Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Imran Khan Aur Joe Biden Ki Guftagu Kyun Nahi Ho Rahi?

Imran Khan Aur Joe Biden Ki Guftagu Kyun Nahi Ho Rahi?

22جون 2021 کو سینئر امریکی ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم (Lindsey Graham) نے کہا ہے: "یہ امر حیران کن ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ابھی تک وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے بات چیت نہیں کی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے ایام میں صدرِ امریکا کا پاکستانی وزیر اعظم سے رابطہ نہ کرنا امریکا کے لیے ایک بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔"

جو بائیڈن کو امریکی صدارت کا حلف اُٹھائے 6ماہ سے زائد کا عرصہ ہو رہا ہے لیکن ابھی تک وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان اور جو بائیڈن صاحب کے درمیان کوئی مکالمہ نہیں ہُوا ہے۔ یہ بڑا ہی حیران کن رویہ ہے، حالانکہ پاکستان تو خود کو امریکا کا اتحادی سمجھتا ہے۔ اپنے اتحادی سے مگر امریکی صدر کا یہ اجنبیوں والا سلوک چہ معنی دارد؟ جب افغانستان میں سوویت رُوس کی مداخلت بڑھی، پھر جہادِ افغانستان کا آغاز ہُوا، افغانستان سے رُوسی افواج کی شکست خوردہ واپسی، طالبان کی آمد، طالبان سے امریکی تصادم اور پھر افغانستان پر امریکی فوجوں کی یلغار…ان سب برسوں میں پاکستان اور امریکی قربتیں " مثالی" رہی ہیں۔

حتیٰ کہ سابق امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، اقتدار میں آئے تو انھوں نے صدارت کا حلف اُٹھانے سے قبل ہی وزیر اعظم پاکستان، نواز شریف، سے ٹیلی فونک رابطہ کر لیا تھا۔ لیکن نئے امریکی صدر، جو بائیڈن، نے پُر اسرار چپ سادھ رکھی ہے۔ اس چپ سے پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کو بجا طور پر گلہ ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے اسلام آباد میں کوئی امریکی سفیر بھی تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ سارے ضروری سفارتی کام امریکی ناظم الامور کے توسط سے انجام دیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان، امریکا کو اپنا "اسٹرٹیجک پارٹنر" بھی کہتا ہے۔

امریکی صدر کی یہ سرد مہری ایسے ماحول میں پاکستان کے لیے زیادہ تشویشناک ہے جب افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا مکمل ہونے کے قریب ہے اور امریکی انتظامیہ نے افغانستان میں پاکستان کے تعمیری کردار سے بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران امریکی صدر، جو بائیڈن، نے بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، سے براہِ راست دو تین بار بات چیت کی ہے۔ اسی دوران جو بائیڈن نے افغان صدر، ڈاکٹر اشرف غنی، سے بھی گفتگو کی ہے اور چینی صدر، ژی جنگ پنگ، اور ترک صدر طیب اردوان سے بھی مکالمہ کیا ہے۔ نہیں کی تو صرف وزیر اعظم عمران خان سے گفتگو نہیں کی ہے۔

دریں اثنا 6جون2021ء کو مشہور امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز، نے اپنے ایک نیوز آرٹیکل میں دعویٰ کیا کہ امریکی حساس ترین ادارے کے سربراہ نے پاکستان کا دَور کیا ہے لیکن ان صاحب کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ 22جون 2021ء کو پاکستانی اخبارات نے امریکی ٹی وی کے میزبان، جو ناتھن سوان، کو دیے گئے عمران خان کے انٹرویوکے جو حصے شایع کیے ہیں، اس میں بھی عمران خان صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے پاکستان کا دَورہ کرنے والے سی آئی اے کے سربراہ سے ملاقات نہیں کی تھی۔

ویسے وزیر اعظم عمران خان مذکورہ اعلیٰ امریکی عہدیدار سے نہیں ملے ہیں تو ٹھیک ہی کیا ہے، اس لیے کہ مروجہ پروٹوکول کے مطابق اس امریکی عہدیدار کو پاکستان میں اپنے ہم منصب ہی سے ملنا چاہیے تھا۔

