کتنی دلچسپ بات ہے کہ حکومت مسلم لیگ ن کی بن رہی ہے لیکن جیت تحریک انصاف کی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر چائے کے ڈھابوں تک ہونے والی گفتگو سنیں تو لگتا ہے عمران خان جیت گیا ہے۔ وہ عمران خان جو جیل میں ہے اور شاید اسے ان ساری باتوں کا بھی علم نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ جیل کی دیواریں سماعتوں پر پہرہ لگا دیتی ہیں۔ ہوا کے دوش پر آنے والے جملے افواہوں میں بدل جاتے ہیں۔ الیکشن لڑنے والے امیدواروں سے لے کر ووٹرز تک سے عمران خان کا کوئی رابطہ تھا اور نہ ہی عمران خان انہیں یہ بتا سکتے تھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہر حلقہ میں تحریک انصاف کے ووٹرز کو علم تھا کہ نصف درجن آزاد امیدواروں میں سے عمران خان کا حمایت یافتہ امیدوار کون ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ملک کی بڑی جماعتیں ہیں۔ پارلیمنٹ کی نمبر گیم میں مسلم لیگ ن ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے لیگی سیاست دان فخریہ یہی بات کہنے سے کیوں شرما رہے ہیں؟ حقیقت اعداد کا گورکھ دھندہ نہیں ہوتی ورنہ یزید کے مقابلے میں امام حسینؓ کیساتھ بڑا لشکر تھا اور نہ ہی جنگ کا عددی فیصلہ ان کے حق میں ہوا تھا۔ مورخ اگر نمبر گیم پر تاریخ لکھتا تویقینا یزید فاتح قرار پاتا جس کا لشکر مدمقابل لشکر کو مکمل طور پر ختم کرکے لوٹا تھا۔ کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ کیا تاریخ نے یزید کو فاتح قرار دینے کی جسارت کی؟
فافن سمیت دیگر رپورٹس سامنے آ چکی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے بطور میڈیا آبزرور میں نے لاہور کے کئی پولنگ سٹیشن کا جائزہ لیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ملک بھر میں پولنگ کے عمل پر اعتراض نہیں ہوا۔ 2018 کی طرح 2024 میں بھی پولنگ کے دوران معاملات بہتر رہے۔ دونوں الیکشن میں سوالات پولنگ کے بعد ہونے والی گنتی کے مرحلے پر اٹھائے گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے دونوں الیکشن ڈیجیٹل میڈیا پولیٹیکل سٹرٹیجی کی مدد سے جیتے جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی 90 کی دہائی سے باہر نہیں نکلے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت یہ سمجھ ہی نہیں پا رہی کہ اس الیکشن میں 23.5 ملین رجسٹرووٹرز کی عمر 18 سے 25 سال کے درمیان تھی۔
یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے موٹروے سے پہلے کی مشکلات اور سفری حالات اپنی زندگی میں دیکھے ہی نہیں۔ اس ووٹر کے سامنے آپ موٹروے کا کریڈٹ لے کر اسے اپنی جانب کیسے متوجہ کر سکتے ہیں؟ حالیہ الیکشن کمپین میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کی الیکشن کمپین روایتی الیکشن کمپین کی طرز پر ہی تھی جبکہ اس میں بھی امیدواروں کی جانب سے زیادہ دلچسپی نظر نہیں آئی۔ صرف مسلم لیگ ن لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر کسی حد تک ڈیجیٹل کمپین پر توجہ دیتے نظر آئے البتہ انہوں نے بھی جو سٹرٹیجی اپنائی وہ اب ڈیجیٹل ورلڈ میں پرانی ہو چکی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے اپنا بیانیہ بنانے کا کریڈٹ تاحال تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ ٹویٹر سپیس سے لے کر ٹک ٹاک جلسہ اور پھر اپنے امیدواروں کی شناخت کے لیے ٹویٹر سے علاقائی واٹس ایپ لنک تک رسائی دینے کے عمل تک تحریک انصاف کے ڈیجیٹل میڈیا ونگ نے نہ صرف انتہائی پروفیشنل ہونے کا ثبوت دیا بلکہ خود کو فاتح کے طور پر بھی منوایا۔ تحریک انصاف پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے ٹویٹر سپیس، آن لائن جلسہ اور ٹک ٹاک جلسہ سمیت دیگر جدید راستے اپنائے۔
