وفاقی حکومت کے ایک متعلقہ ادارے نے کہا ہے کہ کورونا کی تازہ لہر نے تقریباً 20ہزار پاکستانیوں کی جان لے لی ہے۔ بھارت میں تو حالیہ کورونا لہر نے تقریباً ڈھائی لاکھ افراد کی جانیں نگل لی ہیں۔
کورونا کووِڈ 19کی قہر سامانیاں کے سامنے پوری نسلِ انسانی پریشان تو دکھائی دے رہی ہے لیکن جرأت و بہادری کے ساتھ انسان اس کا مقابلہ بھی کررہی ہے۔ رمضان شریف کا آخری عشرہ جاری ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمان کورونا سے نجات پانے کے لیے اپنے رب کے حضور دست بدعا ہیں کہ دعا مسلمان کا سب سے بڑا سہارا ہے۔
صدرِ مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی نے وطنِ عزیز کے معروف علمائے کرام کو ذاتی حیثیت میں ٹیلی فون کرکے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں، مریدوں اور مقتدیوں کو بار بار باور کروائیں کہ اس عالمی مہلک وبا سے بچے رہنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ کورونا ایس او پیز پر ہر ممکن عمل بھی کیا جائے، احتیاط برتی جائے اور اﷲ سے دعائیں مانگی جائیں۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آ رہی ہے کہ مساجد میں کورونا ایس او پیز پر پوری طرح عمل نہیں ہورہا۔ علمائے کرام کو اس ضمن میں تعاون کرنا چاہیے۔ دعا کے ساتھ دوا کا استعمال بھی لازم ہے۔
حکومت کی طرف سے بار بار یہ اعلانات بھی کیے جارہے ہیں کہ اگر احتیاطی تدابیر کو بڑے پیمانے پر عوام نے اختیار نہ کیا تو خدانخواستہ وبا کے پھیلنے سے ہمارے سرکاری اور نجی اسپتال کورونا زدگان کی دستگیری کرنے میں گھمبیر مسائل کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اسی لیے حکومت ایک آگاہی اشتہار نشر و شایع کررہی ہے: احتیاط ہی میں حیات ہے! سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وبا کے زیادہ پھیلنے کی شکل میں ملک میں مصنوعی آکسیجن اور وینٹی لیٹرز نایاب ہو سکتے ہیں۔ ایک افواہ کے مطابق: ملک میں کئی اہلِ زر ابھی سے گھروں میں آکسیجن سلنڈرز ذخیرہ کرنے لگے ہیں کہ نجانے بوقتِ ضرورت یہ ملیں، نہ ملیں۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ ایک انسان کو 24گھنٹے میں آٹھ سے 9لیٹر آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ اور اگر کسی ضرورت مند کو 24گھنٹے آکسیجن فراہم کی جائے تو کم از کم روزانہ اُسے 10 ہزار روپے کی آکسیجن لگتی ہے۔ ایسی خبریں سُن کر ویسے ہی جان نکل جاتی ہے۔ ایک غریب آدمی اگر کورونا کی گرفت میں آجاتا ہے تو وہ بیچارہ صرف آکسیجن کے حصول کے لیے اتنے پیسے کہاں سے لائے گا؟ اس لیے اﷲ کریم سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اس وبا سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ پاکستان میں اِس وقت آکسیجن بنانے والے اداروں کی تعداد 12تا14 ہے۔ یہ دن رات کام کرکے روزانہ740ٹن آکسیجن بنارہے ہیں۔ یہ مقدار فی الحال تو کافی ہے لیکن خدانخواستہ وبا کے مزید پھیلنے سے یہ ناکافی پڑ سکتی ہے۔
یہ آکسیجن زندگی بچا بھی رہی ہے اور بعض مقامات پر یہی آکسیجن زندگیاں نگل بھی رہی ہے۔ عراقی دارالحکومت، بغداد، کے ایک سرکاری اسپتال میں چند روز قبل اِنہی آکسیجن کے سلنڈروں میں آگ بھڑکنے سے 90زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے۔ مرنے والے سبھی بدقسمت کورونا کے مریض تھے۔ کورونا کا یہ ظالم موسم کیسے کیسے ستم ڈھا رہا ہے! بھارت میں تو آکسیجن سلنڈروں کی کمی سے شرحِ اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔
بھارت کی سب سے بڑی ریاست، اُتر پردیش، میں حکومت نے حیران کن اعلان کیا ہے کہ جو بھی ٹوئٹر پر یہ کہے کہ آکسیجن نہیں مل رہی ہے، اُس کی جائیداد بحقِ سرکار قرق کر لی جائے گی۔ ایک منظر دیکھ کر تو دل دہل سا گیا: مسلح بھارتی پولیس کے دستوں کی نگرانی میں آکسیجن سے بھرے ٹینک ٹرک کو اسپتال لایا جارہا ہے کہ کہیں آکسیجن کو ترستے بھارتی مریضوں کے لواحقین اسے راستے ہی میں نہ لُوٹ لیں۔
