ہم بحیثیت مجموعی انتہا پسند قوم ہیں۔ ہم کبھی ایک انتہا پر نظر آتے ہیں تو کبھی دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں۔ ہم مذہبی بنیں تو ضیا الحق کی طرح پورے ملک کا سٹریکچر بدل دیتے ہیں اور لبرل ازم کا بھوت سوار ہو تو اسی مملکت خداداد میں مشرف مختصر لباس میں سڑکوں پر خواتین کی میراتھن بھی کروا دیتے ہیں۔ ہم جب افغان جنگ میں شریک ہوتے ہیں تو اسے افغان جہاد بنا دیتے ہیں اور جب9/11 کے بعد یوٹرن لیتے ہیں تو انہی تیار کردہ جنگجوؤں پر پابندیاں لگا کر انہیں دہشت گرد ڈکلیئر کر دیتے ہیں۔
ہم نے اتنا نقصان شاید افغان جنگ میں نہیں اٹھایا جتنا اس کے بعد اٹھایا ہے۔ ہم نے اس کے لئے 70 ہزار سے زائد جانیں قربان کر دیں اور ایک پوری دہائی فرقہ وارانہ جنگ و جدل میں گزر گئی اور اگلی دہائی خودکش دھماکوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پالیسیاں تبدیل کرتے وقت ریاست نے نہ تو درمیان میں اتنا وقت دیا کہ عوام کا مائینڈ سیٹ ہو پاتا اور نہ ہی اس ملک میں مکالمہ کو فروغ دیا گیا۔ ہم نے مکالمہ کی جگہ الزامات اور گالم گلوچ کا کلچر اپنا لیا۔ بدقسمتی سے نہ تو عوام نے اپنے ہی اداروں کو اپنا سمجھا اور نہ ہی اداروں نے عوام کو اپنا سمجھا۔
پولیس ڈیپارٹمٹ سے بات کریں تو انہیں شکوہ ہے کہ عوام اپنے اس ادارے کو اپنا نہیں سمجھتی۔ عوام سے بات کریں تو ان کے پاس شکایات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ پانامہ اس ملک کے لیے پولیٹیکل انجینئرنگ کا سہولت کار بننے کے بعد دفن ہو چکا ہے۔ کل کے صادق و امین اور ریاست پاکستان کے معمار عمران خان آج اتنے ہی کرپٹ، جھوٹے اور انتہا درجے کیکریکٹر لیس ثابت کیے جا رہے ہیں۔
انتہا پسندی پر مبنی یہ رویہ صرف سیاست دانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہماری بیوروکریسی کی پالیسیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔ ایک بچہ روڈ ایکسیڈنٹ میں ایک فیملی کے 6 افراد کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے تو کھلبلی مچ جاتی ہے۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کا طریقہ یہ نکالا جاتا ہے کہ کم عمر بچوں پر مقدمات درج کیے جائیں اور پھر آئی جی پنجاب انتہا پر چلے جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ 2012 میں جب میری کتاب "خودکش بمبار کے تعاقب میں" شائع ہوئی تب پاکستان میں موجود طالبان سفاکیت پر اترے ہوئے تھے۔ اب عزت مآب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور بھی اپنی ذات میں ایسے ہی طالب بنے ہوئے ہیں جنہوں نے مستقبل کے جانے کتنے فوجی افسران کا کیئریر تباہ کر دیا ہے اور شاید ان بچوں میں موجود پازٹیو خیالات اور بہادرانہ صلاحیتیں مجرمانہ سرگرمیوں میں تبدیل ہو جائیں۔ ایک بچہ جسے بتایا جا رہا ہے کہ اب وہ نہ تو سرکاری ملازمت کا اہل ہے اور نہ ہی اسے اسکالر شپ اور ویزہ مل پائے گا۔ اس کے لیے آئندہ زندگی کے ہرمثبت کام میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی کیونکہ وہ ایک آئی جی کی ظالمانہ پالیسی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے تو اندازہ لگائیں وہ کیا بنے گا۔
