وہ برطانیہ کی ٹاپ یونیورسٹی سے پڑھ کر پاکستان آیا تو اس کا مقصد تاریخ بنانا تھا۔ وہ کچھ کرکے دکھانا چاہتا تھا، اس نے اپنے دامن پر جانب داری اور کرپشن کا کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ وہ بہت محنت سے اپنا مقام بناتا گیا، اس کی ساکھ بھی اچھی تھی مگر پھر وہی ہوا جو ہر بڑے آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاریخ امتحان لیتی ہے، دیکھتی ہے کہ آپ اصول پر کھڑے ہیں یا بڑے آدمی ہوکر مصلحت کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ تاریخ کا بڑا شائق ہے اور ہر باضمیر کی طرح تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا ہے مگر اب ایک ساتھی کے احتساب کا دبائو آگیا۔ اس کے جانے میں چند ماہ باقی ہیں، تاریخ اس کے عدل کا فیصلہ اس امتحان کی بنیاد پر ہی کرے گی، فریق دو ہیں، ایک ساتھی اور دوسرے طاقتور حلقے اور حکومت۔ تاریخ منتظر ہے کہ تاریخ کا طالب علم کیا فیصلہ کرے گا؟
ساتھی بھی کوئی عام نہیں، وہ ملک بنانے والوں کا فرزند ہے۔ اس کے مخالف بھی اس کی مالی دیانت کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ بے خوف ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی بے خوف ہے۔ سرعام ایسی باتیں کر جاتا ہے جو طاقتوروں کو نالاں کر دیتی ہیں۔ اس نے ایسے فیصلے لکھے ہیں جس میں مقتدرہ کی سیاسی اور انتظامی مداخلت پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ اس کے خلاف ریفرنس میں بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا، بلکہ کہا گیا ہے کہ اس کی اہلیہ کے غیر ملکی اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ یوں اس نے ملکی قوانین کے مطابق جرم کیا ہے۔ معاملہ تاریخ کی عدالت میں ہے اور اہم ترین کردار تاریخ کے اس طالب علم کا ہوگا جو تاریخ بنانا چاہتا ہے۔
اور وہ جس نے ریفرنس بنوایا اور بھجوایا، بہت عقلمند ہے، فروغِ عقل پر یقین رکھتا ہے، بادِ نسیم کی طرح مشکل راہوں پر چل کر بھی اپنا مقصد حاصل کرتا آیا ہے، متحدہ کی چیر پھاڑ کا کامیاب آپریشن ایسے طریقے سے کیا ہے کہ "دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ" دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ شریف الدین پیرزادہ جیسا عقلمند نکلے گا یا عاصمہ جہانگیر جیسا۔ شریف الدین پیرزادہ نے اپنی ساری عقل آمروں کے حق میں اور عوام کے خلاف استعمال کی، آج ان کی برسی منانے والا بھی کوئی نہیں۔ دوسری طرف عاصمہ جہانگیر نے غریبوں اور مظلوموں کی حمایت کی۔ وہ مر گئی مگر اس کا نام اب بھی گونجتا ہے۔ عقلمند وہ نہیں جو اپنے زمانے میں اپنی عقل سے فوائد سمیٹتا ہے اور اس کے بدلے میں اپنی عقل عوامی مفاد کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ یاد رکھیں تاریخ میں زندہ وہ رہتا ہے جو اپنی صلاحیتیں اور عقل و دانش عوام کے حق میں استعمال کرتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ فروغِ عقل کا ہمراہی ہے، بادِ نسیم کا جھونکا ہے یا پھر تاریخ کا ایک ناگوار لمحہ۔ فیصلہ تو انسان نے بہرحال خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ تاریخ میں انسان زندہ کیسے رہتا ہے، کوئی لشکر یزید کا سربراہ ہو بھی تو اسے مذمت ملتی ہے اور کوئی قافلہ حسینؓ کا گمنام سپاہی بھی ہو تو اسے سرفرازی ملتی ہے۔ طوفان پورے زور پر ہو، آندھیاں اور جھکڑ چل رہے ہوں تو ایسے میں بڑے آدمی خطرات، تحفظات اور مفادات سے بے پروا ہوکر کمزوروں اور مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں۔ منصف کا فیصلہ عارضی ہوتا ہے، اس کا اثر جسموں پر ہوتا ہے مگر تاریخ کا فیصلہ دائمی اور اٹل ہوتا ہے۔ اس فیصلے کا اثر روحوں پر ہوتا ہے۔ سقراط کو منصفوں نے انصاف نہ دیا، اسے زہر کا پیالہ پلا دیا گیا مگر تاریخ کے عدل میں سقراط آج بھی زندہ ہے۔ گلیلیو اور ابنِ رشد کے خلاف بھی منصفوں اور قاضیوں نے مذہبی عقائد سے پھرنے کے الزامات عائد کئے مگر تاریخ کی عدالت میں آج گلیلیو جدید سائنس کا بانی اور ابنِ رشد عالم اسلام کا عظیم ترین سائنس دان کہلاتا ہے۔ آج گیند جس کورٹ میں بھیجی گئی ہے اسی نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ تاریخ میں زندہ رہے گا، بہادری اور جرأتمندی سے مظلوموں کا ساتھ دےگا یا پھر دنیاوی وقار کے نشے میں عوامی آدرشوں کو تاراج کرکے طاقتوروں کی داد حاصل کرے گا؟
اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کہنا مشکل ہے۔ برصغیر کی روایت البتہ یہی ہے کہ پانی نشیبی علاقوں کی طرف ہی بہتا ہے، کمزور ہی پستے رہے ہیں اور طاقتور ہمیشہ سے ہی راج کرتے رہے ہیں لیکن منطقی طور پر دو ہی فیصلے ممکن ہیں؛ ایک یہ کہ الزام کو درست مان کر بانیانِ پاکستان کے فرزند کو فارغ کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ الزام کو مسترد کرکے ریفرنس بھیجنے والوں کو شرمندہ کر دیا جائے۔ الزام درست قرار دیا جاتا ہے تو وہ اپنے گھر چلا جائے گا، یوں عظمیٰ کے گھر میں واحد اختلافی آواز بھی ختم ہو جائے گی۔ دھرنے اور دوسری شرارتوں پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں رہے گا۔ سقراط کو بھی اسی لئے مارا گیا تھا کہ معاشرے میں کوئی اختلاف نہ کر سکے۔ گلیلیو اور ابن رشد بھی اسی جذبے کا شکار ہوئے تھے، ایک اور قربانی سہی۔ وہ قاضی القضاۃ نہیں بن سکے گا اور کوئی دوسرا اعجاز دکھا کر ایک کی بجائے دو سال احسن طریقے سے نظام چلائے گا، نہ مقتدرہ کو فکر ہوگی اور نہ حکومت کو۔ نہ سقراط ہوگا اور نہ اختلاف۔ وہ گیا تو عظمیٰ کے گھر سے اختلاف کی برکت بھی جاتی رہے گی پھر سب ایک ہی آواز اور ایک ہی سُر میں راگ الاپیں گے۔ ایک پرندہ اڑ بھی گیا تو کیا؟ ایک عقاب مر بھی گیا تو کیا؟
کسی کو فرق پڑے نہ پڑے، اہلِ ضمیر کو تو فرق پڑتا ہے، باضمیر کا خون کھول اٹھتا ہے۔ شیر کا بیٹا بھی شیر ہی نکلا۔ فخر الدین عرف فخرو بھائی ہر اصولی اختلاف پر ا ستعفیٰ دے مارتے تھے، ان کا بیٹا زاہد بھی باپ پر ہی گیا۔ ادھر ریفرنس آیا، ادھر اس نے جھٹ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ چاہے اس سے ذرہ برابر بھی فرق نہ پڑے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ زاہد فخرو کا شمار باضمیروں میں ہوگا۔
اس سارے معاملے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریفرنس کو کابینہ سے بالا بالا ہی رکھا گیا۔ نہ کسی وزیر سے مشورہ کیا گیا اور نہ ہی اس معاملے کے سیاسی فال آئوٹ پر رائے لی گئی۔ اصل میں حکومت کو نہ حزب مخالف کا خوف ہے اور نہ ہی وکلاء کے ردعمل کا۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ مقتدر ادارے مکمل طور پر اس کی پشت پر ہیں۔ اس وجہ سے ہٹائے جانے کا خوف تک نہیں۔ اس حد تک تو یہ معاملہ صحیح ہے لیکن اگر ردعمل بڑھ گیا تو پھر منصف برادران ہوں یا مقتدرہ کے افسران، سب ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس معاملے پر تحریک نہیں چل سکتی۔ وہ کہتے ہیں اگر ریفرنس ناکام بھی ہوگیا تو شریف منصف باعزت بری ہوکر بھی استعفیٰ دیدے گا، یوں ریفرنس کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں نڈر منصف کو گھر بھیجنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اگر تو فیصلہ حکومتوں نے کرنا ہے تو اسے کئی عوامل اور حالات کا سامنا کرنا ہوگا، وہ عظمیٰ کے گھر میں رہے یا نہ رہے، تاریخ کے عدل میں ضرور سرخرو ہوگا لیکن وہ منصف یاد رکھے کہ مسئلہ کا حل استعفیٰ نہیں بلکہ ڈٹ جانا ہے۔