کورونا وائرس کی تیسری لہر نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کو شدید متاثر کیا ہے اور اس وائرس سے متاثر ہونیوالے افراد کی شرح 8 فیصد سے زائد ہوگئی ہے۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں میں متاثرہ افراد کی شرح ایک دن میں 11فیصد سے 19 فیصد تک پہنچ گئی ہے مگر وفاقی حکومت کورونا وائرس کی تیسری لہر کے بارے میں وارننگ کے باوجود خاطرخواہ اقدامات کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اب پنجاب اورخیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں اسکول بند کرنے اور S.O.Ps کے پر عملدرآمد کے لیے سخت فیصلے کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔
اب پنجاب اور خیبرپختون خوا کے مختلف شہروں کی انتظامیہ اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کررہی ہے۔ بازار 6 بجے بند کرنے کا فیصلہ ہوا تھا مگر حکومتی انتظامیہ اس فیصلہ پر سختی سے عملدرآمد کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اگرچہ اب ماسک نہ پہننے پر جرمانہ کا فیصلہ ہوا ہے مگر آبادی کی اکثریت اب بھی ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ قائم رکھنے کو تیار نہیں۔ یوں وفاقی حکومت کی ترتیب کردہ SOPs کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔
پنجاب اور خیبرپختون خواکی حکومتوں نے ابھی تک مساجد میں حاضری مختصر کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ہے جب کہ سعودی عرب کی حکومت نے سحری اور افطار کے مواقع پر اجتماعات پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں بڑے صوبوں اور اسلام آباد میں فیصلہ ساز اتھارٹی اس بارے میں گومگوں کی صورتحال کا شکار ہے۔ اس کورونا وائرس کی تیسری لہر کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور یو رپی ممالک سے آنیوالے مسافر یہ وائرس بطور کیریئر لے کر واپس آئے مگر وزارت صحت اور وزارت داخلہ کے حکام نے غفلت کا ثبوت دیا۔
ان مسافروں کی ایئرپورٹ پر اسکیننگ نہیں ہوئی، جب کورونا وائرس نے دنیا کو لپیٹ میں لیا تو امریکا، یورپ اور چین میں اس وائرس پر قابو پانے کے لیے ویکسین کی تیاری شروع کردی گئی۔ پاکستان اس معاملہ میں دنیا کے پسماندہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ اس بناء پر کورونا وائرس پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی مگر جب چین کے سائنسدانوں نے کوروناوائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین تیار کی تو اس ویکسین کے ٹرائل کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں ہوئے۔ پاکستانی ذہین سائنسی طرزفکر کے معاملہ میں اپاہج ہے۔
اس بناء پر کم افراد نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ حکومت نے بھی اس ویکسین کے ٹرائل کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی بیانیہ تیار نہیں کیا تھا، یوں 60 سال سے زائد عمر کے کم افراد نے رضاکارانہ طور پر یہ ویکسین لگوائی تھی۔
گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور چین وغیرہ نے اعلانات کیے تھے کہ جنوری کے مہینہ میں ویکسین دستیاب ہوگی۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک نے ویکسین کی خریداری کے لیے آرڈر دینے شروع کیے تھے۔ بھارتی حکومت نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے معاہدہ کیا۔ بھارت کے Serum Institute of India (SII) میں ویکسین کی بڑے پیمانے پر تیار ہوگئی۔
بھارت میں ویکسین کی بڑے پیمانہ پر پیداوار شروع ہوگئی اور برطانیہ کے علاوہ بھارت نے بھی اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کو یہ ویکسین فراہم کرنی شروع کردی مگر اسلام آباد کے مجاز حکام نے اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔ کسی ملک سے ویکسین کی خریداری کے لیے معاہدہ نہیں کیا۔ جنوری کے آخر میں بھارت، چین اور یورپی ممالک میں شہریوں کو ویکسین لگنے کی خبر اور تصاویر ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں تو اعلیٰ حکام کو خیال آیا۔
چین نے ایسے موقعے پر مدد کی اور چین کی ویکسین عطیہ کے طور پر دی گئی۔ حکومت پاکستان نے صوبوں کی مدد سے شہریوں کو ویکسین لگانے کے انتظامات کیے۔ پہلے مرحلہ میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملہ کو ملک بھر میں ویکسین لگائی گئی۔ ویکسین کے بارے میں ڈاکٹرائن تبدیل ہوئی اور 60سال سے زائد افراد کو ویکسین لگانے کے لیے پورے ملک میں سینٹر قائم ہوئے مگر دو مہینہ گزرنے کے باوجود ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد آدھے ملین سے زائد نہ بڑھ سکی۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے فروغ پانے والا رجعت پسندانہ ذہن اتنا قوی ہے کہ عام آدمی ویکسین کو بھی سازش سمجھ رہا ہے۔ ابھی آبادی کے بہت ہی کم حصہ نے اس ویکسین سے فائدہ اٹھایا تھا کہ حکومت نے جان بچانے والی ویکسین کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی DRAP نے 21 مارچ 2021ء کو ڈرگ ایکٹ 1976ء کی دفعہ 12کے تحت دو ویکسین کی قیمت کے تعین کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔ GAM-Covid-VAC(Viral Centor 26) کی قیمت 8449 فی پیکٹ مقرر کی گئی ہے۔
ایک پیکٹ میں دو انجکشن ہوں گے۔ اسی طرح Covidecia ویکسین کی فی انجکشن قیمت 4225 روپے مقرر کی گئی ہے۔ انسانی جان بچانے والی ویکسین کی بازار میں فروخت شہریوں کے علاج کے بنیادی حق کی تنسیخ کے برابر ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نامی بین الاقوامی تنظیم کی سربراہ جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے اس فیصلہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ ہر شہری کو یہ ویکسین مفت فراہم کی جائے۔
بتایا جاتا ہے کہ بھارت میں یہ ویکسین صرف 500 روپے میں دستیاب ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ مارکیٹ میں جان بچانے والی ویکسین کی فروخت کی اجازت اس بناء پر دی گئی ہے کہ جو لوگ لائن میں نہیں لگنا چاہتے وہ ویکسین خرید لیں۔
پاکستان میں ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے بعض صحافیوں کو خدشہ ہے کہ یہ دونوں ویکسین مقررہ قیمت پر دستیاب نہیں ہوں گی بلکہ منافع کمانے کا ذریعہ بنے گی اور بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوگی۔ جب مارکیٹ میں ویکسین دستیاب ہوگی تو سرکاری ادارہ لوگوں کو مفت میں ویکسین لگانے سے ہچکچائیں گے اور مشکل وقت میں عام آدمی کو یہ ویکسین بلیک میں اسی طرح خریدنی ہوگی جس طرح کووڈ کے مریض کو فوری ریلیف کے لیے دیے جانے والا انجکشن لاکھوں روپے میں فروخت ہوا تھا۔
اب کورونا ویکسین سے ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ حکومت کو قطعی طور پر کورونا کے تدارک کی ویکسین کو بازار میں فروخت کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور ملک میں ادویات کی تیاری کے پلانٹ کی تنصیب پر توجہ دینی چاہیے اور حکومت کو لوگوں کو ویکسین لگوانے کے لیے ایک سخت مہم شروع کرنی چاہیے۔ کورونا کا خاتمہ SOPs پر عملدرآمد اور ویکسین لگانے میں ہی مضمر ہے، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