حکومت و عمران خان مخالف دس سیاسی جماعتوں کی یاری دوستی صرف سات ماہ چل سکی ہے۔ سات ماہ قبل جب ان جماعتوں نے "پی ڈی ایم" کے نام سے اپنے اتحاد کا ڈول ڈالا تھا تو اِس کے اجزائے ترکیبی پر نظر رکھنے والوں کا متفقہ خیال تھا کہ یہ بیل زیادہ دنوں تک منڈھے نہیں چڑھ سکے گی۔
ہر جماعت کا نظریاتی قبلہ مختلف تھا۔ سوچ الگ تھی۔ اہداف الگ تھے۔ پھر بھی توقع لگائی گئی کہ یہ اتحاد اپنے مشترکہ ہدف کے حصول تک قائم رہے گا۔ یہ توقع مگر عبث تھی۔ ایسا ہی ایک اتحاد 15 سال قبل لندن میں بھی "میثاقِ جمہوریت"نام سے طے پایا تھا۔ بڑا مقصد یہ تھا کہ جنرل صدر پرویز مشرف کو چلتا کرنا ہے۔ اس اتحاد پر خاصی واہ واہ ہُوئی تھی۔
نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹونے اِسے منزل تک پہنچانے کے لیے بڑے وعدے کیے تھے۔ وعدے مگر ایفا ہونے سے پہلے ہی یہ اتحاد اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ ماضی قریب میں ایک دوسرے کا جس طرح گریبان چاک کرتی رہی تھیں، اِس کے باوجود توقع لگالی گئی تھی کہ "سی او ڈی " نامی یہ اتحاد پروان چڑھے گا۔ سبھی توقعات خام ثابت ہُوئیں۔ 43 برس قبل بھی 9"ستاروں "کا ایک اتحاد (پی این اے) معرضِ عمل میں آیا تھا۔
مقصد صرف ایک ہی تھا: وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانا!! عوام الناس کے دل لبھانے کے لیے مگرملک میں نظامِ مصطفی کے نفاذ کا ایمان افروز نعرہ بھی لگایا گیا۔ بھٹو صاحب کو اقتدار سے اگرچہ نکال دیا گیا، وہ پھانسی پر بھی جھول گئے لیکن 9ستاروں کا یہ اتحاد عوام کے لیے دھوکا ہی ثابت ہُوا۔ اتحاد میں شامل کئی جماعتوں کو جنرل ضیاء الحق نے چند دنوں کے لیے چند وزارتوں کا لالی پاپ دیا اور پھر انھیں چلتا کر دیا۔ عوام گیارہ سال نظامِ مصطفی کے نفاذ کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔
اب "پی ڈی ایم" کے نام پر عوام سے پھر دھوکا ہُوا ہے۔ نجی مفادات کی جنگ نے اصولوں کو مات دی ڈالی ہے۔ عوام کو یہ کہنے کا بجا طور پر موقع ملا ہے کہ "پی ڈی ایم" میں شامل کچھ بڑی جماعتوں کے لیڈرز مبینہ کرپشن کے الزامات میں اس بُری طرح گھرے ہیں کہ احتساب کے خوف نے انھیں اپنے اعلان کردہ اہداف تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ ممکن ہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے "پی ڈی ایم" کے سات ماہی اتحاد سے، حکومت پر دباؤ ڈال کر، کچھ خفیہ مفادات حاصل کر لیے ہوں مگر مجموعی طور پر "پی ڈی ایم" کو اصولی شکستِ فاش ہُوئی ہے۔
