انور سیف اللہ خان صاحب سیاستدان ابنِ سیاستدان ہیں۔ وہ سفارتکار بھی رہے اور بیوروکریٹ بھی۔ سیاست اور بزنس کی دُنیا میں قدم رکھنے سے قبل موصوف ڈپٹی کمشنر کے عہدے پرفائز تھے۔ پھر سرکاری ملازمت سے دل اوبھ گیا اور سیاست کے میدانِ خار زار میں قدم رکھا کہ اُن کے سارے خاندان کی پہچان بزنس اور سیاست ہی کے حوالے سے تھی۔
تشکیلِ پاکستان سے قبل اُن کے دادا (فیض اللہ خان)معروف کاروباری شخصیت تھے۔ اُن کے والد صاحب(بیرسٹر سیف اللہ خان) بھی رکنِ اسمبلی رہے اور اُن کی والدہ محترمہ بھی۔ والد صاحب اگر اچانک ہارٹ اٹیک سے وفات نہ پا جاتے تو شاید وہ بھی وفاقی وزیر بن جاتے۔ انور سیف اللہ خان کی والدہ ماجدہ، محترمہ کلثوم سیف اللہ، خیبر پختونخوا کے ایک ممتاز اور مقتدر خاندان کی بیٹی بھی تھیں اور خود بھی معروف سیاسی شخصیت رہیں۔ کئی بار رکنِ اسمبلی بھی منتخب ہُوئیں اور وفاقی وزیر بھی بنیں۔ بیگم کلثوم سیف اللہ خان کے ایک برادرخیبر پختونخوا کے گورنر بھی رہے۔
انور سیف اللہ خان جناب نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں بھی وفاقی وزیر بنائے گئے اور جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہُوئیں تب بھی وفاقی وزیر ہی چُنے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دَورِ اقتدار میں انور سیف اللہ کو احتساب اورالزام کے نام پر جیل یاترا پر بھی جانا پڑا۔ متنوع تجربات اُن کے تاریخی مشاہدات کا قیمتی حصہ ہیں۔ اب انھوں نے اپنے مشاہدات کو، جنھیں بجا طور پر ہماری سیاسی تاریخ میں بطورِ ایک مستند حوالہ یاد رکھا جائے گا، ایک مبسوط کتاب کی شکل دے ڈالی ہے۔ دو سو باسٹھ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو " مَیں اور میرا پاکستان: نوکر شاہی سے سیاست تک" کا عنوان دیا گیا ہے۔
یہ کتاب جناب انور سیف اللہ خان کی سرگزشت بھی ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدرِ پاکستان، غلام اسحق خان مرحوم، انور سیف اللہ خان کے سسر تھے۔ اس پس منظر میں جب انور سیف اللہ خان صاحب، ایک سابق وفاقی وزیر اور ایک عینی شاہد کی حیثیت میں، صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے مشہور تصادم کی اصل کہانی سناتے ہیں تو یہ کہانی واقعی معنوں میں ایک ہوشربا داستان بن جاتی ہے۔
انور سیف اللہ خان اپنی مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں: " ملائیشیا کی آزادی کے بعد پاکستان نے اس ملک کی تعمیرو ترقی میں نہایت سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ اِسی نسبت سے ملائیشیا کے ذمے داران پاکستان اور پاکستان کے عوام کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ملائیشیا میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران جدید ملائیشیا کے بانی مہاتیر محمد صاحب سے پاکستان کے وفاقی وزیر کی حیثیت میں میری ملاقات میرے لیے ایک اعزاز تھا۔ مہاتیر محمد صاحب نے میرے ساتھ نہایت دردمندی اور دوستانہ لب و لہجے میں گفتگو کی اور ایک مرحلے پر قدرے فکر مندی کے ساتھ مجھے کہا: "آپ کا ملک، پاکستان، بلا شبہ ایک عظیم اسلامی ملک ہے۔ اللہ پاک نے آپ کو بہت کچھ عطا کررکھا ہے لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب آپ کا کوئی حکمران ایوانِ اقتدار سے رخصت ہو جاتا ہے تو آپ لوگ اُسے "چور، چور" کیوں کہنا شروع کر دیتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ میرے پاس اس بات کا کوئی جواب یا جواز نہیں تھا، لہٰذا مَیں خاموش رہا۔
میری خاموشی کو بھانپتے ہُوئے مہاتیر محمد صاحب نے دوبارہ کہا: میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ جب آپ اپنے حکمرانوں یا رہنماؤں کو خود ہی چور اور کرپٹ قرار دیں گے تو دُنیا کا کون سا ملک یا قوم آپ کے یہاں آکر سرمایہ کاری کرے گا؟ دُنیا میں بدنام شخص یا ملک کی کوئی پذیرائی اور عزت نہیں ہوتی۔"جناب مہاتیر محمد عالمِ اسلام کے ممتاز ترین مدبرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان بھی انھیں بے حد پسند کرتے ہیں۔ مہاتیر محمد بھی عمران خان کو چاہتے ہیں۔ مارچ 2019 میں مہاتیر محمد نے اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ پاکستان کا دَورہ بھی کیا تھا۔
حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ خان صاحب کا بوجوہ وظیفہ سیاست ہی یہ ہے کہ سوتے جاگتے اپنے حریف سیاستدانوں کو کرپٹ، ڈاکو اور چور چور کہہ کر یاد فرماتے رہیں۔ عوام الناس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس گردان سے سابق مقتدر سیاستدان بدنام ہو رہے ہیں یا ملک کے وقار اور اعتبار کو بٹہ لگ رہا ہے؟
جناب انور سیف اللہ خان کی معرفت معزز و مکرم مہاتیر محمد صاحب کی نصیحت پاکستانی سیاستدانوں تک پہنچ تو گئی ہے لیکن لگتا ہے ہمارے حکمرانوں نے اس نصیحت سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 6مارچ2021 کو جناب عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا نیا ووٹ حاصل کرتے ہی جو تفصیلی خطاب فرمایا ہے، اس تقریر کے مندرجات سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ مہاتیر محمد کی نصیحت کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہُوا ہے۔ خان صاحب نے اسمبلی کے فلور پر ایک بار پھر نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور سید یوسف رضا گیلانی وغیرہ کو جن قابلِ اعتراض الفاظ سے یاد کیا، افسوسناک ہے۔
وزیر اعظم صاحب نے پاکستان کے ان سابق مقتدرین کو ایک بار پھر سخت الفاظ میں "چور"… "لٹیرے۔ غدار " اور "ڈاکو" کے غیر پارلیمانی الفاظ سے یاد کیا۔ ان الفاظ کا بے محابا اور بے جا استعمال بتاتا ہے کہ عمران خان اب بھی اپوزیشن کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھیں قومی اسمبلی سے اعتماد کے 178ووٹ تو مل گئے ہیں لیکن قومی اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے سے انھوں نے صاف انکار کر دیا ہے۔ اپوزیشن نے بھی قومی اسمبلی کی مذکورہ کارروائی کا بائیکاٹ کرکے دراصل ایک نئی خلیج اور تصادم کی نشاندہی کر دی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اس خلیج کا اَنت کیا ہوگا۔
اپوزیشن کے خلاف عمران خان کے مجموعی رویے کے اثرات اُن کے کارکنان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ اثر پذیری کسی بھی اعتبار سے مستحسن نہیں ہے۔ جس وقت عمران خان صاحب قومی اسمبلی سے اعتماد کا نیا ووٹ لے رہے تھے، عین اُسی وقت قومی اسمبلی کے باہر مبینہ طور پر مخالفین کے کچھ ارکان نے نون لیگی قیادت پر دھاوا بول رکھا تھا۔ ہم سب نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ مبینہ طور پر نون لیگی خاتون رہنما مریم اورنگزیب پر بھی حملہ کیا گیا اور نون لیگی قائد شاہد خاقان عباسی پر بھی۔ نون لیگی رکن مصدق ملک بھی تشدد کی زَد میں آئے۔ نون لیگ کے مرکزی سیکریٹری جنرل احسن اقبال کے سر کی جانب کسی نے جوتا پھینک دیا۔ تشدد کی زد میں آنے والے یہ سبھی لوگ معزز ارکانِ پارلیمان ہیں۔
دکھ کی بات تو یہ بھی ہے کہ تشدد کرنے والوں نے مریم اورنگزیب کا لحاظ کیا نہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا۔ عباسی صاحب کے گریبان کو چاک کرنے کی جسارت بھی کی گئی۔ ان مناظر نے تشدد اور انتقام کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ اِسی "زبان" میں اب نون لیگ بھی جواب دینے کی کوشش کرے۔ نون لیگی قیادت پر تشدد کی اس واردات کے بعد مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے لہجوں میں خاص رنگ دکھائی دیا ہے۔