پچھلے 4عشروں سے اسلامی جمہوری ایران پر انقلابی رُوح حکمرانی کرتی آ رہی ہے۔ یہ انقلابی رُوح وہی ہے جس نے جناب آئت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران پر مسلّط سیکڑوں سالہ بادشاہت کا خاتمہ کر ڈالا۔ ایرانی شہنشاہیت سے نجات پانے کے لیے ایرانی عوام، ایرانی سیاسی جماعتوں اور ایرانی مذہبی قیادت نے لاتعداد انسانی جانوں کی شکل میں قربانیاں دیں۔
کہا جاتا ہے کہ انقلاب آفرینی تو شائد سہل ہوتی ہے لیکن برپا شدہ انقلاب کو سنبھالنا اور اسے اپنے آدرشوں و نظریات کے مطابق مستحکم کیے رکھنا نہائت دشوار عمل ہوتا ہے۔ جناب آئت اللہ روح اللہ خمینی مرحوم اور اُن کے جانشینوں نے سخت کمٹمنٹ اور اپنے نظریات پر کاربند رہ کر ایرانی انقلاب کی رُوح کو سرد اور منجمد نہیں ہونے دیا۔ پچھلے چالیس برسوں کے دوران انقلابی جمہوری اسلامی ایران کو کئی سنگین داخلی اور خارجی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس عرصے کے دوران اس ملک پر جنگیں بھی مسلّط کی گئیں اور لاتعداد معاشی و کمر شکن عالمی پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔
ایران نے میدانِ جنگ میں اپنے حریفوں کو شکست دی اور معاشی پابندیوں کا تو وہ مسلسل پامردی اور جرأت و بہادری سے مقابلہ کرتا چلا آ رہا ہے۔ خصوصاً امریکا "بہادر" نے اپنے کئی سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے ایران کی انقلابی رُوح کو کچلنا چاہا ہے لیکن وہ نامراد ہی رہا۔ اگرچہ اس میدان کو سر کرنے کے لیے ایرانی عوام نے بلاشبہ بڑی سخت کوشی اور قربانیوں کے عملی مظاہرے کیے ہیں۔ غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو سفارتی میدانوں میں بھی اسلامی جمہوری ایران نے لاتعداد کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ ایرانی وزارتِ خارجہ اس سلسلے میں خاص طور پر تہنیت کی مستحق ہے۔
گزشتہ چار عشروں کے دوران ایران کو کئی حوصلہ شکن بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ انقلابی ایرانی حکام نے کبھی بھی اپنے وطن میں انتخابات کا عمل رُکنے نہیں دیا۔ اگرچہ ان صدارتی انتخابات پر بعض عالمی قوتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ کئی بار شکست خوردہ صدارتی اُمیدواروں کے چاہنے والوں نے احتجاجات بھی کیے ہیں۔
ان رفت گذشت چار عشروں کے دوران اسلامی جمہوری ایران میں سات صدور منتخب ہو چکے ہیں: ابوالحسن بنی صدر، محمد علی رجائی، علی خامنہ ای، اکبر ہاشمی رفسنجانی، محمد خاتمی، محمود احمدی نژاد اور حسن روحانی۔ اور اب آٹھویں ایرانی صدر کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔
18جون 2021 کو ایران میں صدارتی انتخابات کا میدان سج رہا ہے۔ ایران میں اگرچہ طاقت و اختیار کی طنابیں دراصل ایرانی سپریم لیڈر، جناب آئت اللہ علی خامنہ ای، کے پاس ہیں اور اس کھلے راز سے سبھی ایرانی آشنا ہیں لیکن اس کے باوصف ایرانی صدارت کا بلند اور باوقارعہدہ حاصل کرنے کے لیے درجنوں اُمیدوار میدان میں تھے۔ اصل فیصلہ مگر جناب آئت اللہ خامنہ ای اور اُن کے زیرنگرانی بروئے کار 12جید علما پر مشتمل انتہائی طاقتور شوریٰ نگہبان (گارڈین کونسل) نے کرنا تھا کہ کونسے اور کتنے افراد 18جون کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔
اس اہلیت کی جانچ پڑتال اور پیمانہ بھی بڑا سخت رکھا گیا تھا۔ یہ پیمانہ اِس بار بوجوہ زیادہ کڑا بنایا گیا ہے۔ صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے اہلیت کی شرائط میں چنداہم ترین یہ تھیں:(1) اُمیدوار کی عمر40اور 75سال کے درمیان ہونی چاہیے (2) اُمیدوار نے زندگی بھر کبھی، کسی بھی قسم کے جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو (3) اُمیدوار کے کردار پر انقلابی اسلامی ایرانی حکومت کے خلاف کوئی بھی کردار ادا کرنے کا چھینٹا نہ لگا ہو (4) اُمیدوار چار سال کو محیط سینئر ایگزیکٹو لیڈر شپ کا تجربہ رکھتا ہو۔
