اُف توبہ!خدا خدا کرکے سینیٹ کے انتخابات اپنے اختتام کو پہنچے ہیں۔ موسمِ بہار کے یہ اولین ایام ہمارے سیاسی موسم میں بھی بدلاؤ کا سندیسہ لے کر آئے ہیں۔ ایوانِ بالا کے انتخابات میں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے پاکستان بھر کے شہریوں کی جان پر بنی ہُوئی ہے۔ نجی ٹی ویوں کے ٹاک شوز اور سوشل میڈیا کے جملہ پروگرام محض اِسی ایک موضوع کے ارد گرد گھوم رہے تھے۔
قیاسوں اور قیافوں کے گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے۔ ایک بات مگر کہنا پڑے گی کہ سارے سینیٹ کی سیٹیں ایک طرف اور صرف اسلام آباد کی ایک سیٹ ایک برابر ہو گئی تھی اور اسلام آباد کی بھی وہ جنرل سیٹ جس پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور حاضرو موجود وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ آمنے سامنے کھڑے تھے۔ دونوں کے حامی اور مخالف اپنے اپنے اُمیدوار کی کامیابی کے لیے دعا گو بھی تھے اور اپنے اپنے اسلوب میں اپنے "بندے"کے محاسن بھی بیان کررہے تھے۔ 3مارچ سے دو دن قبل اسلام آباد میں یہ ہوا بن چکی تھی کہ اب سب ہوائیں حفیظ شیخ کے حق میں بہہ رہی ہیں اور یہ کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔
دلیل اس کے لیے یہ بھی دی جا رہی تھی کہ حفیظ شیخ کو ہرانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا جو قرضہ ملنے والا ہے، وہ بھی رک جائے گا۔ اور پاکستان خسارے کا یہ سودا برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ منطق خوب تھی اور اسے خوب پھیلایا بھی گیا۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ جناب عمران خان کے "دوستوں " نے انھیں حوصلہ بھی دیا ہے اور تھپکی بھی۔ یوں عمران خان حوصلہ ہارتے ہارتے پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ خود بھی فتح کے حصول کے لیے اپنے چیمبر میں ڈیرے جماکر اپنے ساتھیوں کا اعتماد حاصل کرنے کی بھرپور سعی کررہے تھے۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ اپنے سب سے بڑے اُمیدوار (حفیظ شیخ) کی کامیابی کے لیے خان صاحب نے دن رات ایک کر دیا۔ بات مگر بنی نہیں۔ نتیجہ ملتان کے گدی نشین کے حق میں نکلا ہے اور سارے پاکستان کو حیران کر گیا ہے۔ پی ٹی آئی اور خان صاحب سکتے میں ہیں۔
دیکھا جائے تو اسلام آباد سے سینیٹ کے تازہ انتخابات میں بظاہر حکومت کا اُمیدوار، سیاسی اعتبار سے، متحدہ اپوزیشن کے اُمیدوار کے مقابلے میں کمزور تھا۔ حفیظ شیخ کاپاکستان بھر میں کوئی انتخابی حلقہ ہے نہ کوئی اُن کی معروف سیاسی پارٹی۔ وہ تو ایک ٹیکنو کریٹ ہیں۔ پاکستان میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، اگر اُن کی خدمات حاصل کرنے کے لیے انھیں دعوت دی جائے تو انھوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کو اُن سے ویسے بھی ایک پرانا حساب چکانا تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں حفیظ شیخ کی مالی پالیسیوں سے اہلِ پاکستان کو سکون اور سکھ نہیں ملا ہے۔
ہر کوئی اُن کی وضع کردہ معاشی پالیسیوں کے کارن، ایک پنجابی محاورے کے مطابق، "نکو نک " پڑا ہُوا ہے۔ یہ الزام بھی تواتر سے لگایا گیا کہ وہ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے پاکستان میں نمایندہ ہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اُن کی معاشی پالیسیوں کی اساس پر وہ شکست کھا گئے ہیں تو یہ کہنا بے جا ہوگا۔ پاکستان کا طبقہ اشرافیہ ہی انھیں سینیٹ کے میدان میں لایا اور اشرافیہ طبقے ہی نے انھیں شکست سے دوچار کیا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ایک پُر اسرار "سائنس" نے عبدالحفیظ شیخ کو جیتنے نہیں دیا ہے۔ اور یہ "سائنس" ایسی ہے جسے سمجھنا ہما شما کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس "سائنس" کے پیچیدہ اور دقیق فارمولوں کو اگر کسی نے حالیہ ایام میں بھرپور انداز میں سمجھا ہے تو وہ فقط جناب آصف علی زرداری ہیں۔ آصف زرداری صاحب کی جادوگری کے سبھی قائل ہو گئے ہیں۔
