Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Afghan Fauj O Hukmaran, Afghan Taliban Se Kyun Hare?

Afghan Fauj O Hukmaran, Afghan Taliban Se Kyun Hare?

20سال قبل امریکا نے مُلا محمد عمر کے طالبان کو شکست دی تھی۔ امریکی اور اس کی مغربی اتحادی افواج جدید ترین ہتھیاروں، بالادست ائر فورس اور مہلک میزائلوں کے ساتھ قیامت بن کر محدود وسائل کے مالک افغان طالبان پر حملہ آور ہُوئی تھیں۔

چند ہی ایام میں امریکی عسکری طاقت نے افغان حکمران طالبان کو افغانستان کے اقتدار سے نکال باہر کیا۔ افغان طالبان نے شکست کھا کر بھی مگر اپنی شکست تسلیم نہیں کی تھی۔ وہ مسلسل اور تواتر کے ساتھ، اپنے محدود تر وسائل مگر قوی جذبوں کے ساتھ قابض امریکی و اتحادی افواج کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔

امریکی دو عشروں تک افغانستان پر فوجی طاقت کے بَل پر قابض رہے۔ اس دوران انھوں نے افغان نوجوانوں پر مشتمل، تین لاکھ کی تعداد میں، افغان نیشنل آرمی بنائی۔ اسے جدید خطوط پر تربیت دی اورماڈرن اسلحے سے لَیس بھی کیا مگر امریکی قابض افواج افغان نیشنل آرمی کو افغانستان سے محبت کرنا نہیں سکھا سکے اور نہ ہی افغان نیشنل آرمی نے امریکیوں سے یہ سیکھا کہ اپنے وطن کی کن جذبوں کے ساتھ حفاظت کرنی ہے۔ امریکا نے ان گزرے دو عشروں کے دوران افغانستان پر دو سے تین ٹریلین ڈالرز کی بیش بہا رقوم پانی کی طرح خرچ کی ہیں۔

اس کا نتیجہ مگر صفر نکلا ہے۔ امریکیوں کی بیس سالہ محنت، افغان نیشنل آرمی پر صرف کی گئی تعلیم و تربیت اور افغان حکمرانوں کی تیاری، سب کچھ اکارت چلا گیاہے۔ امریکا اور افغانستان میں سبھی امریکی پٹھو افغان طالبان سے ہار چکے ہیں اور ساری دُنیا انگشت بدنداں ہے۔

پچھلے 20برسوں کے دوران افغانستان پر قابض امریکیوں نے اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو افغانستان پر مسلط کرنے کے لیے تین چار بار عام انتخابات بھی کروائے۔ ان نام نہاد انتخابات کے نتیجے میں صدور بھی منتخب ہُوئے اور پارلیمنٹ بھی معرضِ عمل میں لائی گئی۔ اس رچائے گئے ڈرامے کے باوصف کوئی منتخب افغان صدر افغانستان میں مضبوطی کے ساتھ اپنے پاؤں نہ جما سکا۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ افغان "منتخب صدور" ہوا میں معلق ہیں۔ حامد کرزئی بھی افغان صدر منتخب ہُوئے اور ڈاکٹراشرف غنی بھی، مگرکوئی بھی اپنے عوام کا مکمل اعتبار حاصل نہ کر سکا۔

دونوں صاحبان کے سر پر افغان طالبان کا خوف مسلسل تلوار بن کر لہراتا رہا۔ ان 20برسوں کے دوران افغان عوام کو کچھ سول لبرٹیز بھی میسر آئیں۔ جدید تعلیم کے مواقع بھی فراہم ہُوئے۔ بیشمارافغان خواتین نے جدید تعلیم کی طاقت سے خود کو کئی میدانوں میں منوایا اور استوار کیا۔ افغان خواتین کو متنوع قسم کے آزاد ماحول کی نعمتیں بھی ملیں۔ ایسا متنوع آزاد ماحول انھیں طالبان کے چار سالہ سابقہ دَورِ اقتدار میں ہر گز میسر نہیں تھا۔ بلکہ اس کا تو خواب بھی شاید دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔

لیکن آج 20برس بعد افغانستان پھر صفر کے مقام پر آ کھڑا ہُوا ہے۔ امریکا اور مغربی اتحادی قابض افواج کی زیر سرپرستی افغان حکومتوں کے مزے لینے والے سبھی حکمران طبقات تحلیل ہو کر غائب ہو چکے ہیں۔ آج طالبان کو افغانستان پر قابض ہُوئے آٹھ دن گزر چکے ہیں لیکن ہنوز ایک سوال پوچھا جارہا ہے: افغانستان کی تین لاکھ تربیت یافتہ فوج ساٹھ ستر ہزار طالبان کے سامنے کیسے سرنڈر کر گئی؟ افغان نیشنل آرمی فی الحقیقت افغان طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہُوئی ہے۔ افغان حکمرانوں کا آخری سہارا بھارت تھا لیکن آخری لمحات میں بھارت بھی افغانستان کے آخری کٹھ پتلی حکمران، اشرف غنی، کو دغا دے گیا۔

