زیر نظر حیرت انگیز اور انکشاف خیز تصنیف میں جن عالمی شہرت یافتہ ادیبوں، شاعروں اور اُن کی آل اولاد اور بیویوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، اُن میں چارلس ڈکنز، وِکٹر ہیوگو، گوئٹے، جان ملٹن، لیو ٹالسٹائی اور آسکروائلڈ شامل ہیں۔ مصنف(میلکم فوربس) برطانیہ کے مشہور ترین ناول نگار، چارلس ڈکنز، کے بارے میں لکھتے ہیں:" چارلس ڈکنزکی زندگی کے کئی تلخ اور المناک پہلو، سوانح حیات بن کر، اُن کے تقریباً ہر ناول میں جھلکتے ہیں لیکن ان میں ناولOliver Twistکو ممتاز ترین حیثیت حاصل ہے۔
ڈکنز ابھی بچہ ہی تھا جب اُسے جوتوں کی پالش بنانے والی ایک فیکٹری میں بطورِ مزدور کام کرنا پڑا کیونکہ اُس کے والد کو قرض خواہوں نے قرض نہ ادا کرنے کی پاداش میں جیل بھیج رکھا تھا۔ ڈکنز کو باپ کا قرض اتارنے کے لیے فیکٹری میں سخت مزدوری کرنا پڑی "۔ مزید لکھا:" چارلس ڈکنز نے بطورِ ناول نگار شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر شادی کی۔
اُن کے 10بچے ہُوئے جن میں سے سات زندہ رہے۔ ڈکنز اپنے بچوں اور گھر میں خاصے سخت گیر تھے۔ وہ صبح سب سے پہلے سارے گھر کا معائنہ کرتے اور دیکھتے کہ اُن کی منشا کے مطابق سارا گھر صاف کیا گیا ہے یا نہیں؟ اُن کے پا س دولت آئی تو وہ اپنے بھائیوں، بھتیجوں بھانجوں اور قریبی رشتہ داروں کی مالی مدد بھی کرتے اور اُن کی جگہ جگہ سفارش بھی۔ ڈکنز کے سبھی بیٹے نہایت امیرانہ ماحول میں جوان ہُوئے۔ سب بچوں کو سماج اور تعلیمی اداروں میں اس لیے عزت و تکریم کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا کہ وہ ایک نہایت مشہور باپ کے صاحبزادگان ہیں۔ اِسی شئے نے انھیں خراب کر دیا۔ یوں زیادہ تر بچے کوئی بڑا کام انجام نہ دے سکے "۔
نصف درجن سے زائد ہر دلعزیز ناول لکھنے والے چارلس ڈکنز اور اُن کے بچوں کے بارے میں زیر نظر کتاب کے مصنف مزید رقمطراز ہیں: "ڈکنز کا ایک بیٹا(کیٹ) اپنے عظیم والد کی زندگی کے آخری ایام میں اُن کے ساتھ رہا لیکن وہ اپنے والد کے بارے میں لکھتا ہے:میرے باپ کی زندگی کا اکلوتا اور سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ انھوں نے زیادہ بچے پیدا کیے،۔ جب ڈکنز تک اپنے بیٹے کے یہ الفاظ پہنچے تو انھیں بے پناہ رنج پہنچا اور انھوں نے اُکتا کرکہا: گویا میرے باپ کو بھی مجھے جنم نہیں دینا چاہیے تھا،۔ ڈکنز کے چھٹے بیٹے کا نام" ہنری" تھا۔ وہ کیمبرج میں پڑھتا تھا۔
باپ نے ایک بار ہنری کو یوں خط لکھا: تمہیں معلوم ہے مَیں نے یہ روپیہ پیسہ کتنی محنت سے کمایاہے؟ جب مَیں ایک ایک پائی کا محتاج تھا، کسی نے میری دست گیری نہیں کی تھی۔ اس لیے بیٹا، تمہیں اس مہنگے تعلیمی ادارے کی قدر کرنا چاہیے جس کے جملہ اخراجات مَیں برداشت کررہا ہوں۔ مَیں تم سے اچھے تعلیمی نتائج کی توقع رکھتا ہُوں۔ ، ہنری نے باپ کے اس خط کو شاید دھمکی سمجھا تھا، اس لیے اُس نے سخت محنت کی اور اُسی برس کیمبرج سے وظیفہ حاصل کر لیا۔ ہنری نے بعد ازاں ایک مضمون میں لکھا: میرے والد نے مجھے اس کامیابی پر مبارکباد تو دی لیکن اُن کے لہجے میں مسرت نہیں تھی۔"
چارلس ڈکنز کے زیادہ تر بیٹے باپ کی سفارشوں اور مالی اعانت کے محتاج ہی رہے۔ اکثریت صاحبزادگان نے اپنے بے پناہ شہرت یافتہ باپ کو مایوس ہی کیا۔ ڈکنز کے سب سے بڑے بیٹے کا نام "چارلس "تھا۔ کتاب میں بتایا گیا ہے:" چارلس ڈھنگ سے بزنس کر سکا نہ کوئی مناسب ملازمت۔ ڈکنز نے سفارش کرکے اُسے ایک بینک میں ملازم تو کروا دیاتھا لیکن اُس نے بینک کی نوکری بھی تیاگ دی۔ پھر بزنس کیا لیکن اس میں بھی مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے سے قاصر ہی رہا۔ ڈکنز نے اُسے اپنے ہفتہ وار اخبار ((All the Year Round) میں ملازمت دے دی۔ جب تک ڈکنز زندہ رہے، چارلس اچھا کام کرتا رہا لیکن جونہی ڈکنز کی آنکھیں بند ہُوئیں، چارلس نے سارے اخبار کا بھٹہ بٹھا دیا۔" ڈکنز نے اپنے دو بیٹے (متحدہ) ہندوستان بھی بھجوائے تھے۔
اُن میں سے ایک کو سفارش کروا کر "بنگال ماؤنٹڈپولیس " میں افسر بھرتی کروا دیا تھا۔ باقی صاحبزادگان کی کتھا یوں بیان کی گئی ہے: "ایڈورڈ، عظیم چارلس ڈکنز کا سب سے چھوٹا اور محبوب بیٹا تھا لیکن یہ بھی کوئی ڈھنگ کا کام نہ کر سکا۔ ڈکنز نے اندازہ کر لیا تھا کہ یہ صاحبزادہ برطانیہ میں رہا تو برباد ہو جائے گا؛ چنانچہ ڈکنز نے ایڈورڈ کو زراعت کی تعلیم دلوائی اور اُسے آسٹریلیا بھجو ادیا جہاں پہلے ہی اُس کا ایک بڑا بھائی بزنس کررہا تھا۔ ایڈورڈ نے آسٹریلیا میں بھیڑیں پالنے کا بزنس شروع کیا لیکن کامیابی نہ مل سکی۔
پھر وہ سیاست کرنے لگا اور آسٹریلوی پارلیمنٹ کا رکن بن گیا لیکن معاشی طور پر قلاش اور کئی مسلسل بحرانوں کا شکار رہا۔ اُس پر الزام لگائے گئے کہ مالی مفادات کے لیے وہ اپنے شہرت یافتہ والد کا نام بہت استعمال کرتا ہے۔ ایڈورڈ نے ایک بار اپنے ایک مضمون میں یوں لکھا:بڑے اور مشہور باپوں کے بیٹے عمومی طور پر بڑے نہیں ہوتے۔ ایک ہی پیڑھی (Generation) میں آپ دو عظیم چارلس ڈکنز پیدا نہیں کر سکتے۔"
کہا جاتا ہے کہ فرانس نے آج تک ایک ہی بڑا اور بے بدل ادیب پیدا کیا ہے اور اُس کا نام تھا: وِکٹر ہیوگو!! اُس کے شاہکار ناولThe Hunchback of Notre Dameنے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ اس کی بنیاد پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔ دُنیا کی کئی زبانوں میں اس ناول کے تراجم کیے جا چکے ہیں۔ وکٹر ہیوگو بہت دلیر، منہ پھٹ، سچااور سرکش ادیب تھا۔ اُس کے انھی اوصاف کی اساس پر ساری عمر اُسے حکمرانوں اور حکومتوں کے لاتعداد عذاب اور عتاب سہنا پڑے۔ وہ برسہا برس تک جلاوطن کیا گیا۔ اُس نے آزمائشوں بھری زندگی گزاری۔ اُس کی معذب اور معتوب زندگی کے سیاہ سائے اُس کی آل اولاد پر بھی پڑے اور انھیں نگل گئے۔ وکٹرہیوگو کی دو صاحبزادیاں تھیں۔ بڑی بیٹی (لیو پولڈین)سمندر میں ڈوب کر موت کے منہ میں چلی گئی۔
دوسری بیٹی ایڈلی (Adele) نفسیاتی مریضہ بن گئی کیونکہ وکٹر ہیوگو بیٹی پر بہت سختی کرنے لگے تھے۔ جب نپولین سوم نے وکٹر ہیوگو کو ایک انتہائی غلیظ جزیرے میں جلاوطن کیا تو ایڈلی کے نفسیاتی عوارض بڑھ گئے لیکن فرانسیسی بادشاہ کے حکم کے مطابق وکٹر ہیوگو اپنی بیٹی سے مل بھی نہیں سکتا تھا۔ اِنہی ایام میں ایڈلی کو ایک غیر فرانسیسی نوجوان سے محبت ہو گئی۔
اُسے پانے کے لیے ایڈلی گھر سے بھاگ گئی لیکن بدقسمت ایڈلی سے اُس نوجوان نے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ ایڈلی پاگل ہو گئی تھی۔ دُور دراز کے تاریک جزیرے میں بے کسی سے جلاطنی کے دھکے کھانے والا وکٹر ہیوگو اپنی اکلوتی اور معذور بیٹی کی کوئی مدد نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ ایڈلی موت کا لقمہ بن گئی۔ جب بیٹی کو اپنے والد کی شفقت، محبت اور سرپرستی درکار تھی، باپ آمر حکمرانوں کے مظالم اور تشدد بھوگ رہا تھا۔ یہ کہانی بڑی ہی دلگداز اور دلدوز ہے۔ وکٹر ہیوگو کو اپنی سچی تحریروں کے کارن بے پناہ حکومتی مصائب جھیلنا پڑے۔ زیادہ المناک بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مصائب و مظالم نے فرانس کے اس عظیم الشان ادیب کے بچوں کی زندگی بھی جہنم بنا دی تھی۔
(جاری ہے)