بدقسمتی سے دیگر سیاسی جماعتوں میں ڈیجیٹل میڈیا سیل میں بھی سیاسی اور سفارشی بھرتیوں کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اپنے ہی ایسے بیٹے، بھتیجے، بھانجے یا دوست کو سیل کا کرتا دھرتا بنا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ نیچے موجود ٹیم سے نتائج حاصل کر لیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ میری اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عدم اعتماد سے قبل عمران خان کی حکومت ناکام ہو چکی تھی۔ کرپشن، مس مینجمنٹ، مہنگائی اور غیر سنجیدہ بیانات نے ان کی مقبولیت میں انتہائی کمی کر دی تھی۔ حریم شاہ ایسی ٹک ٹاکرز کی وزیر اعظم سیکرٹریٹ تک رسائی اور وہاں ہونے والی غیر مہذب حرکتوں سے لے کر شہباز گل جیسے غیر سنجیدہ امپورٹڈ سیاست دانوں کی جگتوں نے عوام کو متنفر کر دیا تھا۔
ملک دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔ اگر اس وقت جنرل الیکشن ہوتے تو شاید عمران خان کو عوامی سپورٹ نہ مل پاتی لیکن اس کے بعد جو ہوا اس کو عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا سیل نے انتہائی کامیابی سے اپنے حق میں استعمال کیا۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ پولنگ کی رات سے کتنے جعلی فارم 45 سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے جن کا اصل فارم سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اگر آپ کے پاس اسے کائونٹر کرنے کے لیے کوئی ٹیم اور سٹرٹیجی ہی نہیں تھی تو پھر یہ وہ "مکا" ہے جو لڑائی کے بعد اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ اب آپ لاکھ وضاحتیں کریں لیکن عوام کے نزدیک وہ فارم اصلی تھے اور انہیں جعل سازی سے تبدیل کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے نہ صرف الیکشن کمپین میں بہت اچھا کھیلا بلکہ پولنگ کے بعد بھی ان کی بھرپور ڈیجیٹل سٹرٹیجی سامنے آئی جس کے مقابلے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس کچھ نہیں تھا۔
اب مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی و دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ شہباز شریف وزیر اعظم جبکہ مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گی۔ دونوں کو صوبائی اور قومی سطح پر انتہائی مضبوط اور مکمل چارج اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایسی اپوزیشن ہے جو متحد رہی تو اس کی پشت پناہی کرنے والا سوشل میڈیا سیل پہلے دن سے ہی تارے دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا اگلی حکومت کا کوئی بیانیہ بننے دے گا اور نہ ہی انہیں کسی چیز کا کریڈٹ لینے دے گا۔
حکومت کو معاشی بحران سمیت انتہائی سنگین مسائل کا سامنا ہوگا اور اسی دوران ہر ناکامی کا ملبہ تو حکومت پر ڈالا ہی جائے گا الٹا کامیاب منصوبوں کو بھی ڈیجیٹل میڈیا پر زیروثابت کر دیا جائے گا۔ اگرکوئی شک ہے تو اقتدار سنبھالنے کے بعد اگلے چند ہفتوں میں اس کا تجربہ بھی کرکے دیکھ لیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں ہی ایسا کانٹوں بھرا تاج اپنے سر پر رکھ رہے ہیں جسے اتارنا بھی عذاب بن جاتا ہے۔
اس صورت حال سے بچنے کے لیے روایتی پروٹوکول سے باہر نکلنا ہوگا اور ماہرین پر مشتمل ڈیجیٹل میڈیا سیل ڈیزائن کرنا ہوگا تاکہ پہلے دن سے ہی حکومت کا بیانیہ عوام تک پہنچے اور رائے عامہ ہموار ہو۔ اگر یہ جماعتیں پرانے افراد اور پرانی ٹیم کی واہ واہ کے ساتھ اسی طرح کام چلانے کی کوشش کرتی رہیں تو نوشتہ دیوار تو سامنے ہی ہے کہ حکومت مسلم لیگ ن بنا رہی ہے لیکن گلی کوچوں میں فاتح عمران خان کو قرار دیا جا رہا ہے۔