کووِڈ 19المعروف کورونا کی تیسری طاقتور لہر ہم پر حملہ آور ہے۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کے دروازے پھر بند ہو رہے ہیں۔ نئی مگر بجا پابندیوں کی زَد میں تاجر اور دکاندار بھی آ رہے ہیں۔ حکومت نئی پابندیاں عائد کرنے کاعندیہ بھی دے رہی ہے۔ کورونا کی تازہ لہر سے شدید طور پر متاثر ہو کر جاں بحق ہونے والوں کے اعداد و شمار ہم سب کے لیے پریشان کن ہیں۔
راقم نے اپنے ایک ممتاز دانشور دوست کو خیر خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا تو اُنہوں نے یہ بتا کر پریشان کر دیا کہ آج کورونا کی لپیٹ میں آئے مجھے ساتواں دن ہے۔ اللہ کریم اُن پر کرم فرمائے۔ مجھے اپنے کچھ عزیزوں کے ساتھ ٹیکسلا میوزیم جانا پڑا۔ وہاں مجھے حسیب مغل مقامی دوست مل گئے۔ اُنہوں نے یہ بتا کر مزید پریشان کر دیا کہ ٹیکسلا کچہری بوجہ کورونا ایک ہفتہ کے لیے بند کر دی گئی ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہاں کے ایک وکیل صاحب کورونا کے کارن جاں بحق ہو گئے ہیں۔ شنید ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں کورونا کا وائرس زیادہ شدت سے حملہ آور ہے۔
اسپتالوں میں پھر کورونا کے متاثرہ مریضوں کی تعداد روز افزوں ہے۔ حکومت اس مہلک وبا پر ایک بار پھر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے۔ ہم سب کو بھی اس ضمن میں حکومت اور حکومتی اہلکاروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور یہ کہنے سے اب باز آ جانا چاہیے کہ کورونا کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہے اور یہ کہ یہ تو اسلام دشمنوں کی سازش ہے۔ ہمیں بہرحال کورونا اور ویکسین بارے منفی پروپیگنڈے سے بھی بچ کررہنا ہے۔
کورونا کی ہلاکت خیزیوں کے سامنے بند باندھنے کے لیے حکومت عوام کو مفت کورونا ویکسین فراہم کررہی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھی یہ ویکسین لگوا لی ہے۔ بزرگ افراد کو قائل اور مائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ ویکسین لگوانے میں پہل کریں۔ اس معاملے میں "این سی او سی" کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ مجھے میرے بڑے بھائی صاحب، جو حافظِ قرآن ہیں، نے بتایا کہ وہ بھی سرکار کی طرف سے فراہم کردہ یہ ویکسین مفت لگواچکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اشتہارات کی صورت میں عوام کو تسلسل سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ سرکار کی طرف سے مفت فراہم کردہ ویکسین سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔ ایک عالمی شہرت یافتہ ریسرچ سینٹر کا دعویٰ ہے کہ 27مارچ 2021 تک دُنیا بھر میں کورونا ویکسین کے 50کروڑ 77لاکھ سے زائد ڈوز استعمال ہو چکے ہیں۔
ہمارے ڈاکٹر حضرات، ہیلتھ ورکرزاورمیڈیا کے افراد کو ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر کورونا ویکسین فراہم کی جانی چاہیے کہ یہ سب لوگ اس وبا کے طوفان میں فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں۔ گزشتہ روزایک اعلیٰ سرکاری افسر سے راقم کی ملاقات ہُوئی تو اُنہوں نے اس حوالے سے ایک خوش کن خبر سنائی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے وزیر اعظم جناب عمران خان کے اسپیشل اسسٹنٹ برائے ہیلتھ، ڈاکٹر فیصل سلطان صاحب کو ایک مفصل چٹھی لکھی گئی ہے جس میں گزارش کی گئی ہے کہ وہ ملک بھر کے میڈیا ورکرز کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین فراہم کریں تاکہ میڈیا کے جملہ وابستگان اس مہلک وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔ لیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے جُڑے تمام اخبار نویسوں کو خبر کے حصول، رپورٹنگ کے لیے ہر وقت کسی نہ کسی صورت میں عوام الناس اور سرکاری عمال سے ملنا جلنا پڑتا ہے۔ یوں وہ ہر وقت کورونا کی " توپ" کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا ورکرز کو ویکسین کی ضرورت ترجیحا ً زیادہ ہے۔
