21 جنوری 2021 کو جے یو آئی کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر، حضرت مولانا فضل الرحمن، نے کراچی میں اپنے اعلان کے مطابق " اسرائیل نامنظور ملین مارچ" کا بھرپور انعقاد کرکے خوب وعدہ نبھایا ہے۔"اسرائیل نا منظور ملین مارچ" میں ملین لوگ تو شامل نہیں تھے لیکن غاصب اور ظالم اسرائیل کے خلاف مارچ کرکے مولانا فضل الرحمن نے عالمی طاقتوں اور اسرائیل کے دوستوں کو بتا دیا ہے کہ کسی پاکستانی کے دل میں اسرائیل کے بارے میں کوئی ہمدردی ہے نہ کوئی نرم گوشہ۔ اور یہ کہ تمام پاکستانی اسرائیل کو اُسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ دیکھتے تھے۔
حکومت کو اصولی طور پر مولانا فضل الرحمن کے "اسرائیل نامنظور مارچ" پر مسرت کا اظہار کرنا چاہیے تھا لیکن حیرت کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ مقتدر لوگ اس پر ناراض ہوئے ہیں۔ مثلاً:پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات سے منسوب یہ الفاظ میڈیا میں شایع ہُوئے ہیں: "اسرئیل نامنظور مارچ کی آڑ میں مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ وزیر اعظم تو بار بار واضح کر چکے ہیں کہ اسرائیل کو قبول نہیں کریں گے۔" مولانا فضل الرحمن صاحب نے بھی اپنے مارچ سے یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل کو ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔
یہ احتجاجی مارچ نہایت ضروری تھا کہ حالیہ مہینوں میں بعض مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اچھا نہیں کیا۔ سابق امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، اور اُن کے یہودی داماد، جیرڈ کشنر، کی سر توڑ کوششوں کے کارن متحدہ عرب امارات، سوڈان، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کر لیا۔ مصر، اُردن اور ترکی پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ عالمِ اسلام میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والوں میں پہل ترکی نے کی تھی۔
اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تجارتی، دفاعی اور سیاحتی تعلقات خاصے گہرے ہیں۔ ترکی نے پچھلے دنوں یہ کہہ کر اپنا نیا سفیر(افق التاس) اسرائیل میں تعینات کیا ہے: " فلسطین اور فلسطینیوں کے خلاف بہرحال کوئی ظلم اور زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔" ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اسرائیلی یہودی سیاح، ترکی میں تعطیلات گزارنے جاتے ہیں کہ ترکی، امریکا اور مغربی یورپ کی نسبت سستا بھی ہے اور اسرائیل کے نزدیک بھی پڑتا ہے۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو اسرائیلی سیاحوں نے اس کی طرف رُخ کر لیا۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ایک دوسرے سے بغلگیر ہُوئے تو ماہرینِ اقتصادیات نے پیشگوئی کی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان سب سے پہلے سیاحت ٹورازم کو زیادہ فروغ ملے گا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یو اے ای نے اسرائیلی شہریوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی لیکن 11مسلمان ممالک پر ویزہ پابندیاں عائد کر دیں۔
یو اے ای حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق: صرف ایک ماہ (دسمبر2020) میں متحدہ عرب امارات آنے والے اسرائیلی سیاحوں کی تعداد66ہزار تھی۔ ٹورازم کے نقطہ نظر سے بظاہر تو یہ تعداد خاصی دلکش اور منافع بخش ہے لیکن ہزاروں کی تعداد میں آنے والے یہ اسرائیلی سیاح انبوہ کثیر بن کر، متحدہ عرب امارات آئے تو سہی لیکن انھوں نے کئی مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔
مثال کے طور پر: متحدہ عرب امارات اور اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ یو اے ای آنے والے اسرائیلی سیاحوں نے مقامی قوانین کی زیادہ پرواہ نہیں کی ہے، ٹریفک قوانین بھی بار بار توڑے ہیں، ہوٹلوں کے کمروں سے تولیے سے لے کر صابن اور شیمپو بھی غائب ہوئے ہیں۔ یہ شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ کئی اسرائیلی سیاحوں نے شراب پینے کے بعد بل دینے سے انکار کر دیا۔
مجموعی طور پر متحدہ عرب امارات قانون و امن پسند سر زمین ہے۔ اسی بڑے وصف کی بنیاد پر یہ عالمی سیاحت اور کاروبار کا پُر کشش مرکز بنا ہے لیکن اسرائیلی یہودی سیاحوں نے اُدھم مچا کر یو اے ای انتظامیہ کو سخت مایوس کیا ہے؛ چنانچہ اب یو اے ای کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے لیے ویزہ فری ٹریول کی سہولت ختم کر دی گئی ہے۔
یہ پابندی یکم جولائی 2021 تک برقرار رہے گی۔ اب اگر کوئی اسرائیلی شہری یو اے ای جانا چاہے گا تو اُسے ویزہ کے حصول کے مروجہ عمل سے گزرنا پڑے گا اور 100ڈالر فی کس بطورِ ویزہ فیس بھی ادا کرنا پڑیں گے۔ اس اعلان کے ساتھ بظاہر یہ کہا گیا ہے کہ کورونا کووِڈ 19کی نئی لہر کے پیشِ نظر اسرائیلیوں کے لیے ویزہ فری ٹریول کی سہولت معطل کی گئی ہے لیکن اسرائیل و متحدہ عرب امارات کے نئے معاملات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سیاحوں کے رویوں کے پس منظر میں یہ نئی پابندی عائد کی گئی ہے۔