تقریباً80برس قبل جرمنی کے مطلق حکمران، اڈولف ہٹلر، نے بلاشبہ جرمن یہودی شہریوں کا قتلِ عام کیا۔ یہودی اس سانحے کو "ہولو کاسٹ" کہتے اور آج بھی اس پر آنسو بہاتے ہیں۔ لیکن کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہی مظلوم یہودی جب غاصب بن کر اور امریکی و یورپی سازشوں سے فلسطین پر قابض ہو جائیں گے تو ہٹلر سے بڑھ کر ظالم اور خونیں ثابت ہوں گے۔
شاید ٹھیک ہی کہا جاتا ہے: خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ صہیونی و اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو اسرائیل کی شکل میں ناخن ملے ہیں تو اس نے فلسطینیوں کو لہو لہان کر دیا ہے۔ پچھلے دو ڈھائی ہفتوں کے دوران اسرائیل نے فلسطینیوں کا جس وحشت سے لہو بہایا ہے، اس المیے پر ہم سب خون کے گھونٹ پی کررہ گئے ہیں۔ عالمی نقشے پر موجود پانچ درجن کے قریب مسلمان ممالک میں سے ایک بھی ایسی مسلم مملکت نہیں ہے جو کھل کر فلسطینیوں کی مالی اور عسکری اعانت کررہی ہو۔
ایران پر الزام ہے کہ وہ پسِ پردہ رہ کر صہیونی اسرائیل کے خلاف ڈٹے فلسطینیوں کی دامے، درمے مدد کرتا ہے لیکن اس مبینہ امداد کے نتیجے میں ایران کو جن اعصاب شکن امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کی سنگینیوں کا شاید ہم میں سے کم کم لوگوں کو ادراک و احساس ہے۔
القدس الشریف کے مشرقی حصے اور غزہ پر اسرائیل نے جو تازہ مظالم ڈھائے ہیں، ان کے نتیجے میں 200سے زائد فلسطینی شہید اور 1500سے زائد شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ جو شہید ہُوئے ہیں، وہ تو اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہو گئے لیکن جو شدید مجروح ہیں، ہم میں سے کوئی بھی اُن کے مصائب و آلام کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ بے بسی اور بیکسی حد سے بڑھ چکی ہے۔ اسرائیلی میزائلوں کا ہدف بنے معصوم فلسطینی بچوں کے لخت لخت اور خون میں لتھڑے لاشوں کو اپنے بازوؤں میں اُٹھائے فلسطینی والدین کی آہ و بکا کے مناظر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
ان مناظر کے پیش منظر میں ہم سینہ کوبی کے سوا شاید کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ عالمِ اسلام کا حاکم طبقہ بھی اپنے آرام دہ گھروں اور ٹھنڈے و پُر شکوہ دفاتر میں بیٹھ کر اسرائیل کے خلاف قرار دادیں منظور کرکے سمجھتا ہے کہ اُس نے مظلوم و مقہور اور شدید جارحیت کا شکار فلسطینی مسلمانوں سے "یکجہتی" کا فریضہ ادا کر دیا ہے۔
لیکن بھلا محض قرار دادوں کی منظوری سے کیا ہو سکتا ہے؟ جب تک دستِ جفاکیش کا ہاتھ پوری قوت کے ساتھ توڑ نہیں دیا جاتا، قرار دادیں جفا جُو اسرائیل کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں۔"ایکسپریس نیوز"کے پروگرام "ایکسپرٹ" میں گزشتہ روز بجا کہا گیا ہے کہ "اسرائیل مخالف قرار دادوں سے اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔" پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی اس حال میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کی ہے کہ اسمبلی میں ہمارے وزیر اعظم صاحب موجود ہی نہیں تھے۔ اسمبلی کے مذکورہ اجلاس میں ارکانِ اسمبلی کی تعداد بھی بھرپور نہیں تھی۔
اسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ہمارے جذبات احساسات کیا ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کے تازہ مظالم سہتے ہُوئے تیسرا ہفتہ گزررہا ہے اور اب ہمارے حکمرانوں اور حزبِ اختلاف نے فیصلہ فرمایا ہے کہ آج(21مئی) کو ملک بھر میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں اظہارِ یکجہتی کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمن نے بھی کچھ ایسا ہی اعلان فرمایا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسرائیل کے خلاف ہمارے حکمران طبقے اور اپوزیشن کو اجتماعی احتجاج کرنے کے لیے اتنے دن کیوں انتظار کرنا پڑا ہے؟ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے والی ہماری مذہبی جماعتیں بھی اس معاملے میں تین ہفتوں سے منقار زیر پر رہی ہیں۔
