Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Aap Ki Wazir e Aala Aur Digital Propaganda War

Aap Ki Wazir e Aala Aur Digital Propaganda War

مسلم لیگ ن کو تحریک انصاف کا ایک فائدہ تو یہ بھی ہوا کہ روایتی سیاست کی علامت سمجھی جانے والی اس جماعت کے راہنماؤں کو سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا۔ وزیراعلی پنجاب مریم نواز اقتدار کے سنبھالتے ہی سوشل میڈیا پر متحرک ہو چکی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ان کے ہر دورے اور میٹنگ کی نہ صرف ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے روزانہ کے کام کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر آگاہ کرتی ہیں جس سے لگ رہا ہے کہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ عمران خان کے بنائے بیانیے کو کس پلیٹ فارم کی مدد سے توڑا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم ان کی ویڈیوز کو مسلسل کاؤنٹر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ اس پر مختلف اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں اور ان ویڈیوز کی تکنیکی خامیوں کو تلاش کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں محض ایک پلانٹڈ ڈرامہ قرار دیا جا سکے۔ یہ ساری کوشش وہی ٹیم کر رہی ہے جو ماضی میں رمضان کی دوپہر 12 بجے سموسے بیچنے والے سے اس کے اکلوتے گاہک یعنی عمران خان سے مکالمے کو بیانیہ بنا کر وائرل کرتی رہی ہے۔ بہرحال یہ ایک ڈیجیٹل جنگ ہے اور کہا جاتا ہے جنگ میں سب جائز ہے۔

پولیٹیکل امیج بلڈنگ کی یہ جنگ اب سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہے دونوں جانب سے میدان سج چکا ہے۔ ڈیجیٹل اسلحے سے لیس لشکری ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ ماضی میں تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر اپنے بیانیے کو مضبوط بنانے کے لیے بے شمار نوجوانوں کو سوشل میڈیا ٹیم کے طور پر بھرتی کیا اور انہیں باقاعدہ امیج بلڈنگ کی ٹریننگ دی گئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں سرکاری کانٹریکٹ پر بھرتی کرنے کے بعد "کارکن" بنا لیا گیا کیونکہ بھرتی ہی ان نوجوانوں کو کیا گیا تھا جو تحریک انصاف کے لیے سافٹ کارنر رکھتے تھے۔ وہ جو کام سوشل میڈیا پر بطور کارکن کر رہے تھے انہیں اسی کام کی تنخواہ اور پروٹوکول ملنا شروع ہوا تو ان کے بیانیے میں شدت آ گئی جو انتہا پسندی تک پہنچ گئی۔ آج بھی وہی نوجوان رضاکارانہ طور ر منظم ہو کر عمران خان کے لیے بیانیہ بنانے میں مگن ہیں۔

میری پی ایچ ڈی کا موضوع بھی چونکہ ڈیجیٹل پولیٹیکل کمیونیکیشن سے جڑا ہے اس لیے میں جانتا ہوں کہ عام کمپین کی نسبت پولیٹیکل کمپین اور امیج بلڈنگ کتنا مشکل کام ہے۔ اس میں مخالفین بھی اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے حامی ہوں اور سوشل میڈیا پر ہونے والی معمولی سے معمولی خامی یا کمزوری کا بھرپور پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔ یہاں غلطی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ مریم نواز کی امیج بلڈنگ کے لیے کام کرنے والی ٹیم اس حوالے سے کمزور نظر آتی ہے یا پھر وہ وزیراعلی کے عہدے کے رعب تلے دبی ہوئی ہے۔ عمران خان کی یہ خوبی تھی کہ وہ اپنی ڈیجیٹل میڈیا اور پروڈکشن ٹیم کے سامنے سرنڈر کر دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پروفیشنلز اپنے کام کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ ٹیم ان کی نشست و برخاست، ایکشن، لائٹس، فیس ایکسپریشن سمیت ہر حوالے سے "ہدایات" دینے کا مکمل اختیار رکھتی تھی۔

اگلے روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی جس میں وہ سی سی پی او لاہور اور سب انسپکٹر یاسر سے گفتگو کر رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز نے اس میٹنگ میں اپنے ایم پی ایز کے رویے پر معذرت کی اور یاسر کو اسی طرح فرض کی ادائیگی کا حکم دیا۔ ویڈیو میں خاتون وزیراعلیٰ کو انتہائی مہربان دکھایا گیا ہے جو فرض شناس آفیسر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں لیکن انہی آفیسرز کے بیٹھنے اور گفتگو کرنے کا انداز اس کی نفی کر رہا ہے۔ سی سی پی او لاہور اور ان کے سب انسپکٹر یاسر اپنی مخاطب وزیراعلیٰ کی جانب دیکھنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ایک اچھا ڈیجیٹل میڈیا ہیڈ یا پروڈیوسر اگر موجود ہوتا تو اس خامی پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اگر سوشل میڈیا پر عمران خان کے بیانیے کے اثرات زائل کرنے ہیں تو انہیں اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو "ڈائریکشن" کے مکمل اختیارات دینے ہوں گے۔

یہ تو طے ہے کہ اب عوامی بیانیہ ڈیجیٹل میڈیا پر بنے گا۔ یہ جنگ اسی پلیٹ فارم پر لڑی جائے گی۔ پنجاب میں عظمی بخاری وزیر اطلاعات ہیں جو نہ صرف کارکن راہنما سمجھی جاتی ہیں بلکہ ان کے میڈیا کے ساتھ بھی اچھے روابط ہیں۔ مسلم لیگ ن عظمی بخاری، سعد رفیق، خواجہ احمد حسان، عطا تارڑ اور ایسے ہی دیگر راہنماؤں کو ٹاسک دے سکتی ہے جو میڈیا اور سوشل میڈیا کی اہمیت سے واقف ہیں اور کسی حد تک متحرک بھی رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن اگر اپنے اچھے کاموں کو عوام تک پہنچانا چاہتی ہے تو اسے بھی تحریک انصاف کی طرح اپنے سوشل میڈیا سیلز اور کمیٹیاں بنانی ہوں گی اور ان سب کو روایتی سیاسی عہدوں سے آزاد رکھتے ہوئے انٹیگریٹڈ سسٹم کے تحت لنک آپ کرنا ہوگا۔ یہ مشکل کام ہے کیونکہ اس میں سیاست دان اپنے نان پروفیشنل بھتیجے بھانجوں کو شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے دیگر راہنماؤں کو بھی ایکسپرٹس پر مشتمل اپنا اپنا سوشل میڈیا سیل بنانا ہوگا جو مرکزی سیل سے لنک آپ ہو۔ اگر یہ سب نہ کیا گیا تو پھر بہت اچھے آئیڈیا پر بنی ویڈیو بھی سبکی کا باعث بن جائے گی۔

مریم نواز نے بطور وزیراعلی پنجاب جس طرح سوشل میڈیا اور امیج بلڈنگ پر توجہ دی وہ قابل ستائش ہے۔ دور جدید کا یہی تقاضہ ہے لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جب تک اپنے روایتی سیاست دانوں کے سفارشی عہدے داروں سے جان چھڑا کر پروفیشنل سٹریٹیجی ایکسپرٹس کے ساتھ گراؤنڈ لیول تک ڈیجیٹل میڈیا ٹیمیں تشکیل دے کر کام نہیں کریں گی تب تک عمران خان کی ایکسپرٹ ٹیموں کے بیانیے کو زائل کرنا ممکن نہیں ہے۔