یہ واقعہ ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور طب کی دُنیا میں جب بھی کوئی مفید نئی اختراع معرضِ عمل میں آتی ہے، ہمارے بعض طبقات کی جانب سے اس کی مخالفت میں آوازیں اُٹھتی ہیں۔
رفتہ رفتہ مگر جب ان ایجادات و اختراعات کی افادیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے، مخالفت کی آوازیں کم ہوتے ہوتے معدوم ہو جاتی ہیں۔ پھر یہ مناظر بھی سامنے آتے ہیں کہ جن طبقات و شخصیات کی جانب سے مخالفت کی جا رہی تھی، وہ بھی اس کا استعمال ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر برصغیر پاک و ہند میں چھاپہ خانہ، ریڈیو، لاؤڈ اسپیکر، ٹیلی فون، فوٹو وغیرہ کی شدید مخالفت کی جاتی رہی ہے۔
اب مخالفت کرنے والے خود ان اشیا سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اگر آغاز ہی میں جدید طبی و سائنسی ایجادات کو صحیح تر پس منظر میں دیکھ لیا جائے تو قیمتی وقت کا ضیاع بھی نہیں ہوتا اور کئی قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف کی شرح بھی خاصی کم ہو جاتی ہے۔ عالمِ اسلام میں کئی ایسے خطے ہیں جہاں علمائے کرام اور حکومتوں کے باہمی تعاون سے جدید طبی سہولتوں کو عوام میں متعارف کروانے اور ان سے مستفید ہونے کی راہیں ہموار کی گئیں۔ علمائے کرام کے شاندار کردار اور تعاون سے جدید طبی سہولتوں کے بارے میں کئی غلط فہمیاں بر وقت دُور کرنے کی مہمات سر کی گئی ہیں۔
مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں ممتاز ترین علمائے کرام کے فتاویٰ اور تعاون سے حکومتِ بنگلہ دیش نے پاپولیشن پلاننگ میں خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ اسی سلسلے میں گز شتہ دنوں جرمنی کے خبررساں ادارے "ڈاؤچے ویلے" نے ایک بڑی مفید، مفصل اور معلومات افزا رپورٹ شایع کی ہے۔
اس رپورٹ کا عنوان ہے:" علمائے کرام کے تعاون سے بنگلہ دیش کی آبادی میں تیزی سے اضافے کو کیسے روکا گیا۔"مذکورہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ بنگلہ دیش میں بھی، کئی دیگر اسلامی ممالک کی طرح، علمائے کرام کی طرف سے خاندانی منصوبہ بندی بارے سخت مزاحمت کی جاتی تھی لیکن جب بنگلہ دیشی حکومت نے سنجیدگی سے علمائے کرام کو اس معاملے بارے کئی متعلقہ کورسز کروائے تو اُن پر حقیقت روشن ہو گئی اور یوں علمائے کرام نے بھی بنگلہ دیشی عوام کو پاپولیشن پلاننگ بارے آگاہی مہمات میں قابلِ تحسین کردار ادا کیا۔ اور آج ورلڈ بینک بھی اس کامیابی بارے بنگلہ دیشی علما اور بنگلہ دیشی حکومت کی تعریف کررہا ہے۔
اِسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مہلک کورونا وائرس (کووِڈ 19)سے محفوظ رہنے کے لیے چین سمیت کئی مغربی ممالک نے کامیاب ویکسین تیار کر لی ہے تو اس کی مخالفت بھی کئی مسلمان ممالک میں دیکھنے سننے کو ملی ہے۔ میڈیکل حقائق کی بنیاد پر اس رجحان کی حوصلہ شکنی اور عوام کی درست رہنمائی کے لیے ملائیشیا، انڈونیشیا، سعودی عرب، ترکی وغیرہ میں ممتاز علما اور مفتیانِ کرام نے اپنے فتاویٰ کے ذریعے عوام کو بتایا ہے کہ کورونا ویکسین کا استعمال نہ غیر اسلامی ہے اور نہ ہی اس کے اجزا میں کوئی حرام عنصر شامل ہے۔ اب تو پاکستان میں بھی کورونا ویکسین درآمد کی جا چکی ہے۔ کئی لوگوں کو اس کے انجکشن دیے جا رہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ کسی جانب سے اس کی مخالفت میں کوئی واضح آواز نہیں اُٹھ رہی۔