ہم اُس بددلی اور مایوسی کا تصور کر سکتے ہیں جب آخری لمحات میں افغانستان کا آخری صدر، ڈاکٹر اشرف غنی، پُر اسرار انداز میں افغانستان سے فرار ہو گیا تھا۔ اُن کے فوری بعد نائب افغان صدر، امراللہ صالح، بھی ملک سے بھاگ اُٹھا۔ افغانستان کے مرکزی بینک کے سربراہ، اجمل احمدی، فرار ہُوئے تو افغانستان کی معیشت کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا۔

اشرف غنی سے قبل جب افغانستان کا وزیر دفاع اور وزیر خزانہ بھی ملک سے مستعفی ہو کر فرار ہُوئے تھے، ہمیں تب ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ افغانستان کے لالچی حکمرانوں کا آخری مقدر کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پوری افغان فوج نے اجتماعی طور پر افغان طالبان کے سامنے اس لیے ہتھیار ڈالنے میں عافیت سمجھی کہ ساری افغان فوج کی اصل بیساکھیاں تو امریکی قابض فوج تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی نے دُنیا کی بزدل ترین فوج کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

ہرات کا مشہور اور طالبان مخالف وار لارڈ محمد اسماعیل خان (جسے ہرات کا شیر کہا جاتا تھا) نے بھی بھیگی بلّی بن کر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ معروف افغان وار لارڈرشید دوستم، جس نے طالبان اور مجاہدین پر قیامت خیز مظالم کے پہاڑ توڑے تھے، مارے ڈر کے افغانستان سے فرار ہو گیا۔ ویسے اسماعیل خان، محمد عطا نور، عبدالخانی علی پور اور رشید دوستم ایسے نام نہاد افغان وار لارڈز کو فاتح طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے یا طالبان کے خوف سے افغانستان سے فرار ہونے کے بجائے غیرت سے خود کشی کر لینی چاہیے تھی۔

ابھی تو یہ مناظر ہمیں ملاحظہ کرنے ہیں کہ پورے افغانستان پر مکمل انتظامی گرفت سنبھالنے کے بعد فاتح طالبان افغان عوام اور افغان سرزمین کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں مگر فی الحال تو ہر کوئی اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ تمام وسائل کے باوجود افغان حکمران اور لاکھوں کی تعداد میں افغان فوج، طالبان سے کیوں اور کیسے شکست کھا گئی؟ اس ہار کے متعدد اسباب اور وجوہ ہیں۔

مثال کے طور پر(1) افغان صدر اور چیف ایگزیکٹو کی افغان سرزمین کے ساتھ کوئی حقیقی وابستگی اور کمٹمنٹ تھی ہی نہیں (2) کرپشن، اقربا نوازی اور اندھے قبائلی تعصبات نے اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور ان کے قریبی ساتھیوں کی جڑیں کھوکھلی کر رکھی تھیں (3) افغان حکمرانوں نے ملنے والی امریکی امداد کو خرد برد کیا اور بے پناہ ڈالرز غیر ممالک میں بھیجتے اور جائیدادیں خریدتے رہے (4) تقریباً سبھی اہم ترین افغان عہدیداروں، وزیروں، گورنروں اور جرنیلوں کی جیب میں امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کے پاسپورٹ تھے۔

ان کی آل اولادیں بھی ملک سے باہر تھیں۔ اور جو حکمران اور اعلیٰ فوجی عہدیدار اپنی جیب میں اپنے وطن کا پاسپورٹ رکھنا ہی پسند نہ کرتا ہو، وہ اور اُس کی فوج طالبان ایسے سرفروشوں اور بوریا نشینوں سے کیسے کامیاب جنگ لڑ سکتی تھی؟ (5)عالمی میڈیا تواتر کے ساتھ افغان حکمرانوں کی کرپشن کی ہوشربا کہانیاں نشر اور شایع کررہاتھا۔ ان داستانوں نے افغان عوام کو اپنے حکمرانوں سے بددل کررکھا تھا(6)صدر اشرف غنی اور افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ میں اختیارات کے لیے سخت کشیدگی پائی جاتی تھی۔ سقوطِ کابل بتاتا ہے کہ دُنیا کے جس ملک کے سینئر عہدیداروں اور حکمرانوں کی جیب میں غیر ملکی پاسپورٹ ہوں گے، اُن کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا افغان حاکم طبقے کا ہُوا ہے۔