Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Nokar Shahi Se Siasat Tak, Aik Hoshruba Daastaan

Nokar Shahi Se Siasat Tak, Aik Hoshruba Daastaan

دو بار سابق وفاقی وزیر رہنے والے جناب انور سیف اللہ خان کی یہ تازہ ترین کتاب "مَیں اور میرا پاکستان: نوکر شاہی سے سیاست تک" کئی معنوں میں ایک چشم کشا تصنیف ہے۔ یہ دراصل اُن کی سیاسی سرگزشتِ حیات ہے۔ سیاست، صحافت اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والوں کو تو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔

مصنف کو جنرل پرویزمشرف کے دَورِ اقتدار میں ایک سال پانچ ماہ تک جیل میں قید رکھا گیا۔ اُن پر جو الزامات لگائے گئے، مصنف کا دعویٰ ہے کہ وہ سب میری کردار کشی کے مترادف تھے اور یہ کہ دورانِ حراست مجھے کئی بار پیشکش کی گئی کہ کوئی باہمی لین دین ہو جائے تو میری جان چھوٹ سکتی ہے۔ مصنف مگر اس ڈھب پر نہ آئے اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اگرچہ اس ضد پر اُن کی والدہ محترمہ (بیگم کلثوم سیف اللہ خان) اُن سے ناراض ہی رہیں۔

اُن کا دعویٰ ہے کہ " مجھے کہا گیا کہ مَیں اپنے مقدمات میں آصف علی زرداری یا بے نظیر بھٹو صاحبہ میں سے کسی ایک کا نام لے کر انھیں مقدمات میں ملوث کر دوں تو میری رہائی فوری طور پر عمل میں آجائے گی۔"وہ کہتے ہیں کہ" تحریکِ پاکستان میں شاندار کردار ادا کرنے پر خود قائدِ اعظم ؒ نے میرے والد صاحب کو گولڈ میڈل سے نوازا تھا۔"لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان سے بھی میرے والد صاحب کے نہایت اچھے تعلقات تھے اور میرے خاندان کے کئی قریبی افراد سے نواب آف کالا باغ امیر محمد خان اور ذوالفقار علی بھٹو سے بھی گاڑھی چھنتی تھی۔

وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بیگم نصرت بھٹو بھیس بدل کر پشاور میں ہمارے گھر آجایا کرتی تھیں۔ یہ بات جنرل ضیاء کے ایک گورنرکو ناگوار گزرتی تھی ؛ چنانچہ اسی کی پاداش میں میری والدہ کو سخت جیل کی سزا بھی دی گئی۔

انور سیف اللہ خان اپنی کتاب میں یہ ہوشربا کہانی بھی لکھتے ہیں کہ " مَیں یہ انکشاف کررہا ہُوں کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بنی گالہ اسلام آباد میں واقع مکان گرانے کا حتمی فیصلہ اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کیا تھا۔" یہ بھی لکھتے اور واقعاتی شہادتیں دیتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اختلافات اس قدر وسیع نہیں کرنے چاہئیں تھے کہ یہ ذاتی دشمنی کا رُوپ اختیار کر جائیں۔

لکھتے ہیں: "میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میاں نواز شریف غیر ضروری طور پر غلام اسحق خان کے تجربے، بزرگی اور دیانتداری سے خوفزدہ تھے۔" مصنف انکشاف کرتے ہیں کہ "میرے دَورِ وزارت میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ آگے بڑھا۔ امریکا اس منصوبے سے ناراض تھا۔ یہ بھی لکھتے ہیں کہ مَیں اپنی معتبر معلومات کی بنیاد پر انکشاف کر سکتا ہُوں کہ صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو حکومت کا خاتمہ کیا تو یہ اُن کا ذاتی فیصلہ نہیں تھابلکہ یہ فیصلہ کروانے میں کسی اور نے انھیں مجبور کیا تھا۔ زیر نظر کتاب کے مصنف ایک ایسے شخص کا نام لے کر یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں جس نے کہا تھا کہ اگر بابا (صدر غلام اسحق خان) اجازت دیں تو مَیں وزیر اعظم نواز شریف سے ایک منٹ میں استعفیٰ لے سکتا ہُوں۔ انور سیف اللہ خان لکھتے ہیں کہ مشرف دَور میں جیل میں اُن کے ساتھیوں میں سے ایک (نواز شریف کے بڑے صاحبزادے) حسین نواز شریف بھی تھے۔ وہ بڑی دلکش آواز میں صوفیانہ کلام گاکر ڈپریشن دُور کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