بدقسمتی سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کا کام جرائم کی روک تھام اور لوگوں کو تحفظ مہیا کرنا ہے لیکن خوش قسمتی سے اس جانب آئی جی پنجاب کی توجہ ہی نہیں ہوئی ورنہ جانے کیا ہوتا۔ آئی جی پنجاب کے کریڈیٹ پر صرف ایک کام نظر آتا ہے کہ انہوں نے فورس کی ترقیاں دیں اور اپنے ملازمین کی ویلفیئر کے لیے کام کیا لیکن اگرعوام کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پولیس نے ان کی قیادت میں صرف عوام کے ٹیکس کے ضیاع کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا عوام ٹیکس اس لیے ادا کرتی ہے کہ اس ٹیکس کے پیسوں سے ذاتی پروجیکشن، ٹک ٹاک، بڑے کھانے اور دیگر عیاشیاں کی جائیں۔ یہ سب بھی قابل قبول ہے اگر لاہور میں ہی روزانہ اوسطاً 600 کے زائد وارداتیں نہ ہوتی ہوں۔ آئی جی پنجاب کا کریڈیٹ ہے کہ انہوں نے لاہور کے ایک تھانے کو اچھے ہوٹل میں تبدیل کر دیا جہاں آنے والے سائلین چائے، کافی سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اب اس پر ہنسا جائے یا رویا جائے کہ انہیں شاید یہ اندازہ نہیں کہ شہری پولیس اسٹیشن میں کیوں آتے ہیں اور ان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔
شاید آئی جی پنجاب نے سوچا ہو کہ جس ماں کا بیٹا قتل ہوا ہے یا جس کی بیٹی کا جہیز چوری ہوگیا یا پھر جس شخص کی ماہانہ تنخواہ ڈاکو چھین کر لے گئے ہیں اسے پولیس اسٹیشن بیٹھ کر کافی پینی چاہیے۔ پولیس اسٹیشن کے رویے تبدیل کیے بغیر یہ سب اقدامات بتاتے ہیں کہ پولیس سربراہ کو عوام کے مسائل سے کتنی دلچسپی ہے اور وہ عملی پولیسنگ سے کس حد تک واقف ہیں۔ اسی طرح اب بچوں پر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ ہزاروں بچے اس وقت عدالتی حکم کے منتظر ہیں تاکہ ان کا کرمینل ریکارڈ ختم ہو، عدالت ان بچوں کے لیے یقینا اچھا فیصلہ کرے گی لیکن ان کے دل میں پولیس کے خلاف جو نفرت پیدا کر دی گئی ہے وہ عمر بھرمحکمہ پولیس کا تعاقب کرتی رہے گی۔
یہ آج کی بات نہیں ہے، ایک نسل کا سفر ہے۔ تب آئی جی پنجاب شایداس دنیا میں نہ ہوں اور یہ بچے بھی بچپن اور لڑکپن کی سرحدوں سے آگے جا چکے ہوں لیکن اس وقت بھی پولیس کو دیکھ کر یہ ڈاکٹر عثمان انور کے بارے میں جو کہیں گے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قبر بھاری کرنا اور مرنے کے کئی سال بعد تک بددعاؤں کے حصار میں رہنا بھی تو ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یہ توفیق بھی کسی کسی صاحب اختیار کو ملتی ہے۔ انتہا دیکھئے کہ ایک ہی دن میں پنجاب میں 95 ہزار لرنر ڈرائیونگ لائسنس بنائے گئے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے اس کے باوجود لائسنس سنٹرز کے باہر لائنیں لگی ہوئی ہیں اور لوگ بددعائیں دے رہے ہیں۔
آئی جی پنجاب کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ اب بوڑھے ہو چکے ہیں اور ہر بوڑھا شیر دماغی طور پر چست نہیں رہتا۔ وہ جب تک دھوپ میں لیٹا رہے تب تک اس کی دھاک قائم رہتی ہے لیکن اگر ہرن کے پیچھے بھاگنے لگے تو جلد ہی اس کا پول کھل جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا ہے ایک دن اس انتہا پر جانے کی بجائے ٹریفک اور پولیس کا نظام بہتر کیا جاتا۔ حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ جن بچوں پر مقدمات درج کیے گئے ہیں ان کے سکول اور کالج تک پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی موجود ہے یا نہیں۔ لاہورمیں میٹرو بس اور ٹرین کے روٹ پر کس مافیا نے متبادل پبلک ٹرانسپورٹ کا خاتمہ کیا تھا۔ پورے لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کیا نظام ہے؟ اب چنگچی رکشے بھی بند کیے جا رہے ہیں۔ یہ بند ہونے چاہئیں لیکن سوال پھر وہی ہے کہ اس کے متبادل ٹرانسپورٹ کا کیا نظام دیا گیا ہے۔
آئی جی پنجاب، محسن نقوی اور دیگر بیوروکریسی ا س ملک کی اس کلاس میں شامل ہو چکی ہے جن کے نزدیک غریب وہ ہے جو اوبر یا کریم کار اور رکشہ سروس استعمال کرتا ہے۔ شاید انہیں علم نہیں کہ اس ملک کا غریب ہر روز 500 سے 1ہزار اور بعض صورتوں میں 1500 تک صرف سکول کالج آنے جانے کے لیے خرچ کرنے کا اہل نہیں ہے۔ ہم نے اپنی جابرانہ اور ظالمانہ پالیسیاور انتہا پسندانہ فطرت کے باعث مستقبل کے کئی طالب علموں کو گھر بٹھا دیا ہے۔