Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Note, Vote Aur Senate Intikhabat

Note, Vote Aur Senate Intikhabat

ایوانِ بالا کے انتخابات اور26مارچ 2021 کو پی ڈی ایم کا اسلام آباد کی طرف مبینہ اور اعلان کردہ لانگ مارچ حکومت کے اعصاب پر بُری طر ح سوار ہے۔ چھبیس مارچ کے حوالے سے پی ڈی ایم کے سربراہ، حضرت مولانا فضل الرحمن، کے تازہ ترین ارشادات میں مصمم اور مستحکم ارادے پوری طرح جھلک رہے ہیں۔

9فروری کو حیدر آباد کے جلسے میں مولانا کی تقریر میں بڑے اشارے دیے گئے ہیں۔ وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی، فواد حسین چوہدری، سے منسوب ایک بیان مگر یہ آیا ہے کہ 26مارچ سے پہلے پہلے ہم مذاکرات کے ذریعے اس مارچ کو روک دیں گے۔

مارچ رُک جائے تو حکومت کے کندھوں سے ایک بڑابوجھ یقیناً اُتر جائے گا لیکن لگتا یہی ہے کہ مولانا صاحب رُکیں گے نہیں کہ حکومت اور حکومت کے "دوستوں " بارے اُن کی تلخیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے اور پی ڈی ایم کو کامیاب کرانے کے لیے مولانا صاحب کا جوش قابلِ دید ہے۔

وہ سینیٹ میں اپنے حریفوں کی اکثریت نہیں دیکھنا چاہتے۔ اور جناب عمران خان کی حکومت ہے کہ سینیٹ کے انتخابات ہر صورت میں جیتنا چاہتے ہیں۔ پورے ملک میں انھی انتخابات کا شور سنائی دے رہا ہے۔ سیاست کے ایوانوں سے لے کر عدلیہ کے ایوانوں تک اِسی کا غلغلہ ہے۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب جتنی توجہ سینیٹ کے انتخابات کی طرف مبذول کیے ہُوئے ہیں، اِس توجہ کا اگر عشر عشیر بھی انھوں نے پچھلے ڈھائی برسوں کے دوران غریب عوام کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے صَرف کیا ہوتا تو عوام بہت سے درد ناک عذابوں سے نجات پا سکتے تھے۔

10فروری کو اسلام آباد میں کمر توڑ مہنگائی کے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے سرکاری ملازمین کے احتجاجی جلوس پر حکومت نے جو بے پناہ تشدد کیا ہے، اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وزیر اعظم کی تنخواہ میں لاکھوں روپے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے اور پچھلے ڈھائی برسوں میں اگر ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں دو بار اضافہ ہو سکتا ہے تو سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کیوں نہیں بڑھ سکتیں؟ لندن میں فروکش نواز شریف نے بھی سرکاری ملازمین کے احتجاج کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے جانباز بھی سرکاری ملازمین کے احتجاج کے حمایتی ہیں۔

شور برپا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے کچھ لوگوں نے منڈیاں سجا لی ہیں۔ خان صاحب بھی تسلیم کررہے ہیں کہ سینیٹ میں پہنچنے کے لیے پیسہ لگنے کی بازگشت ہے۔ حکومت کے ایک وزیر، اسد عمر، بھی سینیٹ انتخابات کے لیے سجائی گئی مبینہ منڈیوں کا اعتراف کررہے ہیں۔

گزشتہ روز انھوں نے وفاقی وزیر اطلاعات کی موجودگی میں اِسی حوالے سے یوں کہا: " ابھی سے سینیٹ کی نشست کے لیے ریٹ لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ ماضی میں بھی ممبر اپنا ضمیر بیچتے تھے اور پیسہ اکٹھا کرتے تھے۔ لوگ غلط پیسہ بنا کر سینیٹ کی نشست خریدتے ہیں۔ کمائی کا ایک ذریعہ سینیٹ کے انتخابات ہیں۔"

وفاقی وزیر نے ایک گھناؤنے کھیل کی طرف کھل کر اشارہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ اور وزیر اعظم عمران خان اس سیاہ دھندے کا خاتمہ کرنے کے درپے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اب کی بار ایوانِ بالا کے انتخابات میں شفافیت کا بول بالا رہے۔ کوئی شخص یا سیاسی پارٹی نوٹوں کے ذریعے ووٹ نہ خرید سکے۔ یہ آرزُو مستحسن ہے۔