زیر نظر کتاب کے مصنف (انور سیف اللہ خان)پاکستان کے وفاقی وزیر کی حیثیت میں، جدید سنگا پور کے بانی لی کوان یو(Lee Kuan Yew) سے بھی ملے۔ لی کوان یو نے اپنے عرصہ اقتدار میں ملک میں کرپشن کا خاتمہ کرڈالا اور سنگا پور کو دُنیا کے متمول اور پُر امن ممالک کی فہرست میں شامل کردیا۔ لی کوان یو نے جب اپنی بیگم کے ساتھ پاکستان کا سرکاری دَورہ کیا تو انور سیف اللہ خان ہی اُن کے وزیر مہمانداری مقرر کیے گئے۔

انھوں نے لی کوان یو کو اپنے گھر میں بھی کھانے پر مدعو کیا۔ انور سیف اللہ خان لکھتے ہیں:" مجھے یاد ہے ایک دن مَیں نے اپنے معزز مہمان جناب لی کوان یو سے دریافت کیا: "جناب، آپ نے اپنے ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیسے کیا؟ میرا سوال سُن کر وہ کچھ سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہنے لگے:مَیں نے کرپشن کو ختم کرنے کا ارادہ کیا تو مَیں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مارکیٹ میں جا کر یہ معلومات حاصل کی جائیں کہ مختلف تجارتی و کاروباری اداروں کے سرکردہ افراد یعنی اُن کے ایگزیکٹو کے شعبے کے لوگ کیا تنخواہ لیتے ہیں؟ یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد مَیں نے اپنی کابینہ کے ارکان کو بلا کر کہا کہ آج سے آپ لوگوں کی تنخواہیں مذکورہ افراد کے برابر ہوں گی۔ مَیں نے یہی فارمولا بیوروکریٹس اور دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے سلسلے میں بھی اختیار کیا۔

دراصل کرپشن کی اصل جڑ یہ ہے کہ نجی اور سرکاری شعبے کے بااختیار افراد کی تنخواہوں میں فرق اور امتیاز موجود ہوتا ہے یعنی نجی شعبے کے افراد کی تنخواہیں سرکاری شعبے کے ملازمین سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں اور اسی باعث کرپشن کا رجحان ایک کینسر کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے۔ جب مَیں نے یہ فرق ختم کر دیا تو کرپشن خود بخود ختم ہو گئی۔" کئی سال قبل لی کوان یو نے متحدہ ہندوستان کے متعدد شہروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس ناتے سے وہ پاکستان اور بھارت کے مسائل سے بھی آگاہ تھے ؛ چنانچہ انھوں نے انور سیف اللہ خان سے کہا:" پاکستان کے عوام بڑے محنتی اور محبِ وطن ہیں۔ وہ دُنیا بھر میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو قائد اعظم محمد علی جناح اور اُن کے قریبی رفقا کے بعد ایسی قیادت میسر نہیں آئی جو پاکستانی عوام کی خوبیوں کو بروئے کار لا سکتی۔"

انور سیف اللہ خان صاحب اپنی معلومات کی بنیاد پر اس کتاب میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ1990 میں جب زمبابوے میں متعین پاکستانی سفیر، رفعت مہدی، نے نیلسن منڈیلا سے پاکستان تشرف لانے کی درخواست کی تو نیلسن منڈیلا نے کہا: " پاکستان ضرور آؤں گا مگر شرط یہ ہے کہ ہوائی جہاز میں فرسٹ کلاس کے بجائے اکانومی کلاس میں سفر کروں گا اور دوسرا یہ کہ اپنے دَورے کا آغاز اسلام آباد سے نہیں بلکہ کراچی پہنچ کر قائد اعظم ؒ کے مزار پر حاضری سے کروں گا۔"

مصنف جہاں ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ مولانا سید مودودیؒ کی تفسیر "تفہیم القرآن"سے بے حد متاثر ہیں، وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ "مَیں جماعتِ اسلامی کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتا۔ مولانا مودودیؒ نے جماعتِ اسلامی کو بہت کچھ دیا لیکن جماعتِ اسلامی نے مولانا مودودیؒ کو کچھ نہیں دیا۔"لاریب یہ کتاب ہمارے سیاسی لٹریچر میں ایک اچھااضافہ ہے۔