قبرستان میں داخل ہوتے ہی مَیں نے ابدی نیند سونے والوں کو سلام کہا: السلام علیکم یا اہل القبور۔ دل پر اُداسی اور افسردگی کی ہیبت ناک گھٹا چھا گئی۔ سیدنا حضرت علی ؓسے منسوب ایک خط کی ایک لائن یاد آ گئی:جب دل پر دُنیا کی محبت اور کشش کا زنگ چڑھ جائے تو اِسے اتارنے کے لیے قبرستان کثرت سے جایا کرو۔ ایک ہاتھ میں قرآن مجید تھامے اور دوسرے ہاتھ سے گرم چادر کو سنبھالتا مَیں قبرستان میں داخل ہو گیا۔ وہاں گہری خاموشی تھی اور صبح کی یخ بستہ ہوا کے تھپیڑے تھے۔ میرے بچپن میں اس قبرستان میں ایک گھنا جنگل ہوتا تھا۔
وہ بھی ہواو ہوس نے نگل لیا۔ اب موسمِ گرما میں یہاں تا ابد سونے والے چلچلاتی دھوپ برداشت کرتے ہیں اور سرما میں قبریں ٹھٹھڑتی ہیں۔ مگر شاید اہلِ قبور اب دُنیا کے ان موسمی پیمانوں سے نجات پا چکے ہیں۔ پھر کاہے کی گرمی اور کہاں کی سردی؟
گاؤں کے جنوب میں ہمارا قبرستان ہے۔ قبرستان میں داخل ہوں تو بائیں جانب، بطرف مشرق، کھیتوں کی منڈیر سے متصل دادا جی کی آخری آرامگاہ ہے۔ یہاں سب سے پہلے میری والدہ مرحومہ آباد ہُوئی تھیں۔ والدہ کا ذکر کرتے ہُوئے اِس عمر میں بھی آنکھیں ہیں کہ بھر بھر آرہی ہیں۔ پھر دادی جی، جنھیں ہم بے جی کہہ کر پکارتے تھے، یہاں ہجرت کر آئیں۔ پھر دادا جی گاؤںمیں اپنی آبنوسی چھڑی ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اپنی حنائی ڈاڑھی کے ساتھ یہاں منتقل ہو گئے۔
پھر بڑی بھاوج نہایت خاموشی کے ساتھ یہاں آ گئیں۔ آخر میں ابا جی ان سب کی تنہائی دُور کرنے کے لیے یہیں آ بسے۔ اب ان سے ہم آغوش ہونے کے لیے ہم میں سے کس کی باری ہے، کوئی نہیں جانتا۔ سبھی پا بہ رکاب ہیں۔ شیخ ابراہیم ذوق یاد آ گئے:عمرِ رواں کا توسنِ چالاک اس لیے /تجھ کو دیا کہ جَلد کرے یاں سے ایڑ تُو۔
لیکن اِس خوبصورت اور دلفریب دُنیا میں رہتے ہُوئے عمر کے توسنِ چالاک کو جلد ایڑ لگانے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک ناقابلِ فہم ڈپریشن کے دباؤ میں، خاموشی اور سکوت کے سمندر میں گھری اپنے جی جان عزیزوں کی سبھی قبروں کو دیکھا۔ ریشمی غلاف میں لپٹے قرآن شریف کو احترام سے کھولا۔ مغرب کی جانب منہ کرکے قرآن پاک کا ایک پارہ دھیرے دھیرے تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا اور پھر دکھے اور مہجور دل کے ساتھ بچھڑنے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔
سوچا: اگر ہمیں بھی یہاں سونا نصیب ہُوا تو نجانے کوئی ہماری قبر پر بھی دعائے مغفرت کے لیے آئیگا یا نہیں؟ دادا جی کی کئی باتیں یاد آنے لگیں۔ عاشورۂ محرم کے دوران جب سبھی گاؤں والے اپنے اپنے مرحومین کی قبروں پر نئی اور تازہ مٹی ڈالنے قبرستان آتے تو دادا جی ہمیں بھی اپنی قیادت میں یہاں لاتے۔ ہمارے ہاتھوں میں کدال اور دابڑا ہوتا تھا۔
قبرستان ہی سے مٹی کھودی جاتی اور دادا جی خود اپنے کانپتے اور لرزتے ہاتھوں سے یہ مٹی اپنے عزیزوں کی قبروں پر بکھیرتے جاتے۔ پھر وہ ہاتھ دھوتے، اپنی حنائی ڈاڑھی کو چھوٹی سی جیبی کنگھی سے سنوارتے اور دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اُٹھاتے۔ اُن کی دعا بہت لمبی ہوتی تھی۔ ہم بچے اُکتا سے جاتے۔ دعا ختم ہوتی تو وہ ہم پوتوں کو اپنے پہلو میں بٹھا لیتے۔ پھر دلگیر اور شکستہ لہجے میں ہمیں کہتے: "مَیں مر جاؤں گا تو میری قبر کو فراموش نہ کردینا، یار۔ کبھی کبھار دعا کے لیے یہاں آیا کرنا۔ مَیں تم لوگوں کا انتظار کروں گا۔ اور دیکھو، قرآن پاک کی تلاوت کرکے میرے لیے دعا کیا کرنا۔"
دادا جی کی حنائی ڈاڑھی، آبنوسی چھڑی، سر پر لپٹی نسواری رنگی پگڑی، مسلسل سجدوں سے بنا پیشانی پر گہرا داغِ سجود، اپنے مرشد کی یاد میں کاندھے پر رکھا نسواری رومال، سادہ سی قمیض اور سادہ سا تہ بند مگر نہایت صاف ستھرا، پاؤں میں پہنی دیسی چرمی جوتی۔ سب آنکھوں کے سامنے ہیں۔ سرما کے ایام میں وہ بھیڑ کی اون سے بنی سیاہ گرم شال (لوئی) کاندھوں پر رکھتے۔ یہ شال گاؤں کے اکلوتے بافندے، بابا لال دین، سے بڑی محبت سے بنواتے تھے۔ تہجد کے وقت اُٹھنے والے دادا جی کو کڑاکے کی سردی سے یہی گرم سیاہ دبیز شال بچاتی تھی۔
ہر سال سردیوں کے ایام میں اُن کے لیے خصوصی پِنّیاں بنائی جاتیں۔ اَلسی، گڑ، چاروں مغز، دیسی گھی اور بکثرت روغنِ بادام کا یہ مرکب ہمارے گاؤں کے حکیم، بابا روشن دین، تیار کرتے۔ اس پُر اسرار مرکب کو بس دادا جی ہی تناول کر سکتے تھے۔ وہ نمازِ اشراق ادا کرنے کے بعد، گرم سیاہ شال میں لپٹے، اور ہاتھ میں چھڑی تھامے"یا حیی یا قیوم" کا وِرد کرتے مسجد سے گھر آتے۔ گھر میں قدم رکھتے تو اَلسی اور باداموں سے بنا یہ مرکب المونیم کی ایک چھوٹی سے پیالی میں گرم کرکے اُن کے لیے تیار ہوتا۔ اسے وہ چائے کے ساتھ کھاتے۔ سردیوں میں ناشتے میں اس کے علاوہ دادا جی کچھ نہیں کھاتے تھے۔ قناعت، پرہیزی خوراک، باقاعدہ واک، با جماعت تمام نمازوں کی ادائیگی اور سال میں ایک بار اپنے مرشد کے عرس شریف میں حاضر ہونا دادا جی کی زندگی کا جزوِ حیات تھے۔
سردیوں کے ایام میں دادا جی اکثر سرسوں کے تیل کی مالش کرواتے۔ اُن کی عمر 80سال کے لگ بھگ ہو چکی ہوگی مگر اُن کا بدن سخت اور جوان لگتا تھا۔ ہم پوتوں کو مالش کرنے کا حکم دیتے۔ ستر ڈھانپنے کے لیے وہ ایک عجب سا لباس پہنتے۔ اسے وہ "صافہ" کہتے تھے۔
تین کونوں والا کپڑے کا ایک ٹکڑا جس کے تینوں اطراف میں تین لمبی طنابیں ہوتی تھیں۔ اب یہ صافہ پہنے کوئی نظر نہیں آتا۔ مالش کروانے کے بعد دادا جی سورج کی طرف پُشت کر کے خاصی دیر اکڑوں بیٹھے رہتے۔ ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی کہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کبھی ہمت کرکے اُن سے پوچھتے تو وہ سورج کی طرف اپنی کانپتی انگشتِ شہادت سے اشارہ کرتے ہُوئے کہتے: " اس کی تپش سے بدن کو طاقت ملتی ہے۔ سورج کی کرنیں صحت کا پیغام بھی ہیں "۔ ہمیں مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ بچپن میں یہ سوال مگر ذہن میں چکر کاٹتارہتا تھا کہ سورج کی روشنی میں بھلا ہمارے بدن کے لیے کیا اچھا پیغام ہو سکتا ہے؟ مگر اب معلوم ہُوا ہے کہ سورج کی روشنی میں وٹامن ڈی بھی ہوتا ہے۔ وٹامن ڈی ہڈیوں کو جہاں مضبوط اور توانا کرتا ہے، وہیں یہ وٹامن انسانی بدن میں زبردست قوتِ مدافعت پیدا کرتا ہے۔
اللہ کریم نے وٹامن ڈی صرف سورج کی روشنی میں رکھا ہے۔ ماہرینِ غذائیات کہتے ہیں کہ ایک نوجوان انسان کو روزانہ 400سے 800 ملی گرام وٹامن ڈی لینا ضروری ہے۔ کورونا (کووِڈ19) کی جاری عالمی مہلک وبا میں سائنسدانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جس انسان کے بدن میں وٹامن ڈی کی کمی ہوگی، کورونا وائرس اُسے آسانی سے شکار بنا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا کے مریضوں کو ڈاکٹر حضرات بکثرت وٹامن سی اور وٹامن ڈی استعمال کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ کورونا کے مہیب وبائی موسم میں وٹامن ڈی بارے یہ معلوم ہُوا ہے تو حیرت بھی ہُوئی کہ جو بات دادا جی کو برسوں قبل معلوم تھی، ہمیں آج معلوم ہو رہی ہے۔ ایسے میں سردیوں کی سنہری دھوپ میں، مالش کروانے کے بعد، سورج کی جانب پُشت کیے دادا جی کی یاد کیوں نہ آئے؟