تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں قبل یہ بھی مارچ کا مہینہ تھا جب رومی سینیٹروں نے جولیس سیزر کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر اُسے عدم آباد کی طرف روانہ کیا تھا۔ اور یہ بھی مارچ ہی کا مہینہ ہے جب کسی نے پی ڈی ایم کی پُشت میں عدم یکجہتی کا خنجر پیوست کر دیا ہے۔
مارچ کا مہینہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے کئی خوشیاں لے کر طلوع ہُواہے۔ سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر حکومت کے امیدوار منتخب ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پر آسمان کی شفقتیں اور مہربانیاں بدستور جاری ہیں۔
ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی مجموعی شکست اور سینیٹ انتخابات میں حکومتی اُمیدوار (عبدالحفیظ شیخ) کی پی ڈی ایم کے اُمیدوار (سید یوسف رضا گیلانی) کے ہاتھوں ہزیمت سے تو یوں لگتا تھا جیسے خان صاحب کے ہاتھوں سے گیم نکلا ہی چاہتی ہے۔ اب حالات آناً فاناً کچھ ایسے بدلے ہیں کہ فتح کا میدان عمران خان کے ہی ہاتھ لگاہے۔
اُن کے جملہ سیاسی حریف چاروں شانے چت ہو چکے ہیں۔ بقول مولانا محمد حسین آزاد: میدان میں ستھراؤ پڑا ہے۔ حکومت کے درجن بھر متحدہ مخالفین المعروف پی ڈی ایم حکومت کو گرانے اور عمران خان سے استعفے لینے نکلے تھے لیکن اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی پی ڈی ایم ڈھیر ہو گئی ہے۔ نواز شریف پچھلے مقتدرہ ایام میں برسوں آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے بارے میں جو لائحہ عمل اپنائے رہے، لگتا ہے اب آصف زرداری نے ان سب باتوں کا بدلہ لے لیا ہے۔
زرداری صاحب نے ایک ہی بیان اور وار سے پی ڈی ایم کو انجام کے قریب پہنچا دیا ہے۔ اب لوگ چاہے اسے پیپلز پارٹی کی کسی سے کسی مبینہ ڈِیل سے موسوم کر یں، سچ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی صف لپیٹی جا چکی ہے۔ خاص طور پر حضرت مولانا فضل الرحمن کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کدھر جائیں؟ اُن کی تمام منصوبہ بندیاں منہ کے بَل گری پڑی ہیں۔ حیرت ہے دعویٰ پھر بھی یہ ہے کہ پی ڈی ایم Intactہے۔ 26مارچ کو پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کیا کرنا تھا، اب 26مارچ کو نیب نے مریم نواز کو پھر بلا لیا ہے۔ حکومت کی خوشیاں اور اطمینان دیدنی ہیں۔
دعویٰ تویہ تھا کہ26مارچ2021کو دس جماعتوں پر مشتمل پوری پی ڈی ایم پوری متحدہ طاقت سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے لیے نکلے گی۔ اب مگر ظاہر ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی لانگ مارچ میں پورا اور بھرپور حصہ لینے پر آمادہ نہیں ہے۔ آصف علی زرداری اور اُن کا جواں سال صاحبزادہ کوئی اور ہی "اسٹرٹیجی" اپنائے ہُوئے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری یہ کہتے ہُوئے سنائی دیے ہیں کہ " مَیں نے اپنی والدہ مرحومہ سے یہ سیکھا ہے کہ سسٹم کے اندر رہ کر اپنے سیاسی مخالفین سے نمٹا جائے ؛ چنانچہ حکومت اور عمران خان سے نجات حاصل کرنے کے لیے عدم اعتماد کی تحریک لانا ہماری اولین ترجیح ہے "۔ نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن مگر اس مبینہ اسٹرٹیجی پر عمل کرنے اور اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی "اسٹرٹیجی" سے حکومت کوئی ڈر محسوس نہیں کررہی؛ البتہ حکومت لانگ مارچ اور استعفوں سے خوفزدہ ہے۔
پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفے دینے پر تیار ہے نہ لانگ مارچ میں شریک ہونے پر راضی۔ یوں عوام کی نظروں میں پیپلز پارٹی کی یہ سوچ مشکوک اور مشتبہ ہو کر رہ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ایک صوبے میں اقتدار کی جو موجیں اور آسائشیں دستیاب ہیں، استعفے دے کر وہ ان نعمتوں سے دستکش ہونے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی قیادت کی یہ سوچ اور اسٹرٹیجی پی ڈی ایم کے اتحاد کے لیے واضح خطرہ بن چکی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کا وجود بھی، محض پیپلز پارٹی کی وجہ سے، بکھرنے کے قریب نظر آ رہا ہے۔ مبینہ طور پر اویس نورانی اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان جو لفظی تصادم ہُوا ہے، اس نے بھی پی ڈی ایم کے باطنی اتحاد کو عیاں کر دیا ہے۔ آصف علی زرداری نے نواز شریف کو پاکستان آکر حکومت کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرنے کا کہہ کر ساری گیم ہی اُلٹ دی ہے۔ مسٹر زرداری کے بیان پر محترمہ مریم نواز بھی سخت ناراض ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی نالاں۔ مولانا صاحب تو اتنے ناراض ہُوئے ہیں کہ پریس کانفرنس بھی آدھی ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔
لانگ مارچ کے راستے پر گامزن ہونے کی بات کرنا تو سہل ہے لیکن اس راہ میں آزمائشوں اور امتحانوں کے جو پہاڑ کھڑے ہیں، پی ڈی ایم اور خاص طور پر پیپلز پارٹی ان آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ التوا کے لیے کبھی کوئی بہانہ کبھی کوئی۔"لانگ مارچ" کا اصل تصور چینی کمیونسٹ انقلاب سے وابستہ ہے۔ کوئی 85سال قبل پُر عزم اور جواں ہمت چینیوں نے لانگ مارچ شروع کیا تھا۔ ایک طرف کمیونسٹوں کی قیادت کرنے والے ماؤزے تنگ تھے اور دوسری جانب قوم پرست مورچہ بند تھے۔
یہ لانگ مارچ دراصل استحصالیوں کے خلاف احتجاجی مارچ تھا۔ ماؤزے تنگ کی قیادت میں جب "لانگ مارچ" کا قافلہ روانہ ہُوا تو جی داروں اور اولولعزموں کے اس قافلے میں ایک لاکھ افراد شامل تھے۔ اور جب یہ قافلہ ایک ہزار کلومیٹر کا دشوار گزار اور حوصلہ شکن فاصلہ طے کرتا، 370دنوں کے بعد، اپنی منزلِ مقصود پر پہنچا تو ماؤزے تنگ کے ساتھ صرف آٹھ ہزار افراد رہ گئے تھے۔ یہ بچے کھچے لوگ مگر کامیاب و کامران تھے۔ جو بچ کر منزل پر پہنچے تھے، انھوں نے ہی جدید چین کی بنیادیں استوار کیں۔ اس لانگ مارچ نے ماؤزے تنگ کو چین کا رہبرِ انقلاب بنا دیا۔
اس پس منظر میں دیکھاجائے تو کہا جا سکتا ہے کہ لندن کے پُر سکون ماحول میں فروکش نواز شریف اور پاکستان کے عافیت کدوں میں بسنے والے آصف علی زرداری لانگ مارچ میں شرکت کنندگان کے لیے ہمت افزائی اور دلوں کو گرمانے کا باعث نہیں بن سکتے۔
یہ حقیقت بھی پیشِ نگاہ رکھنا لازم ہے کہ کمزور سے کمزور حکومت بھی اپوزیشن سے تگڑی ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس سرمائے کی بھی کمی نہیں ہوتی اور افرادی قوت بھی ہمہ وقت دستیاب رہتی ہے۔ قانون اور پروپیگنڈے کی لاٹھی گھمانے کے لیے بھی حکومت کے پاس زیادہ وسائل ہوتے ہیں۔ وہ ڈِیل کے نام پر اپنے حریفوں کو بہت کچھ پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
دباؤ اور دھمکیاں بھی بروئے کار لاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت سے نالاں اور ناراض عوام کا غصہ بے پناہ ہے، حکومتی اقدامات اور فیصلوں نے غریب عوام کا جینا تقریباً حرام کر رکھا ہے اور یوں لانگ مارچ کے لیے فضا بالکل ہموار تھی لیکن آصف زرداری نے عین موقعے پر حکومت کے خلاف میدان میں نہ نکلنے اور استعفے نہ دینے کا اعلان کرکے پانسہ ہی پلٹ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے پی ڈی ایم کی لُٹیا ڈبو دی ہے لیکن زرداری اور اُن کے ہمنوا یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پی ڈی ایم آناً فاناً جس انجام کو پہنچی ہے، یہ دیکھ کر ہمیں شکیل بدایونی کی وہ معروفِ عالم غزل یاد آ تی ہے جسے بیگم اختری بائی نے گا کر امر کر دیا ہے:اے محبت تِرے انجام پہ رونا آیا/ جانے کیوں آج تِرے نام پہ رونا آیا/کبھی تقدیر کا ماتم، کبھی دُنیا کا گلہ/ منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا۔