Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 3 Taza Tareen Waqiat Par Chand Tasurat

3 Taza Tareen Waqiat Par Chand Tasurat

جب ہم آگ میں گھرے ہوں تو حدت اور تپش سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ اگرچہ ہمارے داخلی مسائل بھی نہائت گمبھیرہیں لیکن ہمارے خارجی محاذ پررُونما ہونے والے تازہ ترین واقعات نے بھی ہم سب کو تشویشات میں مبتلا کررکھا ہے۔ ہم ان واقعات و سانحات سے بیگانہ نہیں رہ سکتے۔

دو روز قبل افغانستان کے دارالحکومت میں جو خونریز سانحہ وقوع پذیر ہُوا ہے، بلا شبہ اس نے سب کو خون کے آنسو رلا دیے ہیں۔ 8مئی کی شام کابل کے مغربی حصے میں بروئے کار "سید الشہدا ہائی اسکول" پر کسی شقی القلب نے راکٹ چلا کر ایسا ظلم کیا ہے جس نے تین درجن سے زائد بچوں کو خاک و خون میں ملا دیا ہے۔ مذکورہ اسکول میں طلبا و طالبات کی تین شفٹیں لگتی ہیں۔

دوسری شفٹ میں زیادہ تر بچیاں پڑھتی ہیں ؛ چنانچہ شہید اور شدید زخمی ہونے والے بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی بتائی گئی ہے۔ عید الفطر سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل رُونما ہونے والے اس خونی سانحہ نے سارے عالمِ اسلام کو افسردہ کر دیا ہے۔ کابل کے اسکول پر حملوں سے درجنوں کی تعداد میں شہید ہونے والے بچوں نے ہمیں سات سال پہلے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کیے جانے والے بچوں کی خونی یاد نے ہم سب کے زخم پھر سے ہرے کر دیے ہیں۔

ابھی تک کسی بھی دہشت گرد گروپ نے کابل سانحہ کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد، بھی اس خونی واقعہ کی مذمت کررہے ہیں۔ کچھ انگلیاں اُن افغان گروپوں کی جانب اُٹھ رہی ہیں جو افغانستان میں خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

یہ سانحہ ایسے ایام میں ظہور پذیر ہُوا ہے جب افغان امن عمل آگے بڑھ رہا ہے اور جب افغانستان میں قابض امریکی فوجیں 11ستمبر 2021ء تک مکمل طور پر انخلا کی تیاریاں کررہی ہیں۔ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ کابل اسکول کا یہ خونی سانحہ امن عمل کو متاثر کرنے کا سبب بن جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سانحہ کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کابل میں دہشت گردی کا یہ واقعہ افغان امن عمل اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے کو منفی طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ افغان صدر، ڈاکٹر اشرف غنی، کا غصہ بھرا لہجہ ہم سمجھ سکتے ہیں۔

کابل اسکول میں درجنوں معصوم طالبات اُس وقت قتل کی گئی ہیں جب وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان سعودی عرب کے سہ روزہ دَورے پر تھے۔ اس دَورے پر ہر سُو بحث مباحثے ہو رہے ہیں۔ خاص طور پربھارت اس وزٹ کے جملہ پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔ بھارتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا غائر نظر سے باقاعدہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل جاتی ہے۔ جناب عمران خان کے تین روزہ دَورے سے قبل سپہ سالارِ پاکستان، جنرل قمر جاوید باجوہ، بھی سعودی عرب کے چار روزہ سرکاری دَورے پر تھے۔

سعودیہ میں جنرل صاحب کی ملاقاتیں سعودی ولی عہد، سعودی وزیر دفاع اور سعودی آرمی چیف سے بہت اچھی رہیں۔ ان اچھی اور ثمر آور ملاقاتوں کا مثبت اثر یوں بھی ہُوا ہے کہ جب خان صاحب نے سعودی عرب میں قدم رکھا تو زمین خاصی ہموار ہو چکی تھی۔ اِنہی ایام میں مجھے سعودی عرب کے تینوں بڑے انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرنے کے مواقع میسر آئے ہیں۔ سبھی نے جنرل قمر باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کو نمایاں اور شاندار انداز میں کوریج دی ہے۔ خصوصاً "عرب نیوز"نے تو بہت محبت اور احترام سے پاکستان کی مذکورہ دونوں اہم ترین شخصیات کا ذکرکیا ہے۔

