بعض دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ " افغانستان سے امریکی فوجوں کے سرعت سے نکلنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ افغانستان میں امریکا کو شکست ہُوئی ہے بلکہ احوالِ واقعی یہ ہے کہ امریکا بڑی سمجھ داری سے افغانستان کے حوالے سے خود کو ری پوزیشن (Re position) کررہا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں افغانستان کے بارے نئی اسٹرٹیجی ترتیب دے سکے۔" ممکن ہے یہ خیال درست ہی ہو لیکن عام تاثر یہی ہے کہ افغانستان میں امریکا کو شکستِ فاش ہُوئی ہے اور اُس کی افغانستان میں 20برس کی جنگ زیرو ثابت ہُوئی ہے۔
یہ خیال اس قدر قوی اور مستحکم ہے کہ افغان طالبان اس سے اپنے حق میں فوائد سمیٹ رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوج آخری ایام میں یوں دُم دبا کر اور رات کے اندھیروں میں نکلی ہے کہ صدر اشرف غنی اور افغان حکومت کی تمام مشینری کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ افغانستان میں وحشت انگیز افراتفری پھیل رہی ہے اور خانہ جنگی کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔ ان "بادلوں " کی سب سے زیادہ تشویش پاکستان، چین اور ایران کو ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں نے جس شتابی اور بغیر کسی پروگرام کے انخلا کیا ہے، لگتا یہی ہے کہ امریکا چاہتا ہی یہ ہے کہ اُس کے جانے کے بعد افغانستان شدید قسم کی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے تاکہ افغانستان کے ہمسایوں کو Destabilizeکیا جا سکے۔
یہ سوچ بدگمانی بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ بدگمانی خاصی"پاپولر" ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ امریکا ایسا کیوں چاہے گا؟ وزیر اعظم عمران خان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر، ڈاکٹر معید یوسف، نے بھی اگلے روز اِسی موضوع پر "وائس آف امریکا" سے مکالمہ کرتے ہُوئے کہا:"افغانستان میں امریکا نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ ایسا کیوں چاہے گا کہ وہاں معاملات تباہی کی طرف جائیں لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔"
مغربی اور امریکی میڈیا کی یہ شرارتی خواہش لگتی ہے کہ اب جب کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا مکمل ہورہا ہے، افغانستان میں پھر سے فساد اور خانہ جنگی کے شرارے پھوٹ پڑیں۔
مثال کے طور پر یہ خبر: "عادل شاہ کی عمر 57سال ہے۔ وہ افغان دارالحکومت، کابل، سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قصبے(خدامان) کا رہائشی ہے۔ عادل شاہ کہتا ہے: میری عمر اُس وقت17برس تھی جب مَیں پہلی مرتبہ افغانستان پر قبضہ کرنے والی سوویت رُوسی فوجوں کے خلاف لڑا۔ اور جب 1996 کے آس پاس ملا عمر کے طالبان نے افغانستان کے بیشتر علاقے پر قبضہ جمالیا، مَیں نے تب طالبان کے خلاف جنگ کی، اس لیے کہ ہم تاجک ہیں اور طالبان پشتون۔ طالبان اور افغان تاجکوں کے درمیان اب بھی دشمنی ہے۔ طالبان سے جنگ کرنے کے بعد مَیں شمال میں طالبان کی مخالف قوت کے سربراہ، احمد شاہ مسعود، کی فوج میں شامل ہو گیا تھا۔ اس دوران میرے خاندان کے کئی افراد جنگ کی نذر ہو گئے۔ افغانستان میری جنم بھومی ہے۔ مَیں تو نوجوانی کی عمر سے اس کے تحفظ کی جنگ کرتا آ رہا ہُوں۔ اب شاید ایسا وقت دوبارہ آ رہا ہے جب مجھے طالبان کے خلاف پھر جنگ کے لیے ہتھیار اُٹھانا پڑیں گے۔"
یہ الفاظ 25جون2021کوامریکی اخبار "واشنگٹن پوسٹ" میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے لیے گئے ہیں۔ یہ نیوز اسٹوری مشہور امریکی خاتون صحافی، پامیلا کانسٹیبل، نے افغانستان میں بیٹھ کر لکھی ہے۔ پامیلا کانسٹیبل پاکستان اور افغانستان بارے ایک متنازع کتابPlaying With Fireبھی لکھ چکی ہے۔
