موسم گرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ تو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ مئی تا اگست بجلی کی طلب میں ریکارڈ اضافے کے باعث جبری لوڈشیڈنگ برداشت کرنا عوام کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ بجلی کی طلب کے مقابلے میں کم پیداوارکے چیلنج سے نمٹنے کیلئے نئے پاورپلانٹس لگے۔ سی پیک منصوبوں کے تحت لگنے والے پاورپلانٹس نے پیداواری صلاحیت کے فقدان سے نکلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 2018ء میں بجلی کی طلب کے مقابلے میں اضافی پیداواری صلاحیت حاصل کرلی گئی مگرپھر امسال جون میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ گیس بحران پیدا ہوگیا۔ کچھ دنوں بعد گیس کا مسئلہ عارضی طور پر تو حل ہوگیا، مگر بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے شعبے میں موجود بے شمار مسائل نے ایک مرتبہ پھر خطرے کی گھنٹی بجادی۔ ملکی گیس کی پیداوار میں مسلسل کمی جبکہ طلب میں سالانہ 5فیصد اضافہ اور ایل این جی کی عالمی مارکیٹ میں آسمان سے باتیں کرتی قیمت حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاوروپیٹرولیم تابش گوہرنے بالآخر دو ٹوک انداز میں مہنگی بجلی اور گیس سمیت توانائی بحران سے نمٹنے کیلے فائر فائٹنگ کی حکمت عملی سے نکل کر سٹریٹجک ورک سٹریمز پر مشتمل 16ٹھوس تجاویز پیش کردی ہیں۔
15 جولائی کو روسی کمپنی کیساتھ کراچی تا لاہور گیس پائپ لائن کی تعمیر کا معاہدہ کیا گیا۔ پاکستانی ماہرین اور سرکاری کمپنیوں نے ہمیشہ مطالبہ کیا کہ یہ پائپ لائن ہمیں خود تعمیر کرنی چاہئے، مگر کچھ شخصیات یہ ٹھیکے روسی کمپنی کو دینے پر بضد رہیں۔ وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں تابش گوہر نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں روس کیساتھ کراچی تا لاہور گیس پائپ لائن تعمیر کرنے کے معاہدہ کی مخالفت کردی ہے۔ تابش گوہر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ روس کیساتھ گیس پائپ لائن معاہدے کی تعمیر سے گیس صارفین پر بھاری بوجھ پڑے گا۔ 56انچ سائزکے بجائے 42انچ کی پائپ لائن پاکستانی کمپنیاں تعمیر کرسکتی ہیں جس سے پاکستان کو 75ارب روپے کی بچت اور منصوبہ 2024کے بجائے 2023 میں مکمل ہوجائے گا۔ 42انچ کی پائپ لائن سے پاکستان کی آئندہ 10سے 15برس کی گیس طلب باآسانی پوری کی جاسکتی ہے۔ روسی کمپنی نے پاکستانی کمپنیوں کو پائپ لائن منصوبے کی تعمیر سے باہر کرنے کیلئے 56انچ پائپ لائن کا پلان بنایا۔ بااثر حکومتی شخصیت کے اصرار پر سیکرٹری پیٹرولیم ڈویژن ڈاکٹر ارشد محمود نے ایک طویل بریفنگ لینے کے بعد15جون کو اسلام آباد میں روسی کمپنی کیساتھ 2.5ارب ڈالر مالیت کی 1100کلومیٹر طویل پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کردئیے تھے۔ اس گیس پائپ لائن کو گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں عوام سے وصول کئے گئے 321ارب روپے سے تعمیر کیا جانا چاہیے۔ یہ پائپ لائن منصوبہ کسی تیسرے فریق کے قرض اور ایکویٹی سے تعمیر نہیں ہونا چاہئے جو گیس صارفین کے بل میں اضافہ کرے گی۔ پاکستانی عوام کو ایک ہی اثاثے کے لیے دو بار ادائیگی نہیں کرنی چاہیے۔ تابش گوہر نے اضافی ایل این جی ٹرمینل کی صلاحیت کا استعمال کرنے کی سفارش کی ہے۔ ممکنہ طور پر موجودہ دو آرایل این جی ٹرمینلز پر 300 ایم ایم سی ایف ڈی اضافی صلاحیت دستیاب ہے جو نجی کمپنیاں استعمال کرسکتی ہیں۔ تھرڈ پارٹی رسائی کے ذریعے آنے والی گھریلو گیس سردیوں میں صارفین کے لیے گیس کی قلت پر قابو پانے میں مدددے گی۔
بجلی کی حالیہ رسد کے مسائل نے توانائی کے نظام کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ان مسائل کے حل کیلئے پبلک سیکٹر پاور پلانٹس جیسا کہ آر ایل این جی پاور پلانٹس اور اسی طرح گڈو اور نندی پور پاور پلانٹ کی نجکاری کے عمل کو تیز کیا جانا چاہیے۔ تابش گوہر نے اپنے خط میں ایک اور انکشاف بھی کیا ہے۔ کچھ آئی پی پیز ایسے بھی موجود ہیں، جو سارا سال معاہدے کے مطابق کپسیٹی پے منٹ وصول کرتے ہیں تاہم میرٹ آرڈر میں نیچے ہونے کے باعث یہ پلانٹس بند رہتے ہیں۔ جب بجلی کی طلب بڑھتی ہے تو ان آئی پی پیز کو بجلی پیدا کرنے کی ہدایت جاری کردی جاتی ہے مگر حیران کن طور پریہ پلانٹس نہیں چل پاتے۔ ضرورت کے وقت دستیاب نہ ہونے اور ٹیک اور کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں پورا سال وصولی کرنیوالے آئی پی پیز کا آزادانہ آڈٹ کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ پاور ڈویژن حکام کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ کے الیکٹرک کے مسائل کے حل کیلئے تجارتی بنیادوں پر 2ہزارمیگاواٹ سپلائی اور 140ارب روپے سالانہ پاور پرچیز ایگریمنٹ کی ضرورت ہے۔ نیپرا کی جانب سے ابتدائی ایکشن کے تحت کے الیکٹرک کو پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے الگ کاروبار میں منقسم کرکے کراچی میں بجلی کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزیر حماد اظہر کو بجلی کے نرخوں میں 3روپے فی یونٹ کمی کا حل بھی تجویز کیا گیا ہے۔ نظر ثانی شدہ قرض مینجمنٹ پلان کے تحت اگلے پانچ سال کیلئے 2015کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے سی پیک منصوبوں کے 7.3ارب ڈالر ادائیگی کی ری شیڈولنگ سے عوام کو2روپے فی یونٹ ریلیف جبکہ پبلک سیکٹر پاور پلانٹس کے1400ارب روپے کی ادائیگی کی ری شیڈولنگ سے 1روپے فی یونٹ ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے۔ یہ ریلیف یقینا گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین کیلئے ایک بڑی نعمت ثابت ہوگی۔ در آمدی کوئلے کی بڑھتی ہوئی قیمت کے پیش نظر کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی مارکیٹ میں اس وقت کوئلے کی قیمت 146ڈالر فی ٹن ہے جس میں اس سال80فیصداضافے دیکھنے میں آیا ہے۔ مقامی کوئلہ 30ڈالر فی ٹن میں دستیاب ہو سکتا ہے جس سے صارفین کے ٹیرف میں نمایا ں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ موجودہ گیس اور بجلی کے ٹیرف کے تحت موسم سرما میں اے سی انورٹر کے استعمال کیلئے 3لاکھ صارفین گیس سے بجلی پر منتقل ہونے کی صورت میں بجلی کی طلب میں 300میگاواٹ اضافے اور گیس کی طلب میں 50ایم ایم سی ایف ڈی کمی لائی جاسکتی ہے۔ توانائی بحران ملکی ترقی اور عوام کودرپیش مہنگائی و بے روزگاری جیسے سنگین چیلنجز سے نمٹنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس رکاو ٹ کو دور کرنے میں ناکام سیاسی جماعتوں کو عوام نے کبھی معاف نہیں کیا۔