سینیٹ انتخابات میں ساری نظریں اِنہی دو بڑے اُمیدواروں پر بوجوہ مرتکز تھیں۔ دونوں کو فتح یاب کرانے کے لیے فریقین کا زور بھی بڑا لگ رہا تھا۔ ایک طرف پی ڈی ایم کی درجن بھر جماعتیں متحد ہو کر اپنے متفقہ اُمیدوار، یوسف رضا گیلانی، کی پُشت پر تھیں تو دوسری طرف حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اُمیدوار، عبدالحفیظ شیخ، بلند اُمیدوں کے ساتھ میدان میں تھے۔ یوسف رضا گیلانی کا سیاسی پلہ بھاری تھا۔
ملتان کی بلدیاتی سیاست سے آغاز کرکے گیلانی صاحب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ وفاقی وزیر بھی رہے اور پانچ سال تک پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی۔ ان سیاسی کامیابیوں کو معمولی نہیں کہا جا سکتا۔ اس دوران انھوں نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ عدالت سے ڈسکوالیفائی بھی کیے گئے اور اُن کا بیٹا اغوا بھی کیاگیا۔
وہ کئی برس راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید بھی رہے۔ اُن کا "جرم" یہ تھا کہ انھوں نے قومی اسمبلی کی اسپیکری کے دوران مبینہ طور پر چند لوگوں کو "غیر قانونی" سرکاری ملازمتیں فراہم کی تھیں۔ انھیں دس سال قید بامشقت اور دس کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ بڑی جرأت اور حوصلہ مندی سے انھوں نے ایامِ اسیری گزارے۔ قیدو بند کے ان پُر آزمائش زمانے میں انھوں نے ذاتی یادداشتوں اور سوانح حیات پر مبنی کتاب "چاہِ یوسف سے صدا" بھی لکھی۔ یہ دلچسپ کتاب ہمارے سیاسی لٹریچر میں شاندار اضافہ ثابت ہُوئی۔
اگر یوسف رضا گیلانی کے ایک صاحبزادے پر لگنے والے الزام نے کوئی نیا کٹّا نہ کھول دیا تو اسلام آباد میں سینیٹ کے اصل فاتح گیلانی صاحب ہیں۔ بعض لوگ مگر کہتے ہیں کہ سینیٹ کی یہ تازہ جنگ سید یوسف رضا گیلانی نے نہیں، آصف علی زرداری نے جیتی ہے۔ اگر آصف زرداری یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ " عمران خان اسمبلیاں توڑنا چاہتے ہیں تو بصد شوق توڑ دیں "تو ہم سب اُن کے بھرپور سیاسی و انتخابی اعتماد کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ سینیٹ کے معرکے میں سرخرو ہُوئے ہیں۔ اور انھوں نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن پر اپنی اسٹرٹیجی سے ثابت بھی کیا ہے کہ عمران خان کے خلاف سیاسی جنگ سڑکوں پر نہیں، بلکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ایوانوں میں لڑی جا سکتی ہے اور لڑی بھی جانی چاہیے۔
بعض اطراف سے یہ آوازیں بھی اُٹھتی سنائی دے رہی ہیں کہ سینیٹ میں عبدالحفیظ شیخ کی گیلانی کے مقابلے میں شکست کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان فوری طور پر مستعفی ہو جائیں۔ یہ مطالبہ بے جا بھی ہے اور غیر منطقی بھی۔ یہ تو ممکن ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہونے کی کوشش کریں لیکن عمران خان بھلا اپنے عہدے سے استعفیٰ کیوں دیں؟ وہ مردِ میدان ہیں اور مردِ میدان ہی کی طرح نئے حالات کا مقابلہ کریں گے۔ انھیں ایک اسپورٹس مین کی طرح حفیظ شیخ کی شکست تسلیم کرنی چاہیے۔ ہاں اگر خان صاحب قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ دوبارہ لیتے ہیں تو یہ مستحسن ہوگا۔ حکومت نے بھی اس جانب اشارہ کر دیا ہے۔