نطنز نامی یہ چھوٹا سا پہاڑی قصبہ ایران کے مشہور صوبہ "اصفہان" میں واقع ہے۔"نطنز" اپنی رسیلی ناشپاتیوں اور چند قدیم مزارات کے لحاظ سے پورے ایران میں خاص شہرت کا حامل ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ایران اور دُنیا بھر میں "نطنز" کی وجہ شہرت یہ ہے کہ اس قصبے کے نزدیک ہی ایران کا پُر امن جوہری مرکز بروئے کار ہے۔
یورینیم افزودگی کا یہ مرکز اسرائیل، چند مغربی ممالک اور امریکہ کی نظروں میں خارِ مغیلاں کی طرح کھٹکتا رہتا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف اسرائیل کو ہے جس کی خفیہ ایجنسیوں نے ہمیشہ "نطنز" کے ایٹمی مرکز کوتباہ کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ ان دھمکیوں میں اسرائیلی وزیر اعظم، بنجمن نیتن یاہو، بھی شامل ہیں اور اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل Aviv Kohavi، بھی۔ اسرائیل کے لیے یہ امر ناقابلِ برداشت ہے کہ اُس کے ہمسائے، مشرقِ وسطیٰ میں، کوئی ملک جوہری طاقت بن جائے۔
سابق عراقی صدر، صدام حسین، نے اپنے دَور میں، بغداد کے نزدیک، ایٹمی مرکز بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اسرائیلی جنگی طیاروں نے اسے بھی تباہ کر دیا تھا۔ صدام حسین اسرائیل کا حملہ روک سکے تھے نہ اسرائیل سے اس جارحیت کا بدلہ ہی لے سکے۔ یہ سانحہ40 سال پہلے پیش آیا۔ لیبیا کے سابق صدر، کرنل قذافی، نے بھی اپنے ملک کو ایٹمی صلاحیتوں سے لَیس کرنا چاہا تھا لیکن منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی امریکہ نے اس کے سبھی ایٹمی ری ایکٹر اُٹھا لیے۔
آج مشرقِ وسطیٰ کے اُفق پر صدام حسین ہیں نہ کرنل قذافی۔ یوں اسرائیل کچھ زیادہ ہی بے لگام ہورہا ہے۔ کچھ عرب اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ لیکن ایران کی علاقائی طور پر بڑھتی عسکری صلاحیت اسرائیل کے سینے پر بھاری پتھر ہے۔
اس بھاری پتھر کے بوجھ کو کچھ ہلکا کرنے کے لیے اسرائیل نے مبینہ طور پر "نطنز" کے ایرانی جوہری مرکز پر 12اپریل2021ء کو سائبر حملہ کر دیا۔ ایران نے کہا ہے کہ اس پُراسرار(سائبر) حملے میں ایرانی جوہری مرکز میں کوئی جانی نقصان ہُوا ہے نہ مرکز سے مہلک تابکاری (Radiation)پھیلی ہے۔ اسرائیل نے ریاستی سطح پر اگرچہ ابھی تسلیم تو نہیں کیا ہے کہ اُسی نے "نطنز" پر سائبر اٹیک کیا ہے لیکن پورا عالمی میڈیا تصدیق کررہا ہے کہ یہ جارحانہ جسارت اسرائیل ہی کی ہے۔
خود اسرائیلی میڈیا بھی مان رہا ہے۔ اس مبینہ سائبر اٹیک نے کوئی نقصان پہنچایا ہے یا نہیں، لیکن ایک بات مگر غیر مبہم ہے کہ ایرانی غصے اور طیش کا اندازہ پوری دُنیا کے متعلقہ حلقے لگا رہے ہیں۔ کیا اس حملے کا ردِ عمل بھی جلد ہی آئیگا؟
گیارہ سال قبل بھی اسرائیل نے مبینہ طور پر "نطنز" پر سائبر حملہ کیا تھا۔ پانچ ایرانی جوہری سائنسدانوں (مسعود علی محمودی، ماجد شہریاری، دریوش رضا نجادی، مصطفی احمدی روشن، محسن فخری زادے) کے قتل کی ذمے داری بھی اسرائیل پر ڈالی جاتی ہے۔ محسن فخری زادے کو تو ابھی پانچ ماہ قبل (نومبر2020ء) کسی ریموٹ کنٹرول ہتھیار سے قتل کیا گیا ہے۔
اب کی بار اسرائیلی سائبر اٹیک پر ایرانی قیادت خاموش نہیں بیٹھی ہے۔ ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ، علی اکبر صالحی، نے اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہُوئے سفارتی زبان میں عالمی برادری اور انٹر نیشنل اٹامک انرجی کمیشن (IAEA) کے ذمے داران سے کہا ہے کہ اپنے چہیتے اسرائیل کی یہ جارحانہ اور حملہ آور حرکتیں ملاحظہ کر لیں۔ جناب صالحی نے اس حملے کو اسرائیلی دہشت گردی سے معنون کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جارح کے خلاف ایران کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ، محمد جواد ظریف، نے ایرانی پارلیمنٹ کے نیشنل سیکیورٹی کمیشن سے خطاب کرتے ہُوئے کہا:"ایران اس جارحیت کا بدلہ لے گا۔"
ایران کو اپنے حساس ترین مقام کے حوالے سے جو نقصان پہنچا ہے، ایرانی قیادت کو بدلہ لینے کا پورا پورا حق ہے۔ لیکن صہیونی اسرائیل سے بدلہ لینا سہل نہیں ہے۔ اس میں بہت سے خطرات پنہاں ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اسرائیل کی پُشت پر بوجوہ امریکہ اور مغرب کھڑا ہے۔ پھر آج تک اسرائیلی جارحیتوں پر کوئی بھی مسلمان ملک اسے دندان شکن جواب نہیں دے سکا ہے۔
سولہ ماہ پہلے(3جنوری2020ء) جب امریکہ نے مبینہ طور پر مشہور ایرانی جرنیل، قاسم سلیمانی، کو بغداد میں ڈرون میزائل حملے میں شہید کر دیا تھا، تب بھی ایرانی قیادت نے یہی اعلان کیا تھا کہ شہید قاسم سلیمانی کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ ادھر اسرائیلی چیف آف اسٹاف جنرل Aviv Kohaviنے بھی کہا ہے: "اسرائیلی افواج کی کارروائیوں سے پورا مشرقِ وسطیٰ واقف ہے۔ ہمارے دشمن ہماری طاقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ ذرا سوچ سمجھ کر ہمارے خلاف قدم اُٹھائیں۔" ان الفاظ میں صرف ایران ہی کو نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کو ملفوف دھمکی دی گئی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اُمتِ اسلامیہ کہاں ہے جو مظلوم ایران کے حق میں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اُٹھائے؟ تقریباًسب مسلمان ملک خاموش ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایران، اسرائیل کے سامنے کمزورپڑ گیا ہے۔ ایران اپنے دیرینہ موقف پر ڈٹا ہُوا ہے۔ اس کا ثبوت ایرانی صدر، حسن روحانی، کا وہ جرأتمندانہ بیان ہے جو 15اپریل 2021ء کو سامنے آیا ہے۔ جناب حسن روحانی نے کہا ہے:" اسرائیل نے نطنز پر جس ایٹمی دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے، اِسی کے پس منظر میں ہم نے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے اب اپنی جوہری افزودگی 60فیصد تک بڑھا دی ہے۔" اس تازہ بیان سے اسرائیل اور امریکہ کے پیٹ میں مزید مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