فرانس کی علامت نوٹرے ڈیم کیتھڈرل کو آگ لگی تو بہت کچھ یاد آیا۔ فرانس نے دنیا کو آزادی کی نعمت سے روشناس کرایا، خیالات کی آزادی کی آگ فرانسیسی فلاسفروں کا عطیہ ہے۔ پچھلی صدی کا مفکر ژاں پال سارتر یاد آیا اور پھر ڈیگال کا ہیولا ابھرا۔ مسلم ملک الجزائر کی تحریک آزادی کی حمایت میں ژاں پال سارتر کو گرفتار کر لیا گیا۔ ڈیگال کو پتہ چلا تو اس نے بے اختیار کہا سارتر تو فرانس ہے، اسے کون قید کر سکتا ہے اور اسی وقت جیل کے دروازے کھلوا دیئے۔ آزادی کی آگ یہاں بھی سلگتی ہے مگر پاکستان میں نہ کوئی سارتر ہے اور نہ کوئی ڈیگال۔ نہ کوئی دانشور اس قدر بہادر ہے کہ اپنے نظریات کے لئے کھڑا ہو جائے اور نہ کوئی حکمران ڈیگال جیسا ہے جو مخالف رائے کا بھی احترام کرے اور اپنے مخالف کا بھی احترام کرے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک پاکستانی ادیب ژاں پال سارتر سے ملنے شانزے لیزے کے اس ریستوران جا پہنچا جہاں سارتر ہر روز اپنے دوستوں کے ساتھ محفل جماتا تھا۔ پاکستانی ادیب نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ وہ پاکستان سے آیا ہے۔ سارتر نے پاکستان کے حالات پوچھے، ادیب نے بتایا کہ جنرل ایوب ملک کے حکمران ہیں اور ان کے خلاف جمہوری تحریک بھی چل رہی ہے۔ سارتر نے اس ادیب سے پوچھا کہ تم کس جانب ہو؟ تو ادیب نے نپا تلا جواب دیا کہ وہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہے۔ سارتر نے فوراً کہا کہ صاف کیوں نے کہتے تم جابر اور آمر ایوب خان کے ساتھ ہو اور پھر کہا آزادی اور جمہوریت کی جنگ میں غیر جانبدار لوگ دراصل ظالم، جابر اور آمر کے ساتھ ہوتے ہیں۔ دنیا میں یا ظالم ہیں یا پھر مظلوم، درمیان میں کچھ نہیں۔ اسی طرح حاکم اور محکوم، جابر اور مجبور، طاقتور اور کمزور، آمر اور مقہور، بس یہی دو طبقات ہیں درمیان میں کھڑے رہنے والے لوگ دراصل جابروں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ افسوس کہ آج کل آزادی اور جمہوریت کی جنگ میں زیادہ تر لوگ غیر جانبدار ہو گئے اور یوں وہ اپنے فطری حق آزادی اور جمہوریت سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ سارتر پاکستان میں ہوتا تو ان غیر جانبداروں کے خوب لتے لیتا۔ ایک باضمیر آزادی پسند سارتر یہاں بھی ہوتا تو پھر سے صدارتی نظام لانے والوں سے یہ سوال ضرور کرتا کہ جب قائداعظم نے خود پارلیمانی نظام متعارف کروایا تو اسے بدلنے والے کیا معمارِ پاکستان سے بھی بڑا وژن رکھتے ہیں۔ سارتر یہ بھی پوچھتا کہ آج تک پاکستان کے دو ہی متفقہ آئین بنے ہیں یعنی 1956ء کا آئین اور پھر 1973ء کا آئین۔ دونوں ہی پارلیمانی نظام پر مبنی ہیں اس قدر اتفاق رائے کے بعد آئین توڑ کر نیا آئین بنانے کا شوشہ چھوڑنے کا مطلب پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پاکستان میں کوئی سارتر ہوتا اور دوسری طرف ڈیگال جیسا حکمران اسے اختلاف رائے کا حق دیتا تو وہ بتاتا کہ پاکستان کی معیشت سیاست اور معاشرت میں زوال کی اصل وجہ اختلافِ رائے پر پابندی ہے۔ جب دوسری رائے کو غداری سمجھا جائے گا تو ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے اور خاموشی صرف قبرستانوں میں ہوتی ہے۔ سارتر یہ ضرور پوچھتاکہ کیا پورے پاکستان میں حکومت کا کوئی ایسا مخالف ہے جو غدار نہ ہو، جو لفافہ نہ لیتا ہے یا جس کی نیت ٹھیک ہو۔ ظاہر ہے حکمرانوں کو ایسا ایک بھی شخص نظر نہیں آتا۔ اسی لئے ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ چکی ہے۔ وہ سارتر جیسے خیر خواہ کی نیت پر بھی شک کر کے اسے بھی برا بھلا کہتے ہیں بس یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے حکومت چل نہیں پا رہی معیشت میں جان نہیں پڑ رہی۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے دوسری جنگ عظیم میں لندن پر بمباری کے دوران چرچل کا وہ بیان یاد کریں جب اس نے کہا تھا کہ اگر انگلینڈ کی عدالتیں آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں تو برطانیہ کو کوئی طاقت نہیں ہرا سکتی۔ جس ملک میں انصاف نہ ہو، اظہار رائے کی آزادی نہ ہو، اختلاف کو برداشت نہ کیا جائے وہ ملک بظاہر ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں لیکن اندر سے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے کیسے نکلیں یا تو حکمران ڈیگال بنیں، آنکھوں کی پٹی اتاریں، کانوں کا بہرہ پن دور کریں، اختلافی رائے پر غور کریں اور اصلاح احوال کریں۔ وہ 5 سال کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ اصولی طور پر انہیں یہ مدت پوری کرنا ہے مگر اس کے لئے انہیں جیو اور جینے دو کا فلسفہ اپنانا ہو گا، معاشی ایجنڈے کو نئی شکل دینا ہو گی، جہاں خرابیاں ہیں، ان کو ٹھیک کریں، جو وزیر اچھا پرفارم نہیں کر رہے ان کی وزارتیں بدلیں، جو اچھا کام کر رہے ہیں انہیں شاباش دیں۔ پنجاب کی حکمرانی سے ہر کوئی شرمسار ہے اس سیٹ اپ کو تبدیل کریں۔ یہ خامیاں دور ہو جائیں تو معیشت کا پہیہ بھی شاید چل پڑے اور حکومت بھی چلنے لگے۔ لیکن لگ یوں رہا ہے کہ حکمران صرف اپنے آپ کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور باقی سب کو غلط۔
اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کوئی فرانس تھوڑا ہے جو ڈیگال اور سارتر کی مثالوں پر عمل کیا جائے۔ جواباً عرض ہے کہ دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں ترقی ہوئی ہو اور وہاں آزادی نہ ہو۔ دنیا میں ایک بھی خوشحال ملک ایسا نہیں جہاں اختلاف رائے موجود نہ ہو۔ دنیا میں جہاں جہاں تخلیق ہوئی ہے، ایجادات ہوئی ہیں اور نئی فکر نے جنم لیا ہے وہاں کے حکمران ڈیگال جیسی آزادی دیتے ہیں اور سارتر کی طرح کھلے عام اختلاف رائے ہوتا ہے۔ محبوس معاشروں میں حبس اور گھٹن پیدا ہوتی ہے، وہاں کے سارتر نشو و نما ہی نہیں پا سکتے، انہیں جبر کی افیون کا نشہ ہو جاتا ہے، تخلیق اور ایجاد فروغ نہیں پاتی اور وہ آزادی سے خوف کھانے لگتے ہیں۔ زندہ معاشرے اور مردہ معاشرے میں فرق صرف آزادی کا ہے۔ کاش یہاں بھی کوئی ڈیگال ہوتا۔ ایسا ہوتا تو سارتر بھی پیدا ہو سکتا تھا۔ اے کاش۔