دبے الفاظ میں اگر کہیں خدشات اور شبہات سنائی دیتے بھی ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ کورونا ویکسین بارے آگاہی مہمات کو تیز تر کرنے کی از بس ضرورت ہے۔ لندن میں بروئے کار معروف این جی او "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" اور اس کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد بھی اس آگاہی میدان میں سامنے آئے ہیں۔"المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" نے فلاحِ انسانیت کے کئی پراجیکٹ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی شروع کر رکھے ہیں۔ ان پروجیکٹس میں غریب و تہی دست پاکستانی شہریوں کو آنکھوں کے امراض سے مفت نجات دلانا سرِ فہرست ہے۔
اب کورونا وائرس سے نجات کے لیے ویکسین کے آزادانہ اور بے خطر استعمال بارے مہم کا آغاز بھی المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر پرچم شروع کیا گیا ہے۔ اس مہم میں ہمیں بھی شریک ہونا چاہیے کہ کورونا وائرس کی نئی لہر نے وطنِ عزیز میں بھی ہزاروں پاکستانیوں کو نگل لیا ہے۔ کورونا ویکسین کے بے خطر استعمال سے لاکھوں زندگیاں بچائی اور محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ لندن سے پاکستان آئے مذکورہ این جی او کے سربراہ، عبدالرزاق ساجد صاحب، نے اسلام آباد میں سینئر صحافیوں کی ایک مجلس میں یہ انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ کے کئی شہروں میں بھی بد قسمتی سے مسلمان کمیونٹی میں یہ بے بنیاد خدشات اور شبہات پائے جاتے ہیں کہ کورونا سے نجات کے لیے جدید ویکسین میں کچھ ناپسندیدہ عناصر موجود ہیں۔
اس غلط فہمی کو دیکھتے ہُوئے ہی عبدالرزاق ساجد نے فیصلہ کیا کہ وہ نجی حیثیت میں اور اپنے ادارے (المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ) کے پلیٹ فارم سے برطانیہ بھر میں بروئے کار علمائے کرام سے ملاقاتیں کریں گے اور اُن کے تعاون سے مسلمانوں میں کورونا ویکسین بارے پائے جانے والی غلط فہمیوں کو ٹھوس حقائق کی بنیاد پر دُور کرنے کی سعی کریں گے۔
بقول اُن کے، الحمد للہ یہ کوششیں یوں ثمرآور ثابت ہُوئی ہیں کہ لندن، برمنگھم، مانچسٹر، راچڈیل، بلیک پول ایسے برطانوی شہروں میں بروئے کار اکثریتی مسلمان علمائے کرام اب اس مہم میں رزاق ساجد صاحب کے ہمنوا بن کر مسلمان کمیونٹی کو ویکسین کے آزادانہ استعمال پر مائل کررہے ہیں۔ اس ضمن میں افواہوں کا خاتمہ بھی ہورہا ہے۔ یہ کوشش و سعی انسانیت کی بھلائی اور بہتری ہے۔
عبدالرزاق ساجد نے بتایا:"ویکسین بارے اس آگاہی مہم میں ہم نے برطانیہ کے کئی شہروں میں بروئے کار ریستورانوں، مساجداور گھروں میں فوڈ پہنچانے والی کئی کمپنیوں کا تعاون بھی حاصل کیا ہے تاکہ آگاہی مہم کا پیغام دُور و نزدیک ہر جگہ پہنچ سکے۔ اسی دائرے کو مزید وسیع اور مفید بنانے کے لیے ہم نے مستند ڈاکٹروں کی رائے اور حمائت سے ہینڈی سائز کے لاکھوں لیف لیٹس اور پمفلٹس بھی شایع کیے ہیں اور انھیں لوگوں، خصوصاً مسلمان کمیونٹی کے گھروں، تک پہنچایا ہے۔ ان لیف لیٹس میں اختصار کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی لہر سے نمٹنے کے لیے کورونا ویکسین کا استعمال نہایت مفید بھی ہے اور بے ضرربھی، اس کا استعمال مذہبی اعتقادات کے منافی بھی نہیں ہے، حاملہ خواتین کے جنین کو بھی اس سے نقصان نہیں پہنچتا اور یہ ویکسین انسانی ڈی این اے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔"
ہماری تو دعا ہے کہ کورونا ویکسین کے بارے میں "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" کی یہ آگاہی مہمات زیادہ سے زیادہ کامیاب ہوں۔ یہ آگاہی مہم پاکستان میں بھی ہر شہر، قصبے اور گاؤں تک متعارف کروائی جانی چاہیے۔ ہمارے علمائے کرام بھی اس مہم میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