عالمِ اسلام کا المیہ ہے کہ کوئی مسلمان ملک ابھی تک کورونا سے بچنے کے لیے ویکسین تیار کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ حتیٰ کہ بھارت اور اسرائیل، جنہیں ہم پاکستان اور عالمِ اسلام کا دشمن نمبر ایک گردانتے ہیں، نے ویکسین تیار کرنے میں کامیابیاں سمیٹ لی ہیں۔
چین، امریکہ اور برطانیہ سمیت وہ سب ممالک جس کے سائنسدانوں نے دن رات ایک کرکے کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے ویکسین تیار کی ہے اور یہ خاصی مفید بھی ثابت ہو رہی ہے، یہ سب لوگ ہمارے شکریے اور سیلوٹ کے مستحق ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کورونا ویکسین کی ایجاد نے انسانیت کو عظیم تباہی سے بچانے کی اپنی سی سعی کی ہے۔ کورونا ویکسین کی تیاری سے دُنیا کے دلوں میں اُمید کی نئی شمعیں روشن ہُوئی ہیں۔ ویکسین بنانے والے یہ سائنسدان انسانیت کے محسن اور سیوا کار ہیں۔ ان کا احترام ہم پر لازم ہے۔
ملک میں مہنگائی اس قدر منہ زور، بے روزگاری کا گراف اتنا بلند اور ادویات کی قیمتیں اتنی حوصلہ شکن ہیں کہ زیریں متوسط طبقے کی سانسیں ٹوٹنے لگی ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستان کے سرمایہ داروں کو مستحقین تک مفت کورونا ویکسین فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا منظر سامنے نہیں آ سکا ہے۔ اس پیش منظر میں اگر کوئی ادارہ یا شخص، محض انسانیت کی خاطر، مستحق افراد کی اعانت کررہا ہے تو ایسے خدمت گزاروں اور دستگیروں کی حوصلہ افزائی لازم ہے۔
مجھے چند دن پہلے "الخدمت فاؤنڈیشن" کے ڈائریکٹر شاہد شمسی صاحب کی طرف سے ایک خط ملا جس میں بتایا گیا ہے کہ "الخدمت " نے پچھلے سال 2020میں 8ارب روپے کے اخراجات سے تقریباً ڈھائی کروڑ مستحق افراد کی دستگیری کی ہے۔ اِسی طرح 23مارچ 2021 کو حکومت نے ملک بھر میں خلقِ خدا کے جن خدمت گزاروں کی خدمات کو تسلیم کرتے ہُوئے اُنہیں میڈلز دیے ہیں، ان میں ایک سید لختِ حسنین صاحب بھی ہیں۔ لختِ حسنین صاحب برطانیہ میں "مسلم ہینڈز "نامی ایک معروف چیریٹی کے چیئرمین ہیں اور پاکستان سمیت دُنیا کے کئی ممالک میں اپنے ادارے کے توسط سے لاکھوں مستحق انسانوں کو تعلیم، خوراک اور صحت کے میدانوں میں مفت امداد فراہم کررہے ہیں۔ سید لخت حسنین کو صدرِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز سے نوازا ہے۔
اِسی طرح برطانیہ ہی میں "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" نامی ایک شاندار فلاحی ادارہ بروئے کار ہے۔ عبدالرزاق ساجد صاحب اس ادارے کے چیئرمین ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان، برما، بنگلہ دیش، صومالیہ وغیرہ میں اندھی ہوتی آنکھوں میں روشنی کا تحفہ تقسیم کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" نے لاہور کے قلب میں کروڑوں روپے کی مالیت سے آنکھوں کے امراض کی شفایابی کا ایک ایسا اسپتال بنایا ہے جہاں مستحق افراد کا علاج سو فیصد مفت کیا جاتا ہے۔ ستم زدہ لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش میں ایک ملین پونڈز کے اخراجات سے نَو آباد کاری بھی وہ قابلِ تحسین کارنامہ ہے جو عبدالرزاق ساجد کا مقدر بنا ہے۔