اس کتاب کے کئی مندرجات ایسے ہیں جن سے پاکستان کے خلاف سازش اور فساد انگیزی کی بُو آتی ہے۔ پامیلا کانسٹیبل کی یہ تازہ رپورٹ خاصی پریشان کن ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات سے خدشات جنم لے رہے ہیں کہ11ستمبر2021 کو افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ 25جون2021 کو واشنگٹن میں امریکی صدر سے ملاقات کے دوران افغان صدر، اشرف غنی، نے بھی خدشہ ظاہر کرتے ہُوئے کہا تھا: "امریکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد افغانستان پر خانہ جنگی کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔"
خدانخواستہ اگر ایسا ہُوا تو اس کے نہایت منفی اثرات سارے جنوبی ایشیا پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان سمیت ساری دُنیا میں یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر موجودہ افغان حکومت اور ہمہ دَم آگے بڑھتے افغان طالبان میں کوئی پائیدار اور متفقہ سمجھوتہ نہ ہُوا تو افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ جناب عمران خان نے بھی چند روز قبل درجن بھر افغان صحافیوں سے مکالمہ کرتے ہُوئے کہا کہ " امریکا کامیابی سے اُس وقت افغان طالبان سے امن کے لیے کوئی معاہدہ کر سکتا تھا جب وہ پوری طاقت سے افغانستان میں موجود تھا"۔ اب یہ موقع ضایع ہو چکا ہے۔
عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹیں تواتر سے شائع ہو رہی ہیں جو اس امر کی غمازی کررہی ہیں کہ امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالتے ہُوئے دانستہ ایسے اقدامات کیے ہیں تاکہ متحارب افغان طالبان قوت پکڑ لیں اور بعد ازاں اِسی صورتحال کو امریکا آسانی سے ایکسپلائٹ کر سکے۔
مثال کے طور پر ممتاز امریکی جریدے "فوربس" کے تازہ شمارے میں دفاعی تجزیہ نگار Sebastien Roblinکی انکشاف خیز رپورٹ۔ اس امریکی صحافی نے ایک بنیادی سوال یوں اُٹھایا ہے: " پچھلے ایک عشرے کے دوران امریکی فوج نے 26ہزار کی تعداد میں جدید ترین آرمرڈ گاڑیاں اور Humveesافغانستان میں مختلف آپریشنز کے لیے درآمد کیں۔
ان میں ہر ماہ درجنوں کے حساب سے یہ گاڑیاں افغان طالبان سے مقابلے کرتے ہُوئے تباہ ہو جاتی تھیں۔ اب جب کہ امریکی فوج افغانستان سے نکلی ہیں تو ان جدید ترین گاڑیوں میں سے سیکڑوں کی تعداد میں Humveesافغان طالبان کے ہاتھ لگ گئی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکیوں نے اربوں ڈالرز کی یہ گاڑیاں افغانستان میں کیوں چھوڑیں؟ کیا دانستہ اس لیے کہ یہ افغان طالبان کے ہاتھ لگ جائیں؟ " اور اب یہ رپورٹ آئی ہے کہ ان گاڑیوں کی تعداد710ہے جو افغان طالبان کے ہاتھ لگی ہیں۔ انھی کے ذریعے افغان طالبان کو افغانستان کے مختلف اضلاع پر قبضہ کرنے اور اسلحہ و مجاہدین ڈھونے میں سہولتیں مل رہی ہیں۔ یہ رپورٹ نہائت ہوشربا ہے۔
لیکن امریکی جریدے Business Insiderکے معروف اخبار نویس Ryan Pickrellنے اس سے بھی بڑا سوال ہم سب کے سامنے رکھا ہے۔ اس امریکی صحافی نے چیلنج کرتے ہُوئے6جولائی2021ء کو اپنی رپورٹ میں ایک سلگتا ہُوا سوال پوچھا ہے: " امریکی فوجوں نے افغانستان سے انخلا کے وقت 984کی تعداد میں C17دیو ہیکل ٹرانسپورٹ طیاروں میں سب اہم ترین دفاعی سازو سامان بھرا اور امریکا لے گئے۔ جاتے جاتے امریکیوں نے 17ہزار کی تعداد میں وہ دفاعی سازو سامان بھی تباہ کر ڈالا جسے وہ ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا جاتے جاتے سیکڑوں کی تعداد میں افغانستان میں آرمرڈ اور Humvee گاڑیاں کیوں چھوڑ گیا؟ اور کس کے لیے؟ َ کیا افغان طالبان کے لیے؟ ؟ "کوئی ہے جو ان دونوں امریکی صحافیوں کے ان چبھتے ہُوئے سوالات کا جواب دے سکے؟ ان سوالات کی موجودگی میں کہا جارہا ہے کہ امریکی فوجوں نے افغانستان سے نکلتے ہُوئے دانستہ ایسے حالات پیدا کر ڈالے ہیں تاکہ یہ غریب اور کٹا پھٹا ملک خانہ جنگی کی آگ میں لپیٹ میں آ جائے۔ اب یہ افغان طالبان، افغان عوام اور جناب اشرف غنی کی حکومت کی سمجھ داری کا امتحان ہے کہ وہ اس مبینہ امریکی چنگاری کو شعلہ نہ بننے دیں۔