"مَیں نے تین سال قبل کرن تھاپر (سینئر بھارتی صحافی) کو انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت کی نائب صدارت سے ریٹائر تو ہو گیا ہُوں مگر مَیں اپنے طویل سیاسی و سفارتی سفر کی کہانی نہیں لکھوں گا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مگر میرے تینوں بچوں (دو بیٹوں اور ایک بیٹی) نے مجھے کہا کہ اگر آپ اپنی سوانح حیات نہیں لکھیں گے تو ہمیں کیونکر معلوم ہو سکے گا کہ آپ نے زندگی میں کیا کیا کامیابیاں سمیٹیں اور کہاں کہاں ناکامیاں ہُوئیں ؛ چنانچہ مَیں نے یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ پچھلے سال مارچ2020 میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچ گئی تھی۔
اور اگر کووِڈ 19کی مہلک وبا نہ پھیلتی تو یہ کتاب پچھلے سال ہی قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی۔ ہُوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا۔" یہ الفاظ بھارت کے سابق نائب صدر ایم حامد انصاری کے ہیں۔ اُن کی حالیہ ایام میں شائع ہونے والی سوانح حیاتMany a Happy Accident:Recollections of Lifeنے دُنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔
خصوصاً بھارت میں اس کا بڑا چرچا ہے۔ اس کتاب کے بعض مندرجات اور حامد انصاری صاحب کے سچ بولنے پر بھارتی متعصب ہندو میڈیا اُن سے اسقدر نالاں اور ناراض ہے کہ انصاری صاحب کو "احسان فراموش" کہہ ڈالا ہے۔"جے پور ڈائیلاگ" نامی بھارتی تھنک ٹینک کے سربراہ، سنجے ڈکشٹ، نے بھی حامد انصاری کی کتاب کا نہائت بیہودگی سے مذاق اُڑایا ہے۔ جواب میں مگر انصاری صاحب نے صبر اور تحمل کا دامن نہیں چھوڑا۔ اس کا ثبوت وہ چار بڑے انٹرویوز بھی ہیں جو مذکورہ کتاب کی اشاعت کے بعد ایم حامد انصاری نے بھارتی میڈیا کو تفصیلی اسلوب میں دیے ہیں۔
بھارت کے سابق نائب صدر ایم حامد انصاری لکھتے ہیں: "بھارتی سفارت اور سیاست میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد مجھے اب ذاتی تجربہ ہُوا ہے کہ بھارت کے اولین وزیر اعظم، جواہر لعل نہرو، درست ہی کہتے تھے۔ نہرو بھارت بارے کہا کرتے تھے کہ بھارت کو اتنا خطرہ کمونزم سے نہیں جتنا خطرہ بھارتی فرقہ پرستی اور Majoritarianismسے ہے۔
اب ایسا ہی ہورہا ہے۔ آج بھارت میں یہی دو عناصر بھارتی سماج اورسیاست کے لیے بڑاخطرہ بن گئے ہیں "۔ حامد انصاری مزید لکھتے ہیں: "آج کے بھارت میں سیکولرازم اور سوشلزم کا وجود رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ بی جے پی (بھارتی حکمران پارٹی) نے 2014ء کو اپنے دستور میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ہم اقتدار میں آکر بھارتی اقلیتوں کے جملہ حقوق کا تحفظ کریں گے۔ آج بی جے پی کے دستور میں یہ ذکر حذف کیا جا چکا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ بھارت میں سوشلزم کے خاتمے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ آج بھارت میں 10فیصد ایسے طاقتور سرمایہ دار موجود ہیں جن کی مٹھی میں بھارت کی 74فیصد دولت سمٹ چکی ہے "۔ نریندر مودی اب اپنی کسی تقریر میں خود بھی بھارتی سیکولرازم کا ذکر نہیں کرتے۔
ایم حامد انصاری نے زیر نظر تصنیف میں بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کے چہرے سے بھی نقاب اُلٹے ہیں۔ اسی لیے تو مودی کا جنونی حامی بھارتی میڈیا انصاری صاحب کے درپے ہو گیا ہے۔ اِس ضمن میں سابق بھارتی نائب صدر انکشاف کرتے ہُوئے لکھتے ہیں: "2007 میں نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ تب تک میری اُن سے کوئی لمبی چوڑی ملاقات نہیں تھی۔ مَیں اُن دنوں نئی دہلی میں ہریانہ بھون میں ٹھہرا تھا۔
ایک روز مودی جی مجھے ملنے آئے۔ مَیں نے دورانِ ملاقات اُن سے 2002 میں گودھرا کے سنگین مسلم کش فسادات کا ذکر کیا (جن میں سیکڑوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا) مَیں نے نریندر مودی سے یہ بھی کہا کہ آپ نے بطورِ وزیر اعلیٰ گجرات یہ ظلم کیوں ہونے دیا؟ میری بات سُن کر مودی جی کہنے لگے کہ لوگوں کو بس یہی ایک بات نظر آتی ہے، اُن دوسری باتوں کی طرف لوگوں کا دھیان کیوں نہیں جاتا جن میں مَیں نے مسلمانوں کا بہت بھلا کیا۔ مَیں نے پوچھا وہ باتیں کونسی ہیں؟ میری بات سُن کر مودی کہنے لگے کہ مَیں نے گجرات میں مسلمان لڑکیوں کے لیے بہت سے نئے اسکول کھولے ہیں۔
مَیں نے اُن سے کہا: پھر آپ ان کا ذکر میڈیا میں کیوں نہیں کرتے؟ میری بات سُن کر کہنے لگے: یہ بات مجھے سیاسی اعتبار سے سُوٹ نہیں کرتی۔"انصاری صاحب لکھتے ہیں: "مودی جی کو گودھرا میں قتل کیے جانے والے مسلمانوں پر کوئی افسوس نہیں تھا۔"شائد یہی وہ تلخ سچ ہے جس کی بنیاد پر بھارتی ہندو میڈیا نے انصاری صاحب کو "محسن کش" تک لکھ ڈالا ہے۔ یہ صریح زیادتی ہے۔
تقسیمِ ہند کے وقت انصاری صاحب کے والد شملہ میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی حیثیت میں تعینات تھے۔ وہ اچکن اور جناح کیپ پہن کر دفتر جایا کرتے تھے، اس لیے دُور ہی سے پہچان لیے جاتے تھے۔ لکھتے ہیں: " پاکستان بنتے ہی شملہ میں بھی مسلمانوں کے خلاف فسادات پھوٹ پڑے۔ ایک روز ایک شخص نے میرے ابا سے کہا: آپ یہ جناح کیپ کیوں پہنتے ہیں؟ ابا نے جواباً کہا: یہ کیپ تو ہندوستان میں اُس وقت بھی لوگ پہنتے تھے جب جناح نے یہ ٹوپی پہننا شروع بھی نہیں کی تھی۔"انصاری صاحب لکھتے ہیں: "محمد علی جناح نے ذاتی حیثیت میں میرے والد کو پاکستان ہجرت کرنے بارے کہا لیکن والد نے بھارت چھوڑ کر پاکستان جانے سے انکار کر دیا۔
ہم نے فسادات کے زمانے میں شملہ سے ہجرت کرکے نئی دہلی میں ابو الکلام آزاد روڈ پر واقع رفیع احمد قدوائی کے وسیع سرکاری گھر میں بطورِ مہاجر پناہ لی تھی۔ اُن کے گھر کے اندر ہی ہم تراویح پڑھا کرتے تھے۔ اور یہ عجب اتفاق ہے کہ کئی برس گزرنے کے بعد جب میں بھارت کا نائب صدر بنا تو اِنہی قدوائی صاحب کے سرکاری گھر کو میری رہائش گاہ بنایا گیا۔ اس فیصلے نے بچپن کی یادوں کو پھر سے تازہ کر دیا۔"
محمد حامد انصاری دس سال تک (دو بار) بھارت کے نائب صدر رہے۔ وہ بھارتی وزارتِ خارجہ سے منسلک رہ کر کئی عرب ممالک میں بھارتی سفیر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ اُن کی اولین پوسٹنگ بغداد میں ہُوئی تھی جہاں اُن کی ملاقات سلمیٰ نامی خاتون سے ہُوئی جو اُن کی شریکِ حیات بھی بنیں اور اُن کے تین بچوں کی والدہ بھی۔ انصاری صاحب کہتے ہیں:" آئی ایف ایس (انڈین فارن سروس) میں میری تعیناتی حادثاً ہی ہو گئی تھی حالانکہ مقابلے کے امتحان میں میری پوزیشن اچھی نہیں تھی۔"بھارتی مسلمانوں پر متعصب بھارتی ہندو احسان جتلاتے ہُوئے کہتے ہیں کہ ہم ہر سال تم لوگوں کو حج اخراجات میں سب سڈی فراہم کرتے ہیں۔
اس کی نقاب کشائی کرتے ہُوئے انصاری صاحب اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں: "2004ء میں پرنب مکھرجی بھارتی وزیر خزانہ تھے اور مَیں سبسڈی کمیٹی کا چیئرمین۔ جب ہم دونوں نے اس بارے تحقیق کی تو معلوم ہُوا کہ ائر انڈیا(بھارتی سرکاری ائر لائن) کو ہر سال جتنا مالی نقصان ہوتا تھا، وہ مسلمانوں کو دی جانے والی نام نہاد سبسڈی سے پورا کر لیا جاتا تھا۔ سب سڈی بھی ایک فراڈ ہی تھا۔" ایم حامد انصاری صاحب اپنی مذکورہ سوانح حیات میں بجا طور پر لکھتے ہیں کہ اگر بھارتی مسلمانوں کو بھارت کی مخصوص فضا میں ترقی پانی اور عزت حاصل کرنی ہے تو اُنہیں مشتعل ہُوئے بغیر زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