لیکن پی ڈی ایم کی شکل میں بھاری بھر کم متحدہ اپوزیشن یہ کہتی سنائی دے رہی ہے کہ خان صاحب کی شفافیت سے محبت اُس وقت کہاں چلی گئی تھی جب پچھلی بار سینیٹ کے چیئرمین کے لیے ووٹ پڑے تھے؟ اور اب وزیر اعظم ارشاد فرما رہے ہیں کہ "اس وقت بلوچستان میں ایک سینیٹر بننے کا ریٹ 50سے 70کروڑ روپے تک جا رہا ہے۔" خان صاحب نے بلوچستان کا ذکر تو کر دیا ہے لیکن باقی صوبوں کا ذکر گول کر گئے ہیں۔

جناب عمران خان اگر ایوانِ بالا کے انتخابات میں شفافیت قائم کرنا چاہ رہے ہیں تو اس اقدام کی تعریف کی جانی چاہیے۔ اُن کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ پچھلی بار سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کے جن ارکان نے نوٹ لے کر ووٹ دیے تھے، انھیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ ان کی تعداد مبینہ طور پر 20بتائی گئی تھی۔

رازدانوں کا مگر کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں مبینہ "ہارس ٹریڈنگ" کرنے والوں کو پارٹی اور اقتدار سے نہیں نکالا گیا تھا۔ بظاہر تادیبی کارروائی کے باوجود کئی ارکان صاف بچ گئے تھے۔ اُن کے چھپے چہرے اب ایک مبینہ ویڈیو میں برہنہ کر دیے گئے ہیں۔ ایک چہرہ خیبر پختونخواکے وزیر قانون (سلطان خان) کا بھی تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ صاحب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت میں وزارتِ قانون کا قلمدان کیسے سنبھالے رہے؟

سچی بات تو یہ ہے کہ مبینہ ویڈیو بھی مشکوک۔ خاص طور پر ویڈیو کا سینیٹ کے انتخابات سے قبل ریلیز کیا جانا۔ ویڈیو میں بعض سیاسی جماعتوں کے کئی خواتین و حضرات کے چہرے بے نقاب ہُوئے ہیں۔ انھیں سزا دینا ابھی باقی ہے۔ سینیٹ انتخابات میں کروڑوں روپے کی دیہاڑیاں لگانے والوں کا سدِ باب از بس ضروری ہے۔

لوگوں کے منہ بند نہیں کیے جا سکتے۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ارکانِ اسمبلی کوفی کس کروڑوں روپے کے " ترقیاتی فنڈز" دینے کے اعلان کو کیا نام دیا جائے؟ اس سوال کے باوصف وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ سینیٹ انتخابات میں جدید کرپشن کا انسداد کر کے رہیں گے۔ اس خواہش میں رنگ بھرنے کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ ایوانِ بالا کے انتخابات اوپن بیلٹ سے کروائے جائیں۔ اس سلسلے میں صدرِ پاکستان آرڈیننس بھی جاری کر چکے ہیں۔ یہی کیس عدالتِ عظمیٰ کے رُو برو بھی ہے۔

وہاں سے ملے جلے اشارے آ رہے ہیں۔ حکومت اور اس کے لاتعداد ترجمان بھی یہی متفقہ بیان دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ، سینیٹ انتخابات سے متعلق جو فیصلہ بھی کرے گی، ہمیں قبول ہوگا۔ اب سب نظریں عدالتِ عظمیٰ پر لگی ہیں۔ اب گیند عدالتِ عظمیٰ کی کورٹ میں ہے۔ دیکھتے ہیں وہاں سے کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ لیکن اپوزیشن یک زبان ہو کر اوپن بیلٹ کی مخالفت کرتی نظر آ رہی ہے۔

مثال کے طور پر نون لیگ کے سیکریٹری جنرل، احسن اقبال، بلند آواز سے بار بار کہہ رہے ہیں: "اوپن بیلٹ سے عمران خان اپنے اووَرسیز دوستوں کو سینیٹ میں لانے کی "سازش" کررہے ہیں۔"لفظِ سازش خاصا بدنام بھی ہے اور سنگین بھی۔ اگر عمران خان کی یہ خواہش "سازش" ہے تو پو چھا جا سکتا ہے کہ نون لیگ کے رہبرِ اعظم اور سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف نے اپنے 2 اووَرسیز دوستوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کا رکن کیوں بنایا تھا؟ یہ دونوں افراد نیویارک کے رہائشی تھے۔ نام کیا لینا؟ ان "خوش بختوں " کے نام سب جانتے ہیں۔