اس سے بڑھ کر قیامت اور کیا ہوگی؟ بھارت میں پرائیویٹ سطح پر کورونا ویکسین سستی ہونے کا باوجودغریب بھارتیوں کو دستیاب نہیں ہو رہی۔ کئی کروڑ اور ارب پتی بھارتی توکورونا کے خوف سے نجی طیاروں میں سوار بھارت ہی کو چھوڑ کر بعض افریقی ممالک اور مالدیپ کے جزائر میں پناہ لے رہے ہیں۔ اس رجحان میں اضافہ دیکھ کر نجی بھارتی طیارہ کمپنیوں نے اپنے ریٹ بھی بڑھا دیے ہیں۔
رمضان شریف میں چاہیے تو یہ تھا کہ ہم دل بڑا کرتے اور پیٹ چھوٹا لیکن بحثیتِ مجموعی ہم سے تو یہ بھی نہیں ہو سکا۔ اس کا ہم سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اس سنگدلی کو ہم سب بھگت رہے ہے۔ حکومت اس میدان میں بھی عوام کو ریلیف دینے میں جس طرح "سرخرو" ہُوئی ہے، یہ بھی رمضان میں ہمارے مشاہدات و تجربات کا حصہ بن رہا ہے۔ اِس نامہربان کورونا کے سنگین موسم میں کورونا کو دفع کرنے والی ادویات کو مزید گراں کرنے میں میڈیسن کا کاروبار کرنے والے ہمارے تاجر پیچھے کہاں رہتے؟ حکومت یہاں بھی کاروباریوں کے سامنے پسپا ثابت ہُوئی ہے۔ حکومت نے سبھی سرکاری اسپتالوں کو تقریباً نجی کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔
کسی غریب کو نہ دوائی مفت ملتی ہے، نہ ڈاکٹر صاحبان مفت میں تہی دست کی نبض پکڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تہی دست اور بے سفارش مریض جائیں تو کہاں جائیں؟ ہمارا سرمایہ دار طبقہ بھی آزمائش کے ان لمحات میں کورونا کووِڈ 19کے لاچار مریضوں کی دستگیری کرتا نظر نہیں آرہا۔ ویسے تو لاتعداد چھوٹی بڑی این جی اوز ملک بھر میں عطیات اکٹھا کرتی اور غریبوں کی امداد کے دعوے کرتی نظر آتی ہیں لیکن کسی نے سُنا ہے کہ کوئی اہم این جی او غریب کورونا زدہ مریضوں کی دستگیری بھی کررہی ہے؟
ایسے میں خبر آئی ہے کہ ممتاز بھارتی اداکار (اکشے کمار) نے غریب اور لاچار کورونا زدگان کی اعانت کے لیے ایک کروڑ روپے نقد (تقریباً پونے تین کروڑ روپے پاکستانی) کا عطیہ دیا ہے۔ سلمان خان، شاہ رخ خان اور ڈپیکا پوڈوکون نے بھی غریب بھارتی کورونامریضوں کی دستگیری کے لیے کروڑوں روپے دان کیے ہیں۔ کیا پاکستان بھر میں ہم ایسی ایک مثال بھی سامنے رکھ سکتے ہیں؟ گویا واقعی ہم نے رمضان المبارک میں بھی اپنے دل بڑے اور پیٹ چھوٹے نہیں کیے ہیں؟
کورونا کی حشر سامانیوں اور تباہ کاریوں کے اس ہولناک موسم میں ایک بار پھر ہمیں اپنے خالق ہی کی طرف اخلاص کے ساتھ رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ انسان اس مہلک وبا پر قابو پا لے گا کہ اس سے قبل بھی انسان نے کئی بار کئی ہلاکت خیز وباؤں پر قابوپایا ہے۔ جرأتمند انسانوں نے فطرت سے شکست کھانا نہیں سیکھا۔ اسی لیے شاعر نے کہاتھا: تُو شب آفریدی، چراغ آفریدم۔ کورونا کے لاتعداد مریضوں کو بھارت میں جس طرح دوائی مل رہی ہے نہ آکسیجن اور نہ ہی وینٹی لیٹر، یہ پُر آزمائش گھڑیاں ہم پر بھی آ سکتی ہیں۔
ہمیں ذہنی طور پر اس کے مقابلے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ بھارت میں یہ قیامت اسقدر گھمبیر ہو گئی ہے کہ وہاں آکسیجن اور کورونا سے بچنے کے لیے ویکسین بنانے والا سب سے بڑا صنعت کار (آدر پونے والا) بھی اس وبا اور بھارتی حکومت کے دباؤ سے مجبور ہوکر اپنے بال بچوں سمیت ملک سے فرار ہو کر برطانیہ جا چکا ہے۔ یوں کورونا کارن حالات کی سنگینی کا اندازہ ہم بخوبی لگا سکتے ہیں۔
اس مبہم اور مہلک کورونا موسم میں خبر آئی ہے کہ پاکستان کو یورپ کی طرف سے "آسٹرازینکا" نامی کورونا ویکسین کی 12لاکھ ڈوزز عطیہ میں مل رہی ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے میڈیا میں یہ خبریں بھی شایع اور نشر کی گئی ہیں کہ "آسٹرازینکا" نامی اس ویکسین کے استعمال سے یورپی شہریوں میں خون منجمد کر دینے کے عارضے بھی لاحق ہو رہے ہیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے حقیقت کہاں ہے؟ ایسے مشکوک موسم میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہمیں کورونا وبا سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