پچھلے چار عشروں سے ہم یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ ماہِ اپریل کا پہلا ہفتہ طلوع ہوتے ہی ملک بھر میں جمہوری اقدار اور جمہوری شخصیات سے محبت و اکرام کا رشتہ رکھنے والوں کے دل اُداس اور ملول ہو جاتے ہیں۔
بیالیس سال قبل اپریل کی چار تاریخ کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، کو تختہ دار پر کھینچ دیا گیا تھا۔ یہ ایسا المناک تاریخی واقعہ ہے کہ کئی حکومتوں اور حکمرانوں کی کوششوں اور خواہشوں کے باوصف اِسے عوام کی یادداشت سے محو نہیں کیا جا سکا ہے۔ اگرچہ بھٹو صاحب کی پارٹی نے ابھی حال ہی میں مبینہ طور پر پاکستان کی حکمران پارٹی اور حکمرانوں کے تعاون اور آشیرواد سے سینیٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر "منتخب " کر کے نیک نامی نہیں کمائی ہے لیکن اس کے باوجود عوام اُس بھٹو کو فراموش کرنے کے لیے ذہنی طور پر ابھی تیار نہیں ہُوئے ہیں جس نے پھانسی کے گھاٹ پر اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کی۔
چار اپریل کو ہماری سیاسی تاریخ کے صفحات پر خون کے جو دھبے لگے، وہ ابھی تک تاریخ کے گم گشتہ اوراق کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔ یہ بھٹو صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا زندہ ثبوت ہے کہ ایک آمرانہ دَور میں اُن کی حکومت اور جان ختم کرنے کے بعد بھی اُن کی بیٹی دو بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہُوئیں، اُن کا ایک داماد صدرِ پاکستان بنا اور آج بھی پاکستان کے ایک صوبے میں بھٹو کی پارٹی کی حکومت ہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے موقعے پر ایک معروف برطانوی اخبار نے اپنے اداریے کی سرخی یوں جمائی تھی:Z A Bhutto will rule from his graveیہ بات سچ ہی ثابت ہُوئی۔
اب پھر بھٹو کی پھانسی کے دن، 4اپریل، کی آمد آمد ہے۔ اور اِس بار سابق وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو ملک کے ممتاز صحافی، سابق سفارتکار اور دانشور سید واجد شمس الحسن نے انوکھے اور دلکش انداز سے یاد کیا ہے۔ انھوں نے اپنی یادوں کے خزینے اور دفینے کو ٹٹول کر "بھٹو خاندان میری یادوں میں " کے زیر عنوان ایک نئی کتاب لکھی ہے۔
بھٹو صاحب مرحوم کے حوالے اب تک جتنی بھی تصنیفات قلمبند کی گئی ہیں، دو صد صفحات پر مشتمل یہ کتاب ان میں نیا شاندار اضافہ ہے۔ لندن میں مقیم واجد شمس الحسن صاحب نے برسوں زیڈ اے بھٹو اور اُن کے خاندان کو نہایت قریب سے دیکھا۔ بھٹو خاندان سے وابستہ اُن کی بے شمار یادوں میں سے کچھ کو کتابی صورت میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ ذاتی مشاہدات کی اساس پر کتاب میں بھٹو صاحب کی شخصیت کے کئی گوشے پہلی بار سامنے لائے گئے ہیں۔ مصنف کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے والد صاحب (سید شمس الحسن، جو دہلی میں مسلم لیگ کی ایک نمایاں اور ذمے دار شخصیت تھے)کی معیت میں بار ہا قائد اعظمؒ کی زیارت بھی کی اور اُن سے ہمکلام ہونے کا شرف بھی حاصل کیا۔
کتاب میں مصنف نے سیاست، صحافت اور سفارت کو یکجا کر دیا ہے۔ حیرت ہے کہ تقریباً ساٹھ برس قبل جب مصنف نے کراچی سے صحافتی زندگی کا آغاز کیا، تب بھی صحافت ایک معتوب و مغضوب شعبہ حیات سمجھا جاتا تھا۔ مصنف نے ہمیں بتایا ہے کہ ساٹھ سال قبل بھی حکومت کے ناپسندیدہ صحافیوں کو ملازمتوں سے نکال باہر کیا جاتا تھا۔ جنرل ایوب خان کے دَور میں مخالف صحافیوں کو ملازمتوں سے نکالنے کا "فریضہ" اُن کے دستِ راست اور سرکاری ملازم الطاف گوہر انجام دیا کرتے تھے اور جب خود الطاف گوہرنے ایڈیٹر بن کر بھٹو صاحب کی مخالفت کی تو پھر انھیں ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔
زیر نظرکتاب میں بھٹو صاحب کی شخصیت کو اجاگر کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے، یہی عنصر کتاب کا جوہر ہے۔ مصنف اگر بھٹو صاحب کے بارے ایک مضمون رقم نہ کرتے تو شاید بھٹو صاحب سے قربتوں اور محبتوں کا دروازہ بھی نہ کھلتا۔ اور پھر یہ دوستی اور محبت کا رشتہ ایسا مضبوط استوار ہُوا کہ آج بھی قائم ہے۔
یہ کتاب بھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھٹو صاحب ہی سے مصنف نے سگار پینا سیکھا۔ جب تک بھٹو حیات رہے، ہر مہینے انھیں بھٹو صاحب کی طرف سے بیش قیمت سگاروں کاباکس بطورِ تحفہ ملتا رہا۔ اُن کی پھانسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اس روایت کو خوب زندہ رکھا۔ نصف صدی پر محیط یادوں کی اس کہکشاں میں بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت، کردار اور کارناموں بارے متعدد ایسے واقعات پہلی بار سامنے لائے گئے ہیں جو واقعی معنوں میں قارئین کے لیے انکشاف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ کتاب میں بھٹو کی پھانسی اور اس کے مابعد اثرات کا ذکر نہ ہونے کے برابر ملتا ہے۔
پاکستان کے غریب، پسماندہ اور مزدور پیشہ افراد کو جو شعور بھٹو صاحب نے اپنے عمل سے دیا، اس حوالے سے مصنف نے کئی مشاہدات رقم کیے ہیں۔ اس کے باوصف بھٹو کے خلاف پروپیگنڈے کی دھول ابھی تک اڑائی جارہی ہے۔ اقتدار اور زندگی سے محروم کر دیے جانے کے بعد ایک طویل شخصی دَور میں بھٹو صاحب کے خلاف مسلسل گیارہ برس جو مسموم پروپیگنڈہ کیا گیا، اس کا تریاق شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ توغنیمت ہے کہ بشیر ریاض، اسٹینلے وولپرٹ اور اب واجد شمس الحسن نے بھٹو صاحب کی عظیم قوی خدمات کو عیاں کرتی کچھ کتابیں لکھ دی ہیں۔
زیر نظر کتاب کے مصنف نے بڑی محنت اور کمٹمنٹ سے شملہ معاہدہ، 1973کے آئین اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام بارے اصل حقائق بیان کر دیے ہیں۔ یہ حقائق ہمیں بھٹو صاحب کے بلند سیاسی کردار بارے ایک منفرد کہانی سناتے ہیں۔ اُن قارئین کے لیے یہ کہانی شاید بہت حیران کن ہو جنھوں نے گزشتہ برسہا برس سے بھٹو اور اُن کے دَور کے بارے میں غضب کی عجب داستانیں سُن رکھی ہیں۔ مصنف نے کئی واقعات و مشاہدات کے ساتھ یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کا دفاع مضبوط کرنے میں کیسے شاندار کارنامے انجام دیے۔
وزیر اعظم جناب عمران خان (جنرل پرویزمشرف کے دَور میں) مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کو دیے گئے کئی این آر اوز کا ذکر بلند آہنگی سے کرتے ہیں۔ مصنف نے ان این آروز کی اصلیت بھی ظاہر کر دی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ صدر پرویزمشرف بار بار محترمہ بے نظیر بھٹو کے تمام مقدمات ختم کرنے کے عوض اُن سے پاکستانی سیاست و اقتدار سے دُور رہنے کی عملی کوششیں کرتے رہے لیکن بے نظیر نے اُن کی یہ بات مان کر نہیں دی۔ حتیٰ کہ جمہوریت کی بحالی اور استواری کے لیے محترمہ نے اپنی جان دے ڈالی۔
واجد شمس الحسن نے بجا لکھا ہے کہ بی بی صاحبہ کی شہادت کی انکوائری کروانے میں پیپلز پارٹی سے کوتاہی ہُوئی۔ حیرت مگر یہ بھی ہے کہ کتاب میں اُس شہر کا نام ہی نہیں لکھا گیا جس شہر میں بے نظیر بھٹو کی جان لی گئی۔
اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امریکا، پاکستان کے کئی اہم معاملات میں کیسے کیسے دخل اندازیاں کرتا ہے اور یہ بھی کہ امریکا دراصل ایک ایسا کینہ پرور اونٹ ہے جو مخالفت کرنے والوں کو معاف نہیں کرتا۔ صدام حسین اور زیڈ اے بھٹو کی پھانسیاں اس بات کا بڑا ثبوت ہیں۔ اس سفاک حقیقت کے باوجود پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے کئی حکمران اپنے مسائل نمٹانے اور اقتدار میں رہنے کے لیے امریکا ہی کا دامن پکڑتے ہیں۔ افسوس!