پنجا ب میں ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ (حلقہ این اے75) کا ضمنی انتخاب نون لیگ کی اُمیدوار سیدہ نوشین افتخار جیت گئی ہیں۔ 10اپریل کو ہونے والے اِس ری پولنگ پر سارے ملک کی نظریں لگی ہُوئی تھیں۔ ابھی پورے حلقے کے نتائج پوری طرح سامنے نہیں آئے تھے لیکن سامنے آنے والے کچھ نتائج کے پیشِ نظر پنجاب میں نون لیگ کے صدر، رانا ثناء اللہ، نے ایک نجی ٹی وی پر رات آٹھ بجے ہی یہ پیشگوئی کردی تھی کہ نون لیگ این اے 75سے 10ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیتے گی۔
مکمل نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ نوشین افتخار نے اپنے پی ٹی آئی کے حریف، علی اسجد ملہی، کو 15ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے شکست دی ہے۔ یہ حلقہ ویسے پہلے بھی نون لیگ کے غلبے کا حلقہ کہلاتا تھا۔ 2018کے جنرل الیکشنز میں یہاں سے نون لیگ کے اُمیدوار، سید افتخار الحسن مرحوم، اپنے مدِ مقابل، علی اسجد ملہی، سے 40ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے۔ اور اب اُن کی صاحبزادی نے پندرہ ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے ملہی صاحب کو ہرایا ہے۔ جیت کا یہ تسلسل حیران کن ہے۔ لاریب پی ٹی آئی کے اُمیدوار اسجد ملہی نے بھی مقابلہ خوب کیا ہے۔
اُن کے حاصل کردہ 93ہزار ووٹ کم نہیں ہیں۔ انھیں قاف لیگ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ قاف لیگ کے ایک ذمے دار نے مبینہ طور پر ڈسکہ میں جا کر ایک کارنر میٹنگ کے دوران50کروڑ روپے کے پیکیج فنڈز خرچ کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ ووٹروں کو پی ٹی آئی کی طرف مائل کیا جا سکے۔ یہ اعلان الیکشن کمیشن کے وضع کردہ ضوابط کے خلاف بھی تھا۔ اِسی لیے انھیں فوری طور پر الیکشن کمیشن کی طرف سے نوٹس بھی دیا گیا۔
یہ بات ہمیشہ کہی جاتی رہی ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکمران پارٹی ہی جیت سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ ڈسکہ کے اس ضمنی انتخاب نے یہ متھ بھی توڑ ڈالی ہے۔ ڈسکہ این اے75کے ضمنی انتخاب میں نون لیگی اُمیدوار کے جیتنے کا واضح مطلب یہ بھی ہے کہ ووٹرز حکمران پارٹی اور اس کی گزشتہ ڈھائی سالہ کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔
مجھے خود بھی ڈسکہ میں اس ضمنی انتخاب کے دوران لوگوں کو ملنے کا اتفاق ہُوا ہے۔ نون لیگ کی سابقہ حکومتوں سے بھی لوگوں کو گلہ کرتے پایا لیکن سبھی جگہ پر پی ٹی آئی کی جاری حکومت سے ووٹروں کو سخت شاکی اور شکوہ کناں پایا۔ کمر توڑ مہنگائی، خوفناک بے روزگاری اور حکمرانوں کی وعدہ شکنیاں سب کے لبوں پر پائی گئیں۔ یوں لوگوں نے نون لیگ اور نواز شریف سے پھر محبت کی پینگیں بڑھا لی ہیں۔ اس منظر پر پی ٹی آئی اور اس کے بہی خواہوں کو فکر مند ہونا چاہیے۔
نون لیگ کی اُمیدوار، نوشین افتخار، کی فتح کے یہ معنی بھی ہیں کہ ڈسکہ حلقے میں نون لیگ کو چاہنے والے بدستور اپنے قائد سے جُڑے ہُوئے ہیں۔ اس کامیابی کے معنی یہ بھی ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ دفن ہونا تو دُور کی بات ہے، کمزور بھی نہیں ہو سکا ہے۔ لندن میں اپنے صاحبزادگان کے پاس فروکش جناب نواز شریف کے لیے اس سے بڑھ کر اطمینان و مسرت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ اب یہ بات بھی پورے تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ڈسکہ میں 19فروری کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی نون لیگ اور نوشین افتخار ہی فتحیاب تھے اور یہ کہ 19فروری کو پی ٹی آئی نے اپنے اُمیدوار، علی اسجد ملہی، کے جیتنے کے جتنے بھی بلند دعوے کیے تھے، اُن میں اتنی صداقت شاید نہیں تھی۔
