ملکی وعوامی مفاد کے تحفظ اور لوٹی گئی قومی دولت کی وصولی کے لیے برسرپیکاروفاقی حکومت کڑے امتحان سے دوچار ہے۔ عوامی مفاد اورلوٹی گئی دولت کی وصولی کیلئے ہرلمحہ غیرمتزلزل عزم کا اظہار کرنے والے پانچ دس نہیں پورے 517ارب روپے وصول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اربوں روپے ڈوبنے کا بیانیہ اختیار کرکے 208ارب روپے معاف کروانے والی حکومتی ٹیم میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ پہلے میڈیا اور اپوزیشن نے قومی خزانہ پر ڈاکہ ڈالنے والا ہاتھ روکا تو اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک تاریخی اورمثالی فیصلہ دے کر تمام رنگ بازوں، کے عزائم خاک میں ملاد ئیے ہیں۔
جنوری 2019میں 6شعبوں میں استعمال ہونیوالی گیس کے ذریعے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں ملک بھر کے کسانوں اور غریب عوام سے وصول شدہ 417ارب روپے پر ہاتھ صاف کرنے کا کھیل شروع ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کو غلط بریفنگ دے کر قائل کیا گیا کہ فرٹیلائزر سمیت مختلف صنعتکاروں کو 208ارب50کروڑ روپے معاف کرنے کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کرنالازم ہے۔ یہ رقم معاف کرنے سے تمام کمپنیاں باقی 208ارب 50کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کروادیں گی۔ اگست 2019میں آرڈیننس جاری ہوا مگر عوامی تنقید اور سوالات اٹھنے پر وزریراعظم عمران خان نے آرڈیننس واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجو ع کرنے کی ہدایت کی۔ 13اگست کو سپریم کورٹ نے حکومتی شخصیات کی پلاننگ پر پانی پھیرتے ہوئے جی آئی ڈی سی کی رقم 24اقساط میں وصول کرنے کا فیصلہ جاری کردیا۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ یہ رقم صرف گیس انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کیلئے خرچ کی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بہت سی حکومتی شخصیات حالت غم میں ہیں۔ اسی غم کی صورتحال میں پٹرولیم ڈویژن نے وزیراعظم کیلئے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کی کاپی میرے ہاتھ لگ گئی۔ رپورٹ پڑھی تو حیرانی کے باعث میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ پہلی خبر تویہ ہے کہ گیس انفراسٹرکچرڈویلپمنٹ سیس کی مد میں فرٹیلائزر سمیت مختلف شعبوں سے قابل وصول رقم کا حجم 417ارب روپے سے بڑھ کر 517ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ گیس منصوبوں کی تکمیل کیلئے ملک بھر کی عوام سے9برس کے دوران مجموعی طور پر 818 ارب روپے وصول کرنے کے باوجود ایک پائی بھی کسی گیس منصوبے پر آج تک خرچ نہیں کی گئی۔ 31مارچ2020تک 302 ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہوئے جن میں سے290ارب روپے گزشتہ حکومتوں کی جانب سے وصول کیے گئے۔ پٹرولیم ڈویژن نے جی آئی ڈی سی کی قابل وصول رقم کا تعین کرتے ہوئے وزیراعظم سمیت تمام افسران کی ذہن سازی کردی ہے۔
فرٹیلائزر مالکان کی جانب سے کسانوں سے وصول کی گئی رقم کا حجم 195ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سرکاری پاورجنریشن کمپنیوں ـ، کے الیکڑک اور آئی پی پیز کی جانب سے76ارب روپے واجب الاد اہیں۔ کیپٹو پاورـ، سی این جی سیکٹر اور صنعتوں کی جانب سے246ارب قومی خزانے میں جمع ہونا ہیں۔ دوسری خبر یہ ہے کہ پٹرولیم ڈویژن نے یہ طے کرلیا ہے کہ فرٹیلائزر، ـ آئی پی پیز، ـجینکوز اور کے الیکٹرک سے اقساط کی شکل میں رقم وصولی کا امکان موجود ہے مگر کیپٹو پاورـ، سی این جی سیکٹر اور صنعتوں سے246ارب وصول کرنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ یعنی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود پٹرولیم ڈویژن 517ارب روپے جمع نہیں کرپائے گا۔ صنعتی مالکان کی جانب سے جی آئی ڈی سی کی رقم جمع نہ کروانے کیلئے مختلف توجیہات اور عذر پیش کرنیکا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ کچھ مشیر ان اور معاون خصوصی کے ذریعے کمپنیوں کی لابنگ عروج پر ہے۔ پٹرولیم ڈویژن کے حکام یہ نقطہ بالکل واضح کرچکے ہیں کہ جی آئی ڈی سی کے818ار ب روپے کی پوری رقم خرچ کرنا ممکن نہیں ہوگا تاہم اس رقم کا بڑا حصہ اس انداز میں خرچ کیا جائے گا کہ میڈیا اور عوام باقی وصولی کو بھول جائیں۔
وفاقی حکومت کا ایک اور بڑا فیصلہ بھی پڑھ لیجئے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی جانب سے سول سروس سمیت وفاقی حکومت کے ماتحت سرکاری ملازمتوں کے صوبائی اور علاقائی کوٹوں میں حالیہ توسیع کے نوٹیفکیشن پر کراچی میں ہونے والی چیخ وپکار کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی۔ وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 27(1)کے تحت ملازمت کا کوٹہ مقررہ معیاد کیلئے تھا۔ 2013ء میں 40سال مکمل ہونے کے باوجود ملازمتوں کا کوٹہ بغیر کسی آئینی تحفظ کے جاری رہا۔
اس قسم کے ملازمتوں کے کوٹے اقلیتوں، خواتین اور دوسرے پسماندہ طبقے کیلئے بھی مختص کیے جاتے ہیں۔ 1973ء میں سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کو دس سال کیلئے مقرر کیا گیا تھا، جس میں 1983میں مزید دس سال کی توسیع کی گئی۔ 1993میں سرکاری ملازمتوں میں 20 سال کی توسیع کی گئی جو 13اگست2013کو مکمل ہو چکی۔ کابینہ ارکان نے مطالبہ کیا صوبہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے ملازمتوں کے کوٹے کی تقسیم کو ختم کیا جائے کیونکہ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات بہترہوچکیں جبکہ شہر ی کوٹے پر جعلی ڈومیسائل کے ذریعے ملازمتیں حاصل کی جا رہی ہیں۔ اگر سندھ کا کوٹہ ختم نہیں کیا جاتا تو جنوبی پنجاب اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کیلئے بھی کوٹہ مقرر کیا جائے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان کے درمیان صوبہ سندھ کے شہری ودیہی علاقوں کے ملازمتوں کے کوٹے کو ختم اورجنوبی پنجاب کیلئے کوٹہ مختص کرنے پراتفاق رائے نہ ہوسکا تاہم وفاقی حکومت نے سندھ کا شہری ودیہی کوٹہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کوئی فرد ہو، ادارہ، کمپنی یا ملک؟ غصب کیا گیا حق واپس ملنے پر خوشی سے نہال ہوتا ہے، صف ماتم نہیں بچھاتا۔ بیٹھے بیٹھائے عوام کے خون پسینے کے 517ارب روپے ملنے پر اگر کوئی حالت غم میں چلاجائے تو پھر سمجھ لیجئے یہ معاملہ کوئی اور ہے۔