وزیراعظم عمران خا ن نے حکومت کو درپیش چیلنجز اور عوامی مشکلات حل کرنے کیلئے ماہر افراد پر مشتمل کئی کمیٹیاں اور ٹاسک فورس قائم کیں، جنہیں حالیہ بحرانوں سے نمٹنے کیساتھ آئندہ 10برس تک پلان پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ کمیٹیوں اور ٹاسک فورسز کے کئی اجلاس منعقد ہوچکے مگرعوام کی مشکلات اور حکومت کودرپیش چیلنجز ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ٹاسک فورس میں شامل ہونے والے افراد، وزیراعظم اور قوم کی امنگوں پر تاحال پورا نہیں اترے، مگر اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہونے میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم نے مستقبل میں گندم بحران سے نمٹنے کیلئے بھی وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی سید فخر امام کوآئندہ 10سال کیلئے خصوصی ٹاسک سونپ رکھا ہے، تاہم مستقبل تو دور کی بات، حال میں جاری گندم اورآٹا کی بے قابو قیمتیں ہی کنٹرول میں نہیں آرہیں۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے 15جولائی2020کے اجلاس صوبائی حکومتوں، پاسکو اورٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو نجی شعبے سمیت گندم کی در آمد کیلئے ٹینڈر اور بولی کیلئے دعوت دینے کی منظوری دی گئی۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے 4اگست2020کے اجلاس میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو پاسکو، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی طرف سے وفاقی ڈیوٹیوں اور ٹیکس سے استثنیٰ دے کر ڈیڑھ ملین ٹن گندم در آمد کرنے کی اجاز ت دی گئی۔ ٹریڈنگ کارپویشن آف پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی ٹینڈر کا اجرا کیا گیا۔ بین الحکومتی بنیادوں پر روس سے گندم کی درآمد کے حوالے سے بات چیت بھی جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے روس سے کم سے کم 2لاکھ ٹن گندم کی خریداری کی شرائط طے کرنے کیلئے پاسکو کو پرروکیورنگ ایجنسی نامزد کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں جاری گندم کی قلت اور آٹے کی بے قابو قیمت سے نمٹنے کیلئے ٹریڈنگ کارپوریشن کو گندم درآمد کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔ ٹی سی پی نے 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کیلئے 75 ارب روپے کا تخمینہ لگایا۔ ٹی سی پی کو گندم درآمد کرنے کیلئے پیپرا رولز سے استثنیٰ دیدیا گیا ہے۔ ٹی سی پی انتظامیہ گندم سپلائرز سے براہ راست قیمت اور مقدار پر طے کرتے ہوئے 3لاکھ ٹن سے زائدگندم درآمدکرچکی ہے مگر مارکیٹ گندم اورآٹے کی قیمت میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ صوبے آٹاسستا کرنے کیلئے وفاقی حکومت سے سبسڈی مانگ رہے ہیں جبکہ خزانے میں سبسڈی ادا کرنے کیلئے مزید سکت نہیں۔ گندم پر سبسڈ ی کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری محکمہ خوراک کے پاس ہے اس لیے محکمہ خوراک پنجاب کی جانب سے درآمدی گندم کی قیمت 1400روپے فی 40کلو مقرر کرنے کا مطالبہ غیر منصفانہ ہے۔ ٹریڈنگ کارپویشن کی جانب سے گندم کی درآمد کمرشل بینکو ں سے کریڈٹ پالیسی لے کر کی جارہی ہے۔ رقم کی واپسی میں تاخیر کے باعث مارک اپ میں اضافہ ہوگا۔ صوبوں کی جانب سے رقم کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث مارک اپ اور دوسرے چارجزمیں ہونے والے اضافے کو صوبوں کی جانب سے ادا کیا جانا چاہیے۔ یہ معاملہ متعلقہ حکام کی سرد مہری کے باعث آئندہ چند ماہ کے دوران صوبوں کے مابین گھمبیرشکل اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
ڈالر کی قدر میں اضافے سے قرضوں میں 3.1ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت کو کورونا کے باعث آمدن کی مد میں 10کھرب کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ٹیکس وصولیوں میں سے 2.1ٹریلین روپے قرضوں پر خدمات کی مد میں ادا کیے گئے۔ روزمرہ ضروریات کیلئے 10کھرب روپے رکھے گئے۔ وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ پہلی بار بنیادی خسارہ سرپلس رہا تاہم اس میں کورونا کے باعث کمی دیکھنے میں آئی مگر آئندہ سال کافی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
اصلاحات کا بیڑا اٹھائے ڈاکٹر عشرت حسین نے اربوں روپے خسارے سے دوچار پاکستان ریلوے کی بحالی اور ری سٹرکچرنگ کا 42 صفحات پر مشتمل پلان جمع کروادیا ہے۔ یہ پلان ریلوے کی بحالی کیساتھ موجودہ تباہی کی وجوہات کو بھی اجاگر کررہا ہے۔ ریلوے کی وجوہات دیگر سرکاری کارپوریشنز کے خسارے کے محرکات کی نشاندہی بھی کررہی ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے پاکستان ریلوے میں مستقل ملازمین اور افسران بھرتی کرنے پرپابندی عائد کرنے کی سفارش کردی ہے۔ پنشن اخراجات میں کمیـ، سبسڈی کا خاتمہ، وزارت ریلوے کے حکام کو ریلوے میں روزانہ کی بنیاد پرمداخلت سے روکنے کی سفارش کی ہے۔ رپور ٹ کے مطابق ریلوے اخراجات میں 66فیصد تنخواہیں جبکہ پنشن 136ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ ریلوے ٹریک کی حالت انتہائی خراب ہے اور یہی خراب ٹریک حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان ریلوے بحالی اور ری سٹرکچرنگ پلان 30جون 2021تک مرحلہ وار نافذ ہوگا۔ پاکستان ریلوے کو منافع بخش بنا کر نجکاری کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ ریلوے سمیت تمام سرکاری کارپوریشنز کو منافع بخش بنانا لازم ہے۔ مستقبل میں سی پیک کے باعث پاکستان ریلوے سمیت بیشتر اداروں کے ریونیومیں خاطرخواہ اضافہ ہوگا۔ میرٹ کی پاسداری اور شفافیت یقینی بنائی جائے تو ریلوے سمیت کسی ادارے کو فروخت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔
وزیراعظم عمران خا ن نے حکومت کو درپیش چیلنجز اور عوام کی مشکلات حل کرنے کیلئے ماہر افراد پر مشتمل کئی کمیٹیاں اور ٹاسک فورس قائم کیں ـ جنہیں حالیہ بحرانوں سے نمٹنے کیساتھ آئندہ 10 برس تک پلان پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ شومئی قسمت کہ کمیٹیوں اور ٹاسک فورسز کے کئی اجلاس منعقد ہوچکے مگرعوام کی مشکلات اور حکومت کودرپیش چیلنجز ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر کہا جا سکتاہے کہ ان کمیٹیوں اور ٹاسک فورسز پر بھی ایک اورکمیٹی بنادی جائے تاکہ مسائل کی بھٹی میں سلگتے عوام کو تسلی رہے کہ تبدیلی آ رہی ہے۔