عوام کاوہ بہت بڑا طبقہ جو خان صاحب کی حکومت سے شدید مایوس ہے، اُس نے "پی ڈی ایم" سے بلند توقعات وابستہ کر لی تھیں لیکن "پی ڈی ایم" کے اجزائے ترکیبی پر گہری نظر رکھنے والوں کو خوب خبر تھی کہ اِس اتحاد کے اندر افتراق و انتشار کے تمام عناصر موجود ہیں اور وہ جلد ہی اپنا رنگ دکھائیں گے۔ یہ رنگ دکھائی دیا بھی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے جس طنطنے سے پی ڈی ایم کی طرف سے بھیجے گئے شو کاز نوٹس کو برسرِ مجلس چاک کیا، اس نے اتحاد کی حقیقت اور اصلیت طشت از بام کر دی ہے ؛ چنانچہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے شائد بے جا بھی نہیں کہا ہے کہ " بلال بھٹو نے شو کازنوٹس نہیں بلکہ پی ڈی ایم کا گریبان پھاڑا ہے۔" اب پیپلز پارٹی بھی، اے این پی کی طرح، پی ڈی ایم سے کنارہ کش ہو چکی ہے۔
"پی ڈی ایم" میں شامل تقریباً ایک درجن جماعتوں پر گہری نگاہیں رکھنے والوں کو پہلے دن سے یقین تھا کہ پیپلز پارٹی و نون لیگ، پیپلز پارٹی و جے یو آئی ایف اور پیپلز پارٹی و اے این پی میں نظریاتی و فکری سطح کے جو شدید تضادات و اختلافات موجود ہیں، یہ عناصر اس اتحاد کو ڈَس لیں گے۔ اور ہُوا بھی ایسا ہی۔ یہ اتحاد اب بکھر چکا ہے۔ ٹوٹنے کا زیادہ صدمہ شائد مولانا فضل الرحمن کو ہُوا ہے جنھوں نے بڑی مشکل اور محنت سے اس اتحادکو جوڑا تھا۔ وہ تو عمران خان حکومت کے خلاف ابھی اپنے جماعتی لانگ مارچ کی ناکامی سے بھی سنبھلے نہیں تھے کہ ایک نئی ناکامی نے اُن کے اعصاب پر نیا بوجھ ڈال دیا ہے۔
"پی ڈی ایم" کے لخت لخت ہونے کا الزام مگر کسے دیا جائے؟ کیا نون لیگ کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیا جائے یا پیپلز پارٹی کے لالچ و لوبھ کو؟ جے یو آئی ایف کے عمران مخالف جذبات کو ذمے دار قرار دیا جائے یا قوم پرست جماعتوں کے نظریات کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے؟ یا پھر بلاول بھٹو اور مریم نواز کی سیاست کو؟ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں ایک دوسرے پر تہمتوں کا جو کیچڑ اُچھالا ہے، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں رہ گئی تھیں؟
میڈیا اور حکومتی پارٹی کے رہنماؤں کی طنزیہ باتیں سُن اور پڑھ کر"پی ڈی ایم" میں شامل "بڑے بڑے" لیڈرز یقیناً بُرا محسوس کرتے ہوں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس ہزیمت کے وہی ذمے دار ہیں۔"پی ڈی ایم " کی شکست و ریخت پر وزیر اعظم عمران خان کی مسرت بھی بجا ہے۔ اپنے سیاسی حریفوں کو بُری طرح خاک چاٹتے دیکھ کر کونسا حکمران خوش نہیں ہوتا؟ پی ڈی ایم کی باطنی خرابی (Built in Flaw) اِسے لے ڈوبی ہے۔
ایسے میں ہمیں پنجاب کے مشہور لوک فنکار، طفیل نیازی مرحوم، کا گایا مشہور لوک گیت یاد آتا ہے: " نی ملیا یار قہر وِچ بھریا اوئے /اَتے نیناں چڑھی خماری /کالے رُوپ تیار ڈنگن نُوں /اوہدے ہتھ وِچ حُسن کٹاری/ لائی بے قدراں نال یاری/ تے ٹُٹ گئی تڑک کرکے "۔ طفیل نیازی اگرچہ نیازی نہیں تھے لیکن انھیں "نیازی" کا لقب پی ٹی وی کے پہلے ایم ڈی اسلم اظہر نے اس لیے دیا تھا کہ طفیل نیازی کے مرشدکا اسمِ گرامی نیاز علی شاہ تھا۔ سچ یہ ہے کہ "پی ڈی ایم" کے "تڑک" کر کے ٹوٹنے کی آواز ہر جگہ سُنی گئی ہے۔