مجھے حالیہ ایام میں ڈسکہ کے مذکورہ حلقے کو طول و عرض سے دیکھنے کا اتفاق ہُوا ہے تو یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ سابقہ نون لیگی دَور میں یہاں کوئی آئیڈیل ترقیاتی کام نہیں ہُوئے تھے۔ بہت سی سڑکوں، اسپتالوں اور بازاروں کی حالتِ زار تسلی بخش نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ووٹروں کا نون لیگ سے جُڑے رہنا حیران کن امر ہے۔ پی ٹی آئی کے اُمیدوار، علی اسجد ملہی کا زیادہ تر وقت لاہور میں گزرتا ہے۔ پھر اسجد ملہی کا آبائی گاؤں بھی ڈسکہ شہر سے دُور، نارووال حلقے سے متصل، ہے۔ یوں ووٹروں سے اُن کے ناتے اور تعلق میں ضعف غالب رہا۔ فتحیاب نوشین افتخار کے نون لیگی ایم این اے والد گرامی، افتخار الحسن شاہ عرف ظاہرے شاہ مرحوم، سے بھی ووٹروں کو شکوے شکایتیں رہتی تھیں۔ ایک بات مگر مستحسن یہ تھی ظاہرے شاہ مرحوم اپنے ووٹروں سے تعلق واسطہ ٹوٹنے نہیں دیتے تھے۔
وہ تھانے کچہری کے معاملات میں بھی ووٹروں کا ساتھ نبھاتے رہتے۔ انھیں گدی نشین ہونے کا پلس پوائنٹ بھی حاصل تھا۔ حلقے کی سیاست میں پیری مریدی کا ناتہ سب ناتوں سے مضبوط تر سمجھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے بھی گزشتہ روز اپنی ایک ٹویٹ میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔
ان عناصر اور عوامل نے نوشین افتخار صاحبہ کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں نون لیگ کی فتح 29اپریل کو کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخاب (این اے249) پر بھی اثر انداز ہوگی۔ نون لیگ کے مفتاح اسماعیل اس ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ اے این پی کے اُمیدوار، حاجی اورنگزیب خان بنوری، اُن کے حق میں بیٹھ گئے ہیں۔ سیاست کے انداز بھی نرالے ہیں۔ ایک طرف اے این پی نے ناراض ہو کر "پی ڈی ایم" سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور دوسری طرف وہ نون لیگ کے اُمیدوار کی کھلی حمایت کررہی ہے۔
نوشین افتخار کی فتح سے نون لیگ کو پی ٹی آئی پر جو نفسیاتی بالا دستی حاصل ہُوئی ہے، محترمہ مریم نواز کی ٹویٹس میں بھی اس کی جھلک ملتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ایک مہینے بعد آنے والی عید سے پہلے ہی نون لیگ کو عید کی خوشیاں مل گئی ہیں۔ لندن میں بیٹھے نواز شریف بھی خوش ہیں اور پسِ دیوارِ زنداں بیٹھے شہباز شریف بھی۔ پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، حمزہ شہباز، بھی اس فتح پر مسرت بھرے بیان دے رہے ہیں۔ سیدہ نوشین افتخار کی الیکشن کمپین میں نون لیگ کی رکن صوبائی اسمبلی و نون لیگ کی صوبائی سیکریٹری اطلاعات، عظمیٰ بخاری، نے بھی سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ اور یہ کہنا شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ نون لیگ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل، عطاء اللہ تارڑ، تو گزشتہ دو تین ماہ سے مسلسل ڈسکہ ہی میں ڈیرے ڈالے رہے تاکہ نون لیگ کی کامیابی یقینی بنائی جا سکے۔
سابق صدرِ مملکت جناب محمد رفیق تارڑکے پوتے، عطاء اللہ تارڑ، کا چہرہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ہر جگہ نظر آتا رہا۔ اُن کی آواز بھی ہر جگہ سنائی دیتی رہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ عطاء اللہ تارڑ کی شکل میں نون لیگ کو ایک جواں ہمتوں والا نیا سیاستدان میسر آ گیا ہے۔ انھیں محترمہ مریم نواز کا اعتماد بھی حاصل رہا اور اپنی قریبی عزیزہ و نون لیگ کی سابق وفاقی وزیر، محترمہ سائرہ افضل تارڑ، کی ہمت افزائی اور آشیرواد بھی ملتی رہی۔ وہ نون لیگ ووٹ کے پہریدار ثابت ہُوئے ہیں۔ ڈسکہ میں عطاء اللہ تارڑ کی دوڑ دھوپ شاباشی کی مستحق ہے۔ ڈسکہ میں پُر امن اور فری اینڈ فیئر ضمنی الیکشن کروانے پر مقامی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن بھی شاباش اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