"مشرقی پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد جب ہم نے مشہور مقامی ہندو سرمایہ داروں کے بینک اکاؤنٹس چیک کیے تو سبھی ہندو سرمایہ داروں اور امیر افراد کے بینک اکاؤنٹس میں محض چند ہزار روپے پڑے تھے۔ ان کا سارا سرمایہ بھارتی بینکوں میں جمع تھا۔"یہ الفاظ ریٹائرڈبریگیڈیئر سعد اللہ خان کی تازہ کتاب سے لیے گئے ہیں۔
ماہِ آزادی کا یہ مہینہ پاکستان کو ایک نعمتِ کبریٰ کے طور پر یاد کرنے کا مہینہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج جس پاکستان میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس کی بنیادیں مشرقی پاکستان میں رکھی گئیں۔ یہ سوچ کر دل مگر ملول اور اُداس ہو جاتا ہے کہ اُسی مشرقی پاکستان کے باسی آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش کی شکل میں وہ ہم سے جدا ہو چکے ہیں۔
مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے جدا ہوتے ہُوئیبریگیڈیئر (ر) سعد اللہ خان صاحب نے خود دیکھا۔ یہ تازہ کتابEast Pakistan to Bangladesh اِنہی سعد اللہ صاحب کے قلم سے نکلی ہے۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا ہمارے لیے ایک مستقل مگر دلخراش موضوع ہے۔
ویسے تو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے المیے پر کئی پاکستانیوں، بھارتیوں اور مغربیوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں لیکن ان میں خرم جاہ مراد کی "لمحات" اور امریکی صحافیGary Bassکی The Blood Telegram نامی تصانیف اس لیے خاص اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں کہ یہ دونوں صاحبان اُس وقت خود مشرقی پاکستان میں موجود تھے جب آگ اور خون میں ڈُوبا مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن رہا تھا۔ بریگیڈیئر(ر) سعد اللہ خان کی زیر نظر تازہ کتاب میں مصنف نے ایک پاکستانی فوجی افسر کی حیثیت سے ان مشاہدات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جب ہمارے سابقہ مشرقی پاکستانی بھائی بنگلہ دیشی بننے پر تُل گئے تھے۔
سعد اللہ خان کا یہ تجزیاتی اور مشاہداتی جملہ بڑا ہی معنی خیز ہے کہ ہم مشرقی پاکستان کی جنگ لڑے بغیر ہار گئے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر 70ء کے عشرے میں مشرقی پاکستان میں تعینات پاکستانی فوجی افسروں اور جوانوں کو مغربی پاکستان سے بھرپور عسکری، مالی اور سفارتی اعانت مسلسل پہنچتی رہتی تو مشرقی پاکستان کبھی بنگلہ دیش نہیں بن سکتا تھا۔
مصنف سعد اللہ خان کا اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر کہنا ہے کہ ویسے تو خاصے عرصہ سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی مضبوط لہر چل رہی تھی لیکن 12اور13نومبر1970 کو مشرقی پاکستان میں جو قیامت خیز سمندری طوفان (Cyclone) آیا، اس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی راہ پر تیزی سے ڈال دیا۔
اس سمندری طوفان میں لاکھوں مشرقی پاکستانی جاں بحق ہو گئے تھے۔ زرعی زمینوں اور جائیدادوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ تھوڑی تاخیر تو ہُوئی لیکن مغربی پاکستان نے ممکنہ اور مقدور بھر کوششیں کیں کہ مشرقی پاکستان کے متاثرین کو ہر قسم کی امداد فراہم کی جائے لیکن مشرقی پاکستان میں ایک سوچے سمجھے اور طے شدہ منصوبے کے مطابق یہ فضا قائم کی گئی کہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کچھ بھی نہیں کیا، مشرقی پاکستانیوں کو دانستہ مرنے دیا ہے۔ مشرقی پاکستان کے اخبارات مکتی باہنی، بھارت اور شیخ مجیب الرحمن کی سیاسی جماعت (عوامی لیگ) کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکے تھے۔
ان اخبارات میں وہی غلط سلط خبریں چھپ رہی تھیں جو مذکورہ قوتیں چاہتی تھیں۔ اور ان خبروں کا بیشتر حصہ مشرقی پاکستان میں تعینات افواجِ پاکستان، مغربی پاکستان کی بیوروکریسی اور مغربی بازو کے حکمرانوں کے خلاف زہر افشانی پر مشتمل ہوتا تھا۔ مصنف لکھتے ہیں: " ایک روز ہمارے سامنے شیخ مجیب الرحمن نے ہمارے فوجی جوانوں کی بڑی تعریف کی کہ بہت جانفشانی سے ہر جگہ سیلاب زدگان کی مدد کررہے ہیں۔ اور جب ہم نے اُن سے کہا کہ وہ یہی بات صحافیوں کے سامنے بھی کہہ دیں لیکن شیخ صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔"