھیں آپ نے جن اساتذہ سے پرائمری کی تعلیم حاصل کی۔ وہ آج کے اساتذہ سے بہتر ذہین، محنتی اور ایماندار نہیں تھے۔ ہائی اسکول اور کالج کے استاد آج کے استاد سیزیادہ عظیم اور اعلیٰ ظرف نہیں تھے۔ آپ نے ذاتی ایمانداری کے سبب جو مواقع ضائع کئے، آج کا نوجوان بھی ایسی بے وقوفی کرنے کا ہر گز نہیں سوچتا۔ مجھے ایسا لگتا ہے قدرت ہم سے ناراض ہے کیونکہ جب قدرت ناراض ہوتی ہے تو انسانوں اور ان بھیڑیوں میں کوئی فرق نہیں رہتا جو اپنے آگے چلنے والی ہر بھیڑ کو لیڈر مان لیتی ہے خواہ کتنی کمزور اور نحیف کیوں نہ ہو۔