وزیراعظم عمران خان اڑھائی دہائیوں سے کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ کالجز، یونیورسٹیز، عالمی فورمزاور عوامی اجتماع اور قوم سے ہر خطاب میں کرپشن اور اقرباپروری کی بیخ کنی کو ہمیشہ مرکزیت حاصل رہی۔ کرپشن اور اقرباپروری کے خلاف انکے بیانات نوجوان نسل کے ذہنوں پر نقش ہوچکے ہیں۔ یہی وہ انقلابی بیانات تھے جن کے باعث اقتدار کی راہ ہموار ہوئی مگر مسند اقتدار کیساتھ اصل امتحان بھی شروع ہوگیا۔ وزیراعظم نے سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں کرپشن کے خاتمے کیلئے دوسال قبل ایکشن لیا۔ وزیراعظم کواحساس ہوچکا تھا سرکاری کمپنیوں میں سالانہ 500ارب روپے سے زائد نقصان کی بڑی وجہ کرپشن اور اقربا پروری ہے جوبدعنوانی کا رستہ کھولتی ہے۔ بدعنوانی کے رستے کو بند کرنے کیلئے وزیراعظم نے سرکاری اداروں میں ایڈہاک ازم ختم کرنے کیلئے ہدایت، جاری کی مگر بعض وزراء اور تگڑے بیوروکریٹس نے وزیراعظم کی ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ وزیراعظم کی ہدایت، پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژ ن ڈاکٹر اعجاز منیر نے مارچ میں ایک رپورٹ تیار ی کا سلسلہ شروع کیا، وزارتوں اور ڈویژنز سے ایم ڈی اور سی ای او کی خالی آسامیوں اور عارضی تعیناتیوں کی تفصیلات طلب کی گئیں۔ وزارتوں اور ڈویژنز سے فراہم کردہ معلومات پر وفاقی کابینہ کیلئے حتمی رپورٹ تیار کی گئی۔ یکم اپریل2021کو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے وفاقی کابینہ کو سرکاری اداروں کے سربراہان کی خالی آسامیوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم کے سامنے انکشا ف کیا گیا کہ دو برس قبل دی گئی ان کی واضح ہدایت، کے باوجود94 آسامیاں خالی بدستور خالی ہیں۔
ان تمام آسامیوں پرایڈہاک بنیادوں پر تقرریاں کی گئیں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پٹرول بحران کے ذمہ دار قرار دئیے ڈائریکٹرجنرل آئل کا عہدہ بھی دوسال سے مسلسل ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جارہاہے۔ یہی ایڈ ہاک ازم پٹرول بحران کا سبب بنا۔ پاکستان کی عالمی سطح پر جنگ ہنسائی ہوئی جبکہ حکومت کو اپوزیشن اور عوام نے آڑے ہاتھوں لیا۔ کورونا کے باعث مئی 2020میں مختلف ممالک کم ترین ریٹس پر آئل بک کررہے تھے جبکہ پاکستان کی آئل مارکیٹ کریش کرچکی اور پیٹرول انتہائی مہنگا ہوچکا تھا۔ عوام کو 25ارب روپے خسارے سے دوچار ہونا پڑا۔ کابینہ کیہدایت، کے باوجودڈی جی آئل ڈاکٹر شفیع آفریدی کو 15روز بعد عہدے سے ہٹایا گیا۔ ڈاکٹر شفیع آفریدی کو عہدے سے ہٹانے کیلئے غلط نوٹیفکیشن جاری کیا گیا توآئل کمپنیوں کے معاملات میں مگن سیکرٹری آفس کو خواب غفلت سے جگاکر اگلے روز نوٹیفکیشن درست کروایا گیا۔ دوسری جانب سیکرٹری پٹرولیم میاں اسد احیاء الدین نے اوایس ڈی کا نوٹیفیکیشن رکوا کر وفاقیہدایت، کو چیلنج کردیا ہے۔ وزراء حیرانی اور دیوانگی کے عالم میں اپنی ہدایت، دیکھ رہے ہیں۔ پیٹرولیم ڈویژن کی راہدای میں یہ تاثر عام ہے کہ بااثر وفاقی سیکرٹری پیٹرولیم کے احتجاج اور اصرارپروزیراعظم آفس نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو اوایس ڈی کانوٹیفکیشن جاری کرنے سے منع کردیا ہے۔ وفاقی حکومت نے اپنے "پگ "نیچے جھکاتے ہوئے گذشتہ ایک ہفتے سے سیکرٹری پیٹرولیم کو اوایس ڈی بنانے کی بجائے تین ماہ کی چھٹی پر بھیجنے کی ناختم ہونے والی تیاری شروع کررکھی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی رپور ٹ کیمطابق 9فروری2021سے اب تک صرف9کمپنیوں میں تعیناتیاں کی جا سکی ہیں۔ 17نئی خالی آسامیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جن میں سے4آسامیوں پر اگلے تین ماہ کے دوران تعیناتیاں ہونے کی توقع ہے۔ 33آسامیوں کے لیے اخبار ات میں اشتہار دیا جا چکا اور بھرتی کا عمل آخری مراحل میں ہے۔ ان آسامیوں پر بھرتی کا عمل جلد مکمل ہونے یا درجہ اے، میں شامل ہونے کے باعث آسامیاں ختم کیے جانے کی امید ہے۔ جن 44آسامیوں پر بھرتی کا عمل شروع نہیں کیا جا سکا انہیں درجہ بی، میں شامل کیا گیا ہے۔ پاور ڈویژن میں 16، وزارت خوراک 9، وزارت تجارت8، وزارت تعلیم 6، وزارت اطلاعات و نشریات 5، وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس4، منصوبہ بندی و ترقی ڈویژن، آئی اینڈ پی، وزارت صحت، پیٹرولیم ڈویژن، وزارت انسانی حقوق اور آبی وسائل میں 3، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی 2، وزارت خزانہ، وزارت بحری امور، ٹیلی کام ڈویژن اوور سیز ڈویژن، وزارت ماحولیات اور کابینہ ڈویژن میں 1، 1آسامی خالی ہے۔
پاور ڈویژن کے ماتحت کمپنیوں کو گزشتہ 25برس سے ایڈہاک ازم پر چلا یا جارہاہے۔ اقرباپروری کی بنیاد پر سرکاری افسران کوپاور کمپنیوں کا سربراہ تعینات کرکے بھرتیوں اور ٹھیکوں کے ذریعے مال کھرا کرنے کی راہ ہموار کی جاتی رہی ہے۔ پاور ڈویژن پالیسی سازی کے کردار سے نکل کر کمپنیوں کا براہ راست آپریشن چلانے میں ملوث ہوچکا ہے۔ تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تا بش گوہر نے چند ماہ کے دوران پاور ڈویژن کا قبلہ درست کردیاہے، ایڈہاک ازم اور اقرباپروری قربِ مرگ ہے۔ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے مستقل سربراہان کی تقرری ہوگی۔ ایک ہزار 800ارب روپے سالانہ ریونیو کمانے والی کمپنیوں میں وزرائ، افسرشاہی اور ٹھیکے داروں کا کردارختم ہونے سے عوام اور حکومت کو ثمرات ملیں گے۔ اگرچہ تابش گوہر کوسنگین چیلنجز کا سامنا ہے مگر قوت ارادی اور پروفیشنل ازم کے باعث وہ پاور سیکٹر کا بیڑا پار لگا دیں گے۔ افسر شاہی ایڈہاک ازم اور اقرباپروری کے خاتمے کا مؤثرفارمولہ کبھی وزیراعظم کے سامنے پیش نہیں کرے گی۔ کاش، وزیر اعظمگوہر اقدامات، کو دیگر وزارتوں اور کمپنیوں میں نافذ کرنے کی ہدایت، دیں تو ان کاخواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ وزیراعظم خان کی شبانہ روز ہدایات، بارے یکم رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں دعا گو ہیں کہ اللہ بیوروکریسی کو ہدایت، دے تاکہ بے بسی کہ دُھندچھٹ جائے۔ احمد عطا کیا خوب کہہ گئے:
بے بسی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا
زندگی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا