پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قانون وانصاف کی پاسداری اوراصلاحاتی ایجنڈے کے باعث اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے مختلف شعبوں میں اصلاحات کیلئے ٹاسک فورس قائم کیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم ہونیوالی اصلاحاتی کمیٹی کا کردار سول سروس ریفارمز اور کھربوں روپے خسارے سے دوچار کمپنیوں میں اصلاحات کے باعث سب سے اہم ٹھہرا۔ ڈاکٹر عشرت حسین 2006سے مسلسل سول سروس ریفارمز کیلئے کوشاں ہیں مگر یہ ریفارمز اتنی پیچیدہ ثابت ہوئی ہیں کہ دلکش پریزنٹیشن سے آگے معاملہ بڑھنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ ضرور ہے کہ وفاقی وزیر علی زیدی کے دوست کے خلاف فراڈ کے باعث درج ایف آئی آر ختم کروانی ہویا کسی معاملے میں درمیانی راستہ نکالنا ہو تو معاملہ ڈاکٹر عشرت حسین کے سپرد کردیا جاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزارتوں، اداروں اور کمپنیوں میں خلاف قانون تعینات ہونیوالے افسران کی انکوائری کا حکم دیا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ڈاکٹر اعجاز منیر کی سربراہی میں قائم تین رکنی انکوائری کمیٹی نے تحقیقات کیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق اگست 2016 کے بعد وفاقی حکومت کی وزارتوں، اداروں اور کمپنیوں میں 799افسران خلاف قانون تعینات ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دورحکومت میں بھی وزراء اور افسر شاہی نے 93 منظور نظر افسران خلاف قانون تعینات کروائے جن میں سے 50افسران بدستور خلاف ضابطہ اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق 18اگست 2016کے بعد تعیناتیوں کی وفاقی کابینہ سے منظوری لازم تھی مگر افسر شاہی اور وزراء نے من پسند تعیناتیوں کیلئے وفاقی کابینہ کو خاطر میں نہ لایا۔ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی ہدایت کے باوجود پاور ڈویژن اور وزارت ہاؤسنگ نے انکوائری کمیٹی کو تمام تر کوششوں کے باوجود ریکارڈتک فراہم نہیں کیا۔ دونوں وزارتوں کے ماتحت اداروں میں درجنوں خلاف قانون تعیناتیاں ہوئیں۔ بیوروکریسی نے خلاف ضابطہ تعینات ہونیوالے افسران اور تعیناتیوں کے ذمہ داران کو انضباطی کارروائی سے بچانے کیلئے تمام تعیناتیوں کی پرانی تاریخوں میں توثیق کرکے معاملہ نمٹانے کیلئے سات سفارشات کیں۔ کابینہ میں معاملہ پہنچا تو وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے خلاف قانون تعیناتیوں کی توثیق کی مخالفت کردی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق یہ اقدام سپریم کورٹ کے فیصلے سے انحراف اور قانون سے کھلواڑ ہو گا۔ وفاقی کابینہ نے یہ معاملہ مسائل حل کرنے کے ماہر ڈاکٹر عشرت حسین کے سپرد کردیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ڈاکٹر عشرت حسین خلاف قانون تعینات کئے گئے افسران کو بچانے کیلئے کیا انوکھا حل تجویزکرتے ہیں۔ درحقیقت قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کے خلاف اور کچھ نہیں تو انضباطی کارروائی ہی عمل میں لائی جاتی تاکہ مستقبل میں کوئی وفاقی سیکرٹری یا وفاقی وزیر خلاف قانون تعیناتی کا سوچ بھی نہ سکے۔
قومی خزانے کیساتھ واردات ڈالنا تو کاریگروں کا پرانی روش ہے مگر احساس کیش پروگرا م کے دوران کاریگروں کی جانب سے 44ارب روپے کی واردات ڈالنے کی کوشش ناکام بنادی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے حال ہی میں ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 37لاکھ جعلی شناختی کارڈ ز کے ذریعے 12ہزار روپے مالی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ نادرا سے تصدیق کے باعث 44ارب روپے کی خطیر رقم مستحق افراد کے بجائے فراڈیوں کے جیبوں میں پہنچنے سے بچ گئی۔ اس رپورٹ میں اور بہت دلچسپ اور قابل فکر اعدادوشمار بھی پیش کئے گئے ہیں۔ پنجاب کو 2017کی مردم شماری کے مطابق 8فیصد کم مالی امداد جبکہ سندھ کو9فیصد، خیبرپختونخوا1اعشاریہ28 اوربلوچستان کو اعشاریہ 85فیصد زیادہ رقم ملی۔ مالی طور پرخوشحال 3 کروڑ 31لاکھ افراد جبکہ 8لاکھ 96ہزار 526سرکاری ملازمین کی درخواستیں بھی مسترد کردی گئیں۔ احساس ایمرجنسی پروگرام کے آغاز پر جن خطرات کو مدنظر رکھا گیا ان میں سیکشن 144کا نفاذ اور لاک ڈاؤن کے دوران پولیس آپریشن، کورونا وائرس کا پھیلاؤ، ادائیگیوں میں عدم توازن پایا گیا۔ کیش آؤٹ پوائنٹس کی تعداد میں اضافہ کیا گیا، لوگو ں کی کثیر تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصی کیمپ سائٹس کا انتظام کیا گیا۔ کیش آؤٹ پوائنٹس پر احتیاطی تدابیر پر عمل کرانے کیلئے بینکوں کو اختیار دیا گیا۔ سکیم میں صوبائی اختلاف کے باعث 4000 اور12000کے متضاد پیغامات، ڈوپلیکیشن اور ساکھ کی خرابی کا اندیشہ ہونے کا خطرہ تھا۔ سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے سب کو یکساں مواقع فراہم کیے گئے۔ احساس ایمرجنسی پروگرام کے تحت آپریشنل چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جن میں نقل وحمل، لیکویڈیٹی اور رابطے میں کمی کے مسائل کیساتھ ساتھ ڈیجیٹل حوالے سے محرومی، کم مالی خواندگی، شناختی کارڈز کی معیاد، ڈیٹا کے حوالے سے پیغامات کی حد، لمبی قطاروں، بینکوں اور ریٹیلرز کو مراعات، نئی اقسام کی ملی بھگت، سائبر حملوں اور فراڈ، پبلک ٹرانسپورٹ، کیٹگری 2اور3کے تحت رقم نکلوانے میں سستی، انٹر کلسٹر ادائیگیوں اور بائیو میٹرک ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
ایک اور ممکنہ واردات کا احوال بھی جان لیجئے۔ دوفرٹیلائزر کمپنیوں کی حال ہی میں شائع ہونیوالی گذشتہ مالی سال کی رپورٹس میں 50ارب روپے سے زائد جی آئی ڈی سی کی رقم واجب الاد ظاہر کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی تقاضا تو یہ تھا کہ یہ دونوں کمپنیاں فوری طور پرپوری رقم قومی خزانے میں جمع کرواکر پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیگر شعبوں کیلئے مثال قائم کرتیں مگر مقام افسوس ہے کہ ابھی تک ہر جانب خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ تاجروں کی ایک بڑی تنظیم کے رہنما کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم نے مختلف شعبوں سے 517ارب روپے وصولی کے معاملے میں نرمی برتنے کی یقین دہانی کروادی ہے۔ عوام سے گذشتہ 5برس کے دوران اربوں روپے وصول کرنے والوں کیساتھ وصولی کے معاملے میں اگر سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہٹ کر رتی بھر نرمی برتی گئی تو یہ قانون اور عدالت کیساتھ ملکی تاریخ کا ایک بڑا کھلواڑ ہوگا اور عوام ایسے کھلواڑ کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