ہم سے تو امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک میں بسنے والے مسلمان ہی بہتر ثابت ہُوئے ہیں جنھوں نے تعداد میں قلیل ہونے اور ہزار خطرات کے باوجود اسرائیلی مظالم کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مقدور بھر آواز اُٹھائی اور مظاہرے کیے ہیں۔
غزہ میں بسنے والے ہزاروں فلسطینی اسرائیلی بموں اور میزائلوں کے حملوں میں اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں۔ اُن کے پاس کھانے کو روٹی اور پینے کو پانی تک نہیں ہے۔ وہ زندگی بچانے والی ادویات سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔ مقبوضہ فلسطین تک ادویات پہنچ سکتی ہیں نہ خوراک۔ بیچارگی اور لاچاری کے ان مناظر میں ہمارے حلق سے نجانے لُقمہ کیسے نیچے اُتر سکتاہے؟ امریکیوں اور مغربیوں کے خوف سے ہمارے مسلمان حکمران کھل کر فلسطینیوں تک خوراک کے تھیلے بھی پہنچانے سے قاصر ہیں۔
ایسے میں اسرائیل مخالف یہ قرار دادیں اور اسرائیل کے خلاف ہمارے اجتماعی احتجاجات چہ معنی دارد؟ ستم یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے سات مسلمان ممالک بھی اسرائیل کے دستِ ستم کو روکنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ امریکی خوشنودی کا حصول عالمِ اسلام کے ہر حکمران کی اولین ترجیح ہے۔
اورامریکا نے تو ایک بار پھر اپنے بغل بچے، صہیونی اسرائیل، کے فلسطین مخالف مظالم کی مذمت کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ سابق امریکی صدور کی مانند نئے امریکی صدر، جو بائیڈن، اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ہیں، حالانکہ جو بائیڈن سے ہم سب نے اس کردار کے برعکس توقعات وابستہ کررکھی تھیں، اس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ مغربی ممالک اور امریکا کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ امریکی صدر نے بغیر کسی ابہام کے کہا ہے: "اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا پورا حق ہے۔"افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے کمزور اور بے بس فلسطینیوں کو "جارح" قرار دیا ہے۔
ایسے میں امریکی مسلمانوں نے اجتماعی طور پر اپنا ردِ عمل بھی دیا ہے۔ امریکی صدر، جوبائیڈن، کی طرف سے امریکی مسلمانوں کی نمایندہ تنظیموں اور چنیدہ امریکی مسلمان لیڈروں کو 16مئی 2021ء کو وائٹ ہاؤس میں عید ملن پارٹی پر مدعو کیا تھا لیکن امریکی مسلمانوں نے اجتماعی طور پر، بطورِ احتجاج، اس عید ملن پارٹی میں شرکت کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
اس مقاطع پر امریکی مسلمانوں کی نمایندہ اور معروف فلاحی تنظیم CAIR(کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز) کے مرکزی قائد، نہاد عواض، نے کہا ہے:" فلسطین کے نہتے اور مجبور مسلمانوں پر اسرائیل جس وحشیانہ انداز میں ظلم ڈھا رہا ہے اور امریکا جس انداز میں حملہ آور اسرائیل کی حمایت کررہا ہے، ہمارا ضمیر صدر صاحب کی عید ملن پارٹی میں شرکت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔" اس انکار اور بائیکاٹ کی خبر کو ممتاز امریکی میڈیا نے نمایاں جگہ دی ہے۔
امریکا میں بسنے والے لاکھوں مسلمان امریکی میڈیا، سیاست اور معیشت پر چھائے اسرائیلی یہودیوں کاکچھ بگاڑ تو نہیں سکتے لیکن وہ اسرائیلی خونی جارحیت اور فلسطینیوں کے قتلِ عام پر احتجاج تو کر سکتے ہیں، سو امریکی مسلمانوں نے اس کا اجتماعی مظاہرہ کرکے مظلوم فلسطینی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کر دیا ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے۔