وزیراعظم عمران خان قوم سے کئے وعدوں کی پاسداری کیلئے غیرمعمولی فیصلے کرچکے۔ منتخب عوامی نمائندوں کے بجائے مختلف شعبوں میں تجربہ اور مہارت رکھنے والے19 افراد کوبطور مشیر اورمعاون خصوصی تعینات کیا، ـتاکہ سرکاری اداروں اور کمپنیوں کی کارکرگی بہتر بناکر ملکی معیشت کی سمت درست کی جاسکے۔ مشیران اور معاون خصوصی اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز نام اورمقام رکھتے ہیں مگر سرکاری کمپنیوں اور اداروں میں ایڈہاک ازم اور افسران کی من مانیوں کے باعث بدترین توانائی بحران جنم لے رہا ہے۔ وزیراعظم اور انکی ٹیم پریشان مگر سرکاری کمپنیوں کے افسران کے کان پر جوں تک رینگتی دکھائی نہیں دے رہی۔ گیس قلت سے بچنے کیلئے بحرانوں سے ٹکراتے وزیراعظم نے انتہائی سخت قدم اٹھاتے ہوئے صنعتی شعبے کیلئے گیس کے نئے کنکشن پر پابندی عائد کردی ہے۔ سوال یہ ہے پاکستان میں توانائی کا بحران قابوکیوں نہیں ہورہا؟
سرکاری اور نجی شعبے میں موجود مخصوص لابی نے ملکی گیس کی پیداوار اور فروخت کی راہ میں منظم طریقے سے رکاوٹیں کھڑی کیں۔ 25سال قبل پاکستان میں 15سے زائد غیرملکی کمپنیاں تیل وگیس کی تلاش کا کام کررہی تھیں۔ ملکی وغیر ملکی کمپنیوں کے باعث پاکستان گیس کے شعبے میں تیزی سے خودکفیل ہوگیا۔ سستی گیس کے باعث پاکستان میں معاشی ترقی اور عوام کو خوشحالی نصیب ہونا شروع ہوئی۔ پاکستان میں توانائی بحران کا خاتمہ ایک مضبوط معیشت کی جانب پہلا اشارہ تھا مگر پھر مافیا سرگرم ہوگیا۔ سرکاری کمپنیوں میں موجود افسران کے رویوں اور حوصلہ شکنی کے باعث غیرملکی کمپنیاں پاکستان سے رخصت ہونا شروع ہوگئیں اور آج صرف دوغیرملکی کمپنیاں تیل وگیس کی تلاش کا کام کررہی ہیں۔ ملکی کمپنیوں کی راہ میں بھرپور رکاوٹیں کھڑی کرکے گیس کی قلت پیداکرتے ہوئے درآمدی گیس کی راہ ہموار کرلی گئی۔ آج دو ایل این جی ٹرمینل سے مہنگی ترین گیس کے عوض سالانہ اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں مگر سرکاری کمپنیوں کی ہٹ دھرمی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
وزیراعظم کو ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں وزارت توانائی نے بتایا ہے کہ موسم سرما کے دوران بدترین گیس بحران کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے نمٹنے کیلئے سی این جی سمیت چار شعبوں کو گیس کی سپلائی بند کی جائے گی۔ مختلف گیس فیلڈ سے 10کروڑ 60کیوبک فٹ سسٹم میں شامل نہیں ہورہی۔ دسمبر میں یہ گیس سسٹم میں شامل کرلی جائے گی۔ 9کرو ڑکیوبک فٹ سوئی سدرن کو فراہم کی جائے گی تاکہ کراچی میں صنعتوں کا بندہوتا پہیہ چل سکے اور گھریلوصارفین کی مشکلات میں بھی کمی ہو۔ اس معاملے کی تحقیق کی تو انکشا ف ہواکہ سوئی سدرن کے جانب سے 1کروڑ 80لاکھ کیوبک فٹ یومیہ سستی ترین ملکی گیس جان بوجھ کر نہیں خریدی جاری رہی۔ سوئی سدرن کی ہٹ دھرمی کے باعث بدین فورساوتھ گیس فیلڈ سے 70فیصد گیس سپلائی بند ہوچکی ہے جبکہ باقی 30فیصد گیس کسی بھی وقت بند ہوسکتی ہے۔ سوئی سدرن کی رویے کے باعث قومی خزانے کو بھی ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں یومیہ کروڑوں روپے نقصان ہورہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اڑھائی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی ملکی سستی ترین گیس کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر10ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مہنگی ترین ایل این جی کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت نے پہلے ہی سوئی سدرن کو ایل این جی سپلائی کرنے کی اجازت دیدی ہے تاکہ جیسے تیسے گیس بحران اور سندھ حکومت کی تنقید سے بچاجاسکا ہے۔ ہٹ دھرمی کا اندازہ لگائیے کہ وفاقی وزیرتوانائی عمرایوب، معاون خصوصی ندیم بابر اور وفاقی سیکرٹری پٹرولیم اسداحیاء الدین کے احکامات کے باوجود سوئی سدرن اور افسران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ سوئی سدرن کا ایک ہی مؤقف ہے کہ متعلقہ کمپنی کی جولائی میں آنے والی درخواست کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ سوئی سدرن سمیت سرکاری کمپنیوں کے سربراہ اور افسران 15لاکھ روپے سے 45لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں مگر کارگردگی پر کوئی پوچھ گچھ نہ ہونے کی وجہ سے من مانیان عروج پر ہیں۔ کارگردگی کا یہ عالم ہے کہ 6ماہ گذرنے کے باوجود ایک درخواست قواعد وضوابط کے عین مطابق ہونے کے باوجود نہیں نمٹایا جاسکا۔
وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ اضافی ایل این جی کیلئے17کلومیٹر طویل پائپ لائن 15سے20دسمبر تک مکمل ہو جائے گی۔ جنوری2021 میں دونوں ٹرمینلز کو زیادہ سے زیادہ صلاحیت پر چلانے کیلئے اضافی ایل این جی کارگوز کا انتظام کر لیا گیا۔ ٹرمینل1کو 650ایم ایم سی ایف ڈی جبکہ ٹرمینل2کو690ایم ایم سی ایف ڈی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پر چلایا جائے گا۔ بند کنوؤں سے قدرتی گیس نکالنے کیلئے پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے منصوبہ بندی جاری ہے۔ سوئی ناردرن کے سسٹم میں ماڑی پیٹرولیم کے ذریعے دستیابی کی بنیاد پردسمبر 2020 میں 15ایم ایم سی ایف ڈی جبکہ جنوری2021کیلئے50ایم ایم سی ایف ڈی گیس شامل کی جائے گی۔ سیکرٹری پیٹرولیم کے مطابق گیس کی قلت کی صورت میں سب سے پہلے سی این جی سیکٹر کی گیس سپلائی میں کمی لائی جائے گی۔ برآمدات نہ کرنے والی صنعتوں کے کیپٹو یونٹس کو دوسرے مرحلے میں گیس کی سپلائی میں کمی لائی جائے گی۔ تیسرے مرحلے میں تمام صنعتوں کیلئے ہفتے میں ایک دن گیس سپلائی منقطع کی جائے گی۔ ان تما م اقدامات کے باوجود صورتحال میں بہتری نہ ہونے کی صورت میں برآمدی صنعتوں کی گیس سپلائی میں کمی لائی جائے گی۔
اپوزیشن کی سیاست کیساتھ خاموش توانائی بحران منفی جی ڈی پی کی حامل معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔ مہنگی توانائی کے باعث ہی گردشی قرضہ 2ہزار300ارب روپے سے تجاوزکرچکاہے۔ وفاقی حکومت بھرپور توجہ کی بدولت شاید سیاسی بحران پر قابو پالے مگر سستی اور بلاتعطل توانائی کی فراہمی کے بغیر نئے پاکستان کی تعمیر کا وعدہ ادھورا رہے گا۔