حکومتِ پاکستان کو اُس وقت بھی امریکا کی طرف سے دھچکاپہنچاتھاجب 22اور23 اپریل 2021کو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر امریکی انتظامیہ کی زیر نگرانی ہونے والی عالمی سربراہی کانفرنس Earth Day Global Summit) (میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان کو نظر انداز کرنے کی ایک نہایت نامناسب حرکت تھی۔ خاص طور پر اس پس منظر میں جب امریکی انتظامیہ کو بھی خوب معلوم تھا کہ عمران خان کی زیر نگرانی، پاکستان کی ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے "بلین ٹری" منصوبے کو عالمی تعارف حاصل ہے۔

مذکورہ عالمی سربراہی کانفرنس میں امریکا نے 40ممالک کے سربراہوں کوVirtually شرکت کی دعوت دی تھی۔ ان سربراہوں میں بھارت کے نریندر مودی، چین کے ژی جنگ پنگ اور رُوس کے ولادیمیر پوٹن بھی شامل تھے۔ امریکا یہ بھی جانتا تھا کہ ماحولیات کی عالمی تبدیلیوں (Global Climate Risk Index 2021) کے لحاظ سے پاکستان Vulnerable ممالک میں پانچویں نمبر پر آتا تھا۔ ان سب بنیادی حقائق کے باوجود امریکی صدر، جو بائیڈن، نے پاکستان کو دعوت نہ دے کر زیادتی ہی کی۔

پاکستان اور پاکستانی عوام نے اس امریکی رویے پر بجا طور پر بُرا منایا۔ پاکستان کو زیادہ رنج اس بات کا بھی تھا کہ بھارت کو تو کانفرنس میں مدعو کیا گیا لیکن پاکستان کو نظر انداز کر دیا گیا۔ عمران خان صاحب کو بھی اس کا رنج تھا ؛ چنانچہ اِسی ضمن میں خانصاحب نے ایک ٹویٹ یوں کیا:I am puzzled at the cacophony over Pak not being invited to a climate change conf.My govt، s environment policies are driven solely by our commitment to our future generations of a clean and green Pakistan to mitigate the impact of climate change. اس بجا شکوے کے باوجود امریکا کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔

اسی ضمن میں امریکی صدر نے حولیاتی تبدیلی کے اپنے خصوصی ایلچی، جان کیری، کو ماحولیات ہی کے حوالے سے بات چیت کرنے کے لیے بھارت، بنگلہ دیش اور متحدہ عرب امارات تو بھجوا دیا لیکن پاکستان کو نظر انداز کر دیا۔ اس روئیے پر ممتاز امریکی تھنک ٹینک، وُڈرو ولسن سینٹر، میں بروئے کار جنوبی ایشیا اُمور کے مشہور ماہر، مائیکل کوگلمین، نے بھی خاصی حیرت کا اظہار کیا۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے درمیان کوئی کشیدگی یا قطع تعلقی ہے۔ جو بائیڈن صاحب کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی کئی اہم ترین امریکی عہدیداروں کی پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ جنیوا میں پاکستان نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر، معید یوسف، کی اپنے امریکی ہم منصب، جیک سولیون، سے باقاعدہ ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ ابھی تک وزیر اعظم عمران خان اور صدر جو بائیڈن کی بات چیت نہیں ہو سکی ہے۔

کوئی تین ہفتے قبل "دی ایکسپریس ٹربیون" نے اپنے ایک نیوز آ رٹیکل میں یہی سوال اُٹھایا تھا کہ چھ مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک پاکستانی وزیر اعظم اور امریکی صدر، جو بائیڈن، میں کوئی بات چیت کیوں نہیں ہو سکی ہے؟ اور پھر خود ہی اس سوال کا یوں جواب دیا تھا: باوثوق ذرایع کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے (وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات یا بات چیت سے قبل) پاکستان بارے Internal Reviewکا حکم دے رکھا ہے۔ اور جب تک یہ مبینہ "انٹرنل ریویو" مکمل نہیں ہو جاتا، خان صاحب اور امریکی صدر کی بات چیت شاید نہ ہو سکے۔ نجانے امریکیوں کے اس نام نہاد "انٹرنل ریویو" کی تکمیل کب ہو گی؟ جو بائیڈن صاحب نجانے کیوں تاخیر سے کام لے رہے ہیں؟