سعودی میڈیا میں دیے گئے اس نمایاں اور پُر احترام کوریج سے بھی ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سعودی شاہی خاندان نے کن جذبات اور اُمیدوں کے ساتھ اپنے دوست ملک کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو اپنے ہاں مدعو کیا ہے۔ یہ دَورہ، جس کے ثمرات کی پرتیں ابھی کھلنے والی ہیں، اس لیے بھی خاص اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے کہ دعوت دینے والے سعودی ولی عہد تھے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی "ٹرین" پھر سے "پٹڑی" پر چڑھ گئی ہے۔ ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ پاک، سعودیہ تعلقات کے لیے قائم کی گئی "سپریم کو آرڈی نیشن کونسل" دونوں برادر ممالک کے لیے نفع بخش ثابت ہوگی۔

اگر خارجہ محاذ پر پاک، سعودیہ تعلقات میں بہتری کے واضح آثار ہم سب کے لیے مسرت کا باعث بن رہے ہیں تو داخلہ محاذ پر کچھ ایسے واقعات رُونما ہُوئے ہیں جنھوں نے سیاست کی مبینہ مفاہمتی فضا کو زک پہنچائی ہے۔ مثال کے طور پر نون لیگ کے مرکزی صدر جناب شہباز شریف کا لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت پررہائی اور لندن جانے کا پروانہ حاصل کرنے کے بعد لندن روانگی پر لاہور ائر پورٹ پر روک دیا جانا۔ اس روک پر امیگریشن حکام کے جو بیانات سامنے آئے ہیں، حیران کن ہیں۔ جس روز شہباز شریف صاحب ضمانت پر طویل عرصے کے بعد زندان خانے سے باہر نکلے، حکومت کی پیشانی پر بَل پڑ گئے تھے۔

حکومتی وزرا نے اس رہائی پر جو بیانات دیے، ان سب کا ایک ایک کرکے تجزیہ کیا جائے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ نون لیگی صدر کی رہائی اُنہیں گراں گزری تھی لیکن اعلیٰ عدالتی حکم کے سامنے کوئی دَم نہیں مار سکتا۔ شہباز شریف کی رہائی کا یہ مطلب بھی اخذ کیا گیا کہ مفاہمتی سوچ اور مفاہمتی قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور یوں توقعات وابستہ کر لی گئیں کہ پچھلے ڈھائی تین برسوں کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو کشیدگی اور تلخی اپنی حدود سے متجاوز ہو رہی ہے، اب اسے قدرے بریک لگ جائے گی لیکن حکومتی بہانے آڑے آ گئے ہیں۔

نون لیگی صدر کو لندن جانے کی اجازت عین اُس وقت ملی جب وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب میں سرکاری دَورے پر تھے۔ شہباز شریف لندن جائیں گے تو ضرور (کہ آٹھ ہفتے کی اجازت لاہور ہائیکورٹ نے دی ہے) لیکن فی الحال اُن کی لندن یاترا کچھ دنوں کے لیے موخرہو گئی ہے۔ بظاہر یہ یاترا سیر سپاٹے کے لیے نہیں، ذاتی علاج معالجے کے لیے ہے۔ نون لیگی جیالے اور متوالے اپنے لیڈر کو ائر پورٹ پر غیر متوقع طور پر روکے جانے پر غصے میں بپھرے نظر آ رہے ہیں۔ نون لیگی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے بھی اپنی ٹویٹ میں اس حکومتی اقدام پر غصے کا اظہار کیا ہے۔ محترمہ مریم اورنگزیب نے اپنے اسلوب میں اس پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ جناب شہباز شریف صبر (یا مستقل مفاہمت) کا دامن تھامے ہُوئے ہیں۔

اُن کی طرف سے حکومت بارے کوئی بیان جاری ہُوا ہے نہ یہ بات سامنے آ سکی ہے کہ وہ اس حکومتی اقدام کو کب چیلنج کریں گے؟ کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے وعدے کے باوجود لندن سے واپس نہ آکر اب شہباز شریف کے لندن جانے کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ حکومت بھی نواز شریف کے اِسی اقدام کو بہانہ بنارہی ہے کہ شہباز شریف کو عدالت کی طرف سے دیے گئے آٹھ ہفتے کی اجازت ممکن ہے آگے بڑھ جائے۔ دلوں اور نیتوں کا احوال تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عدالتی حکم کے باوصف شہباز شریف کو روکنے کا اقدام ہماری سیاست پر کئی دُور رَس اثرات مرتب کرے گا۔