ہم جہاں وقت گزارتے ہیں دنیا وہیں سے پیسے کما رہی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا نے دنیا کو حقیقی معنوں میں گلوبل ولیج بنا دیا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، ٹک ٹاک سمیت درجنوں سوشل میڈیا پلیٹ فارم اپنے صارفین سے ایک روپیہ بھی نہیں لیتے اس کے باوجود ان کے مالکان دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ کیا آپ نے سوچا کہ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا مقصد کیا ہے جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم خصوصاً، فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام، ٹک ٹاک و غیرہ بنیادی طور پر بزنس پلیٹ فارم ہیں۔ ان کی کمائی کا بڑا ذریعہ ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ ہے۔ یہاں ملٹی نیشنل کمپنیز اپنی برانڈنگ کرتی ہیں۔ سماجی رابطوں کے ان پلیٹ فارمز پر ہماری سوچ سے زیادہ بزنس ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ اسے صرف تفریح یا وقت گزاری کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ماضی میں جو کام بل بورڈز، فلیکس بینر اور پمفلٹ کے ذریعے ہوتا تھا اب اس سے کہیں بہتر انداز میں وہی کام ڈیجیٹل ورلڈ میں ہو رہا ہے۔ اگلے روز میں نے ایک سیاست دان کو "ڈیجیٹل پولیٹیکل کمپین" کے بارے میں بتایا تو معلوم ہوا کہ روایتی سیاست دانوں کی طرح انہیں بھی یہی لگتا تھا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی کمپین کا حلقہ کی سطح پر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ملکی سطح پر چلائی گئی کمپین کا ایک حصہ ہو سکتی ہے۔ کہنے لگے: شاہ اس وقت تو صرف حلقہ پر فوکس ہے۔
میں نے انہیں بتایا کہ ڈیجیٹل پولیٹیکل کمپین ہی نہیں بلکہ مارکیٹنگ اور برانڈنگ میں بھی مخصوص علاقوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اگر آپ ایکسپرٹ سے اپنی کمپین ڈیزائن کرائیں گے تو آپ کی کمپین صرف آپ کے حلقہ کے افراد کو ہی نظر آ رہی ہوگی اور اگر اس پر تھوڑا زیادہ بجٹ لگا دیں گے تو اس بات کی گارنٹی ہوگی کہ الیکشن تک آپ کے حلقے کے ہر ایسے فرد تک آپ کی کمپین کا اشتہار پہنچ چکا ہوگا جو یہاں سے آن لائن ہوا ہوگا۔ روایتی الیکشن مہم میں بات لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ چکی ہے لیکن اس کے مقابلے میں ڈیجیٹل کمپین بہت سستی ہے۔
بات صرف الیکشن کمپین تک نہیں ہے بلکہ ڈیجیٹل ورلڈ بیروزگاری اور مہنگائی کے اس دور میں کسی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ اس نے سفارش کلچر کا خاتمہ کرکے روزگار کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ خاص طور پر میڈیا سے منسلک افراد کے لیے یہ اور بھی زیادہ آسان ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی خود میڈیا ہائوس کے مالک ہیں لیکن وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اخبارات کے بعد اب ٹی وی چینلز کا دور بھی ختم ہو رہا ہے اور موجودہ دور ڈیجیٹل میڈیا کا ہے۔ انہوں نے پنجاب کے پریس کلبس کو گرانٹ دیتے وقت اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس رقم کو صحافیوں کی ڈ یجیٹل سکلز پر لگایا جائے۔ اسلام آباد اور کراچی کے بعد اب لاہور پریس کلب میں بھی ڈیجیٹل سٹوڈیو بن چکا ہے جس کا بنیادی مقصد لاہور پریس کلب کے ممبران کو ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے سہولیات مہیا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جلد ہی لاہور پریس کلب کے ممبران کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کے کورسز کا بھی آغاز کیا جا رہا ہے تاکہ بے روزگاری، ڈائون سائزنگ اور کم آمدنی جیسے مسائل حل ہو سکیں۔