ان شرائط کی کئی صدارتی اُمیدواروں نے سخت مخالفت بھی کی ہے لیکن شرائط کو ختم کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہیں رہا۔ ان شرائط کی چھلنی اور چھاننی سے گزر کر جن 7اُمیدواروں کے چہرے سامنے آئے ہیں، ان کے اسمائے گرامی یوں ہیں:(1) سیدابراہیم رئیسی (2)محسن رضائی (3) سعید جلالی (4) امیر حسین ہاشمی (5) محسن مہرل زادے(6) عبد الناصر ہمتی (7) علی رضا زکانی۔ ان کامیاب اُمیدواروں میں سے کوئی ایرانی عدلیہ سے تعلق رکھتا ہے، کوئی ایرانی بینکاری نظام سے وابستہ ہے اور کوئی ایرانی جوہری معاملات کا ماہر خیال کیا جاتا ہے۔
غیر ایرانی میڈیا کا خیال ہے کہ ان ساتوں اُمیدواروں میں سے کوئی بھی اصلاح پسند (Reformist) نہیں ہے۔ تقریباً سبھی اُمیدوار سخت ایرانی انقلابی خیالات کے حاملین ہیں۔ جن اُمیدواروں کو ایرانی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے، ان میں (1) علی لاریجانی ہیں جو ممتاز ایرانی سیاستدان، سپریم لیڈر کے مشیر اور ایرانی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر ہیں۔
علی لاریجانی کے برادر، صادق لاریجانی، نے اپنے بھائی کی نااہلی کے فیصلے پر سخت احتجاج کیا ہے (2) اسحق جہانگیری، جو ایران کے موجودہ نائب صدر ہیں، بھی فارغ (3) محمود احمدی نژاد بھی نااہل قرار دے دیے گئے ہیں حالانکہ وہ ایران کے دو بار صدر منتخب ہو چکے ہیں (4) ایرانی وزیر خارجہ، جواد ظریف، بھی صدارتی انتخابی عمل سے آؤٹ۔ وہ کچھ ہفتوں تک صدارت کے مضبوط اُمیدوار تھے لیکن اُن سے منسوب ایک ایسی آڈیوٹیپ لیک ہو گئی جس میں ظریف صاحب مبینہ طور پر سابق ایرانی فوجی کمانڈر، جنرل قاسم سلیمانی (جنھیں پچھلے سال جنوری میں بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا تھا) کے بارے میں کچھ ایسی گفتگو کرتے سنائی دیے ہیں جو اعلیٰ ایرانی قیادت کو ناگوار گزری (5) مشہور ایرانی اصلاح پسند لیڈر، مصطفیٰ تاج زادے، اس لیے نااہل قرار دیے گئے ہیں کہ وہ سات سال جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں۔
وہ ایرانی اصلاح پسند جماعت، گرین موومنٹ، کے مرکزی قائد ہیں۔ انھوں نے احمدی نژاد کے دوبارہ صدر منتخب ہونے پر ایران بھر میں زبردست مظاہرے کیے تھے۔ اسی کارن سزا کے مستوجب قرار دیے گئے (7) ایرانی مواصلات کے موجودہ نوجوان وزیر، محمد جواد آزری، بھی ڈس کوالیفائی کر دیے گئے کیونکہ انتخاب کے کاغذات فائل کرتے وقت اُن کی عمر چالیس سال سے کم تھی۔ تہران یونیورسٹی، جس نے انقلابِ ایران میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، کے نوجوان طلبا میں جواد آزری صاحب خاصے مقبول و محبوب سمجھے جاتے ہیں۔
نئے وضع کردہ ایرانی قوانین کے مطابق جو اُمیدوار نااہل قرار دیے گئے ہیں، وہ کسی بھی ایرانی عدالت میں اپیل نہیں کر سکتے۔ ایرانی شوریٰ نگہبان کے ترجمان، عباس علی، نے ایرانی سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے:" ہم نے جو اقدامات بھی کیے ہیں، ایرانی آئین کے پیش منظر میں کیے ہیں۔
کسی سے کوئی ناانصافی ہُوئی ہے نہ کسی سے تعصب برتا گیا ہے۔"کئی صدارتی اُمیدوار تو فائنل لسٹ جاری ہونے سے قبل ہی جناب ابراہیم رئیسی کے حق میں دست بردار ہو گئے تھے۔ ابراہیم رئیسی صاحب ایرانی سپریم لیڈر، جناب آئت اللہ علی خامنہ ای، کے پسندیدہ اُمیدوار خیال کیے جاتے ہیں۔ مبینہ طور پر طاقتور ایرانی اسٹیبلشمنٹ بھی اُنہی کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے۔ فضا ایسی بن رہی ہے کہ 18جون سے پہلے پہلے چند دیگر صدارتی اُمیدوار بھی اُن کے حق میں بیٹھ سکتے ہیں۔ یوں ان پیشگوئیوں کو تقویت مل رہی ہے کہ 60سالہ ابراہیم رئیسی ایران کے اگلے صدر منتخب ہو جائیں گے۔ سید ابراہیم رئیسی ساداتی ابھی تو ایران کے چیف جسٹس بھی ہیں۔