وزیر اعظم جناب عمران خان پاکستان کے بہترین مفاد اور پاکستان کی سلامتی کے لیے جس طرح بھارت اور امریکا کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کم کم لوگوں کو اس بات کا اندازہ تھا۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ہے اور امریکی وجود کے ساتھ ہماری معیشت کا لنگر بندھا ہے۔
اصول کی خاطر دونوں کے سامنے ڈٹ جانا آسان نہیں ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن و امان کی مستحکم فضا کا چلن رہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے مگر بھارت کی پاکستان و کشمیر دشمن پالیسیوں کے کارن دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ڈیڈ لاک ہے۔
سفارتی بول چال بھی بند اور دونوں اطراف کے تجارتی دروازے بھی بند۔ جب سے بھارتی اقتدار کے سنگھاسن پر، آر ایس ایس اور بی جے پی کی مذہبی قیادت میں، نریندر مودی براجمان ہُوئے ہیں، پاک بھارت کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دو بڑے واقعات ایسے ہُوئے ہیں۔
جنھوں نے بھارت کی پاکستان دشمنی کو بالکل ہی بے نقاب کر دیا ہے (1) 26فروری 2019کوبھارتی جنگی طیاروں کی پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور بالاکوٹ پر حملہ۔ اس کا مزہ بھارتی حملہ آور جنگی پائلٹوں نے ترنت چکھ بھی لیا کہ ایک انڈین پائلٹ (ابھینندن) نے اپنا جہاز بھی پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں تباہ کروایا اور خود بھی پاکستانی سرزمین پر گرفتار ہو کر عالمی ذلت پائی (2) پانچ اگست 2019ء میں بھارتی وزیر اعظم کے حکم پر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، یوں کہ بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی حامل دونوں شقوں (370اور 35اے) کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا گیا۔
تقریباً دو سال ہونے کو آئے ہیں، مقبوضہ کشمیر سمیت دُنیا بھر میں پھیلے کشمیری بھارت کے اس ظالمانہ اور یکطرفہ استحصالی اقدام کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہُوئے ہیں۔ پاکستان بھی یکساں طور پر بھارت کے اس اقدام کے خلاف سخت غصے اور رنج کی کیفیت میں ہے اور اس فیصلے کے خلاف دُنیا بھر کے فورموں پر اس کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے نے پاک بھارت تعلقات کو منفی طور پر بے حد متاثر کیا ہے۔ بھارت نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ پچھلے دو، پونے دو برسوں کے دوران اس نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو ہر ہر گام پر پیچھے دھکیلنے اور کشمیریوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کی بھی کئی وارداتیں کی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس دوران ہر فورم پر جملہ کشمیر دشمن بھارتی اقدامات کی مذمت کی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ہمارے چند مسلمان برادر ممالک نے مبینہ طور پر کوشش کی ہے کہ بھارتی زیادتیوں کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان خیر سگالی کی فضا کواستوار کیا جائے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے کی یہ کوششیں مستحسن تھیں۔ اُمید پیدا ہو چلی تھی کی شاید یہ کوششیں جلد ثمر آور بھی ثابت ہو جائیں۔ امریکی اور مغربی کوششیں بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ لیکن اس دوران وزیر اعظم جناب عمران خان کا اُصولی فیصلہ سامنے آ گیا۔ اس فیصلے کے عقب میں بنیادی طور پر اُن تمام پاکستانیوں کی آشیرواد بھی بروئے کار تھی جو کسی بھی صورت میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی مکمل گرفت میں جاتا نہیں دیکھ سکتے۔ پچھلے چند ایام کے دوران لاہور بم دھماکے کے پس منظر میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزرا جس طرح دشمن کی ایجنسیوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں، اسے بھی دراصل جناب عمران خان کی بھارت بارے اپنائی گئی پالیسی کا عکس قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ کشمیریوں اور پاکستان کے 23کروڑ عوام کی تمناؤں اور خواہشوں ہی کا عکس تھا جب وزیر اعظم عمران خان نے عالمی قوتوں کے سامنے ڈٹ کر، اور غیر مبہم الفاظ میں، کہا کہ جب تک غاصب بھارت مقبوضہ کشمیر کی سلب شدہ آئینی حیثیت بحال نہیں کرتا، تب تک بھارت سے کوئی تجارت نہیں ہو سکتی۔ ہو سکتا ہے بعض لوگ جناب عمران خان کے اس غیر متوقع اعلان سے ناخوش بھی ہُوئے ہوں لیکن اُصولی طور پر عمران خان کے مذکورہ بیان سے کوئی پاکستانی اختلاف نہیں کر سکتا۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان پورے قد کے ساتھ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جون 2021کے تیسرے ہفتے ایک امریکی ٹی وی کے میزبان (جوناتھن سوان) کو مفصل انٹرویو میں جناب عمران خان نے ایک بار پھر واضح لہجے میں مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی زبردست اسلوب میں وکالت کی ہے۔ خان صاحب نے یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر حل ہو گیا تو ایٹمی ہتھیاروں کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور پاکستان و بھارت دو مہذب ممالک کی طرح زندگی گزاریں گے۔ عمران خان نے انٹرویو مذکورہ میں یہ بھی کہا کہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر مغرب کی خاموشی دراصل مغربی و امریکی منافقت ہے۔ کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے اُن کا یہ مستحکم موقف اپوزیشن کے اس پروپیگنڈے کا جواب بھی ہے جس میں یہ واویلا مچایا گیا کہ مسئلہ کشمیر بارے عمران خان نے کشمیریوں کے آدرشوں کے برعکس کوئی ذہن بنا لیا ہے۔
جناب عمران خان کے باطنی عزائم و مقاصد خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں لیکن فی الحال کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں خان صاحب نے جو موقف اختیار کیا ہے، مقبوضہ کشمیریوں کو اس سے یک گونہ اطمینان اور حوصلہ ملا ہے۔ اس کا ایک انوکھا عکس ہم نریندر مودی کی طرف سے بلائی گئی اُس کانفرنس میں بھی دیکھتے ہیں جو 24جون2021 کو نئی دہلی میں بلائی گئی۔
اگرچہ اس کانفرنس میں 8 بھارت نواز کشمیری جماعتوں کے 14رہنما شریک ہُوئے اور کسی بھی حریت پسند کشمیری لیڈر کو مدعو نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوصف اس کانفرنس میں دو چار بھارت نواز کشمیری رہنما ایسے بھی تھے جنھوں نے مودی کے منہ پر کہا کہ جب تک بھارت کشمیرکی پرانی آئینی و ریاستی حیثیت بحال نہیں کرتا، بھارت اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے تعاون کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ مودی جی کے سامنے "ناں " کرنے والے کٹھ پتلی کشمیری سیاستدانوں میں فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ بھی تھے اور محبوبہ مفتی بھی تھیں۔ تینوں شخصیات مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں۔
امریکی صحافی، جوناتھن سوان، کو دیے گئے عمران خان کے انٹرویو میں بھی ایک بار پھر یہ بات مترشح ہو گئی ہے کہ جب تک بھارت، مقبوضہ کشمیر کی سابقہ آئینی حیثیت بحال نہیں کرتا، بھارت سے تجارت وغیرہ کے تعلقات قائم کرنے کی خواہش عبث ہے۔ یہ دراصل خان صاحب کی طرف سے بھارت کو ایک بڑی سی "ناں " ہے۔
یہ جرأت و ہمت اور اُصولی سیاست کی داستان ہے۔ جناب عمران خان نے ایسی ہی ایک بڑی سی "ناں " امریکا بہادر کو بھی کی ہے۔ اس "ناں " نے امریکا کو حیران کررکھا ہے۔ اس "ناں " پر وہ امریکی صحافی (جوناتھن سوان)بھی ٹھٹھک کررہ گیا تھا جس نے عمران خان کا انٹرویو کیا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی طرف سے امریکا کو پاکستان میں اڈے نہ دینے اور امریکا کے ساتھ کسی جنگ کا حصہ نہ بننے کا واضح اور اصولی اعلان کرکے پاکستانیوں کو یک گونہ مطمئن کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عمران خان نے امریکا کو"ناں " کہہ کر ایک غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی سے عمران خان کے خطاب نے تو اس سلسلے میں بات مزید کھول دی ہے۔