سینئر نائب صدر شیراز حسنات اس حوالے سے کافی متحرک ہیں اور اس کام کا روڈ میپ تیار کر چکے ہیں۔ اگر آپ لاہور پریس کلب کے ممبر ہیں تو اس سہولت سے لازمی فائدہ اٹھائیں لیکن اگر آپ پریس کلب کے ممبر نہیں تب بھی کم از کم دو سکلز لازمی سیکھ لیں۔ سب سے پہلے تو ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ یا کم از کم فیس بک مارکیٹنگ کا ہنر لازمی سیکھ لیں۔ اس سے آپ ہر چیز آن لائن بیچنے کا فن سیکھ لیں گے۔ اس کے بعد ویڈیو ایڈیٹنگ، گرافک ڈیزائننگ، ایس ای او وغیرہ میں سے کوئی ایک سکل سیکھ لیں۔
اگر آپ کسی ایکسپرٹ کے پاس مفت کام کرکے بھی یہ ہنر سیکھ لیں تو ایک ماہ میں بنیادی کام سیکھ جائیں گے۔ اگلا ایک ماہ اس کی پریکٹس کر لیں۔ یہ دو ماہ آپ کو بے روزگاری کے خوف سے آزاد کر دیں گے۔ آپ کو خود اپنا ہنر بیچنا آ جائے گا۔ اصطلاح میں آپ گھر بیٹھے پیسے کمانے لگیں گے۔ اگر آپ تھوڑا تخلیقی ذہن رکھتے ہیں تو صرف ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ کے ذریعے بھی پیسے کما سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اپنے علاقے کے دو تین پلمبرز سے بات کر لیں اور کمیشن پر ان کے لیے کام کر لیں۔
اب آپ اپنے علاقے کو ٹارگٹ کرکے کمپین لگا دیں کہ اگر کسی کو پلمبر کی ضرورت ہے تو وہ اپنے دفتر یا گھر بیٹھے پلمبر گھر بلا سکتا ہے۔ ایسے بہت سے افراد ہیں جو گھر کا نلکا خراب ہونے پر کئی کئی روز تک جگاڑ لگاتے رہتے ہیں کیونکہ دفتر سے چھٹی کرنا پھر جا کر پلمبر تلاش کرنا اور سارا دن اس پر لگانا اتنا آسانا نہیں ہوتا۔ اب اگر انہیں ایسی سروس مل جائے جس میں پلمبر کے وزٹ کی آن لائن پیمنٹ کرنے پر پلمبر ان کے گھر جائے، مسئلہ دیکھے، سامان کی فہرست اور بل بنائے، اور کام کرکے کوئی بحث کیے بغیر واپس چلا جائے جبکہ صاحب ساری پیمنٹ کمپنی کو دفتر بیٹھے آن لائن ہی کر رہے ہوں تو یہ ایسی سہولت ہے جو تیزی سے پوری علاقے کو آپ کا کسٹمر بنا دے گی۔ اس میں ایک کے بعد ایک سروس شامل کرتے جائیں۔
اوبر، کریم اور ان ڈرائیو سمیت دیگر کمپنیز اسی ماڈل پر کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح آپ مارکیٹنگ سکل کے ساتھ کوئی ایک ہنر سیکھ کر آن لائن کام کرکے پیسے کما سکتے ہیں۔ میں ابھی سب سے ہلکی مگر اہمیت کی حامل سکلز کی بات کر رہا ہوں جو دو تین ہفتوں میں سیکھی جا سکتی ہے۔ اس سے آگے بڑھیں تو ایمازون سمیت ایسے ایسے بزنس پلیٹ فارم موجود ہیں جن سے متعلق کام سیکھ کر پاکستانی نوجوان لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔
گوجرانوالہ کی ایک لڑکی صرف بیوٹی پارلر کی ڈیجیٹل کمپین چلاتی ہے۔ اس نے یہ کام ایک بیوٹی پارلر سے شروع کیا اور اس وقت وہ ایک سو سے زائد بیوٹی پارلرز کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی سروسز مہیا کر رہی ہے۔ اگر اس کا کمیشن یا فیس صرف تین ہزار روپے بھی ہو تو اندازاہ لگا لیں کہ ماہانہ ایک سو سے زائد بیوٹی پارلرز سے وہ کتنے پیسے گھر بیٹھے کما رہی ہے۔
سیاست دانوں سے امید لگانے یا کسی سرکاری نوکری کی امید میں عمر گنوانے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل سکلز بھی سیکھ لیں۔ شروع میں تھوڑا مشکل لگے گا، کلائنٹ بنتے بنتے کچھ وقت لگ جائے گا لیکن آپ ایک بار اس ٹریک پر چل پڑے تو پھر پیچھے مڑ کے دیکھنے کا وقت بھی نہیں ملے گا۔