حاصل بزنجو نے جب آنکھ کھولی تو ان کے والد میر غوