Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Nawaz Sharif, Dilip Kumar Aur Pak Bharat Taluqat

Nawaz Sharif, Dilip Kumar Aur Pak Bharat Taluqat

دو روز قبل محمد یوسف خان المعروف دلیپ کمار 98سال کی عمر میں ممبئی کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے۔ پشاور کی مٹّی ممبئی کی خاک میں مل گئی۔ دلیپ کمار گزشتہ کچھ برسوں سے بیمار چلے آرہے تھے۔ کئی بار نازک صورتحال میں اسپتال داخل ہُوئے لیکن پھر شفایاب ہو کر گھر آ گئے۔

اِس باراسپتال یوں داخل ہُوئے کہ 7جولائی2021 کو وہ اگلے جہان میں داخل ہو گئے۔ اُن کی موت کی خبر پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ دُنیا بھر میں ایک بڑی خبر کی حیثیت میں سُنی اور دیکھی گئی۔ ممبئی کا نگار خانہ چند دنوں کے لیے سوگوار ہو گیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کی ممتاز ترین سیاسی، مقتدر اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے دلیپ کمار ایسے اساطیری کردار کی رحلت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وہ ممتاز ترین مسلمان اداکار تھے لیکن غیر مسلم بھی اُن کی موت پر یکساں رنج کا اظہار کررہے ہیں۔

دلیپ کمار صاحب مشترکہ طور پر پاکستان اور بھارتی عوام کی یکساں پسندیدہ اور محبوب شخصیت تھے۔ وہ پاکستان بھی دَوروں پر آتے رہے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے رہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر اُن کا سواگت کیا گیا۔ بھارت کی طرح وہ پاکستان میں ہر جگہ جانے پہچانے اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ انھیں یہاں ہمیشہ اپنا سمجھا گیا۔

وہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی اپنا مقدور بھر کردار ادا کرنے کی سعی کرتے رہے۔ ہمارے معروف سیاستدان اور سابق وزیر خارجہ جناب خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب Neither a Hawk nor a Doveلکھی تو پاکستان کے بعد وہ بھارت میں بھی اس کی لانچنگ کے لیے گئے۔ اس کتاب کی تقریبِ رُونمائی نئی دہلی کے بعد ممبئی میں بھی ہُوئی جہاں شدت پسند ہندو مذہبی جماعت "شِوسینا" کے وابستگان نے قصوری صاحب کے خلاف سخت احتجاج بھی کیا تھا اور قصوری صاحب کی کتاب کی تقریبِ رُونمائی کے منتظم اور مہتمم، سرندر کلکرنی، کے منہ پر سیاہی بھی مَل دی گئی تھی۔ تقریب اس کے باوجود منعقد ہُوئی۔

دوسرے روز خورشید محمود قصوری صاحب ممبئی میں مقیم دلیپ کمار صاحب کے پاس پہنچے تاکہ اپنی کتاب انھیں پیش کر سکیں۔ دلیپ صاحب بیمار تھے لیکن اُن کی اہلیہ محترمہ سائرہ بانو، نے اپنے گھر میں قصوری صاحب کو بھرپور انداز میں خوش آمدید کہا۔ قصوری صاحب کا کہنا ہے کہ جب مَیں کتاب پیش کر چکا تو سائرہ بانو صاحبہ نے انکشاف کیا کہ دلیپ صاحب بھارتی حکومت کے ایما پر دوبار پاکستان کا خفیہ دَورہ کر چکے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں دُور کی جاسکیں اور دُوریاں قربتوں میں بدلی جا سکیں۔

اس مہم کے لیے بھارتی حکومت نے انھیں اپنا طیارہ دیا تھا جس میں دونوں بار دلیپ صاحب کے ساتھ چند اعلیٰ بھارتی سرکاری حکام بھی شامل تھے۔ دلیپ صاحب کا پہلا خفیہ دَورہ جنرل ضیاء الحق کے دَورِ حکومت میں ہُوا تھاجب کہ وہ دوسری بار اُس وقت بھارت کی جانب سے پاکستان بھیجے گئے جب میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان تھے۔

دلیپ کمار صاحب، جنھیں پاکستان کا سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ بھی دیا گیا، ان کی پاکستان کے سیاسی معاملات میں دلچسپی اور دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے حوالے سے خورشید محمود قصوری صاحب ایک اور واقعہ سناتے ہیں۔ قصوری صاحب اپنی مذکورہ بالا کتاب کی لانچنگ کے حوالے سے ابھی بھارت ہی میں تھے کہ انھوں نے بتایا:" 1999 میں کارگل جنگ کے ابتدائی دنوں میں ایک روز وزیر اعظم نواز شریف بذریعہ فون اپنے بھارتی ہم منصب، وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، سے گفتگو کررہے تھے۔

اس موقعے پر واجپائی صاحب کے ساتھ دلیپ کمار بھی بیٹھے تھے اور یہ گفتگو سُن رہے تھے۔ اچانک واجپائی نے فون دلیپ کمار کو تھما دیا۔" قصوری صاحب بھارتی ٹی ویNDTVکو بتا رہے تھے:" نواز شریف کو یقین نہیں آرہا تھا کہ دوسری طرف اُن کے فلمی ہیرو دلیپ کمارہی بول رہے ہیں۔

دلیپ صاحب نے مگر جناب نواز شریف کو یقین دلایا کہ مَیں دلیپ کمار ہی بول رہا ہُوں۔ اس کے بعد دلیپ صاحب نے نواز شریف صاحب سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور کارگل بحران کو جلد حل کرنے کی کوشش کریں۔ اُن کی یہ کوششیں سرحد کے آر پار بسنے والی دونوں قوموں کے لیے مفید اور ثمر آور ہوں گی۔" جناب خورشید محمود قصوری نے یہ انکشاف 7اکتوبر 2015 کو کیا تھا۔ ممکن ہے دلیپ کمار صاحب کے حوالے سے گفتگو درست ہی ہو لیکن میاں محمد نواز شریف یا اُن کے کسی ساتھی کی طرف سے اس بیانیے کی تردید یا تصدیق سامنے نہ آ سکی۔

محمد یوسف خان المعروف دلیپ کمار صاحب نے اپنی ساری زندگی بھارت میں گزاری۔ ایک عظیم اور بے مثل فنکار کی حیثیت میں اُن کی زندگی غیر متنازع رہی۔ سب اُن کا اکرام کرتے اور اُن پر محبت کے پھول نچھاور کرتے۔ ویسے تو دلیپ صاحب کو کئی اعلیٰ ایوارڈوں سے زندگی بھر نوازا گیا کہ وہ اس کے اہل بھی تھے لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے انھیں "پدما بھوشن ایوارڈ" دیا جانا ایک نمایاں ترین اقدام تھا۔

دسمبر2015کے پہلے ہفتے نریندر مودی کی حکومت نے دلیپ صاحب کو یہ عظیم ایوارڈ دیا تو سہی لیکن مینگیناں ڈال کر۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک طرف بی جے پی کی بنیاد پرست حکومت کی جانب سے دلیپ کمار کو "پدما بھوشن " دیا جارہا تھا اور دوسری طرف بی جے پی کے چند گماشتوں کی جانب سے دلیپ صاحب کے خلاف مہم جوئی بھی کی گئی۔

مثال کے طور پر: اُنہی ایام میں مہاراشٹر کے ایک وزیر، رام داس کڈم، نے دریدہ دہنی کرتے ہُوئے دلیپ کمار کو "سانپ" اور " پاکستانی ایجنٹ" قرار دیا۔ ایسے ہی دل آزار الفاظ ہندو مہاسبھا کے صدر، کملیش تیواری، نے بھی دلیپ کمار کے لیے کہے۔

بھارت میں ان دل شکن الفاظ کا سخت نوٹس لیا گیا۔ دُنیا بھر میں دلیپ کمار کے چاہنے والوں نے ان الفاظ پر بی جے پی حکومت اور مودی کی مذمت کی۔ سب نے یہی ایک بات کہی کہ مودی کے متعصبانہ دَورِ اقتدار میں ہر قسم کی رواداری جاتی رہی ہے۔

ان کو دلیپ کمار ایسے بزرگ، لیجنڈ اور محترم ترین شخص کی بھی کوئی پروا نہیں ہے؟ کیا کوئی جماعت مسلم دشمنی میں اس قدر بھی اندھی ہو سکتی ہے؟ اور جب کملیش تیواری اوررام داس کڈم اور اُن کے ہمنواؤں کی مذمت میں مہم کا دائرہ وسعت اختیار کر گیا تو انھی ایام میں وزیر اعظم نریندرمودی کی حکومت نے دلیپ کمار کی خدمت میں "پدما بھوشن" ایوارڈ پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ شاید تالیفِ قلب کی ایک کوشش کے طور پر۔ مودی حکومت اور بی جے پی کے متعصب وابستگان کی بد نیتی مگر سب پر عیاں تھیں ؛ چنانچہ ممتاز بھارتی اخبار "ڈیلی ٹیلی گراف" نے واضح الفاظ میں لکھا: " مودی حکومت نے دلیپ کمار کو یہ ایوارڈ دل سے نہیں دیا۔ یہ ایوارڈ اس لیے بھی دیا گیا ہے تاکہ عالمی سطح پر بی جے پی حکومت کا مسخ ہوتا ہُوا چہرہ بچایا جا سکے۔"

اُس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ، راجناتھ سنگھ، نے خصوصی طور پر خود دلیپ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ ایوارڈ یہ کہتے ہُوئے پیش کیا تھا:" وزیر اعظم مودی جی نے مجھے خود خصوصی ہدایات دی ہیں کہ یہ ایوارڈ مَیں خود دلیپ جی کے پاس حاضر ہو کر پیش کروں۔" دلیپ صاحب نے بڑے وقار کے ساتھ یہ ایوارڈ قبول کیا مگر صرف یہ الفاظ ادا کیے: "یہ محض اللہ کی مہربانی اور احسان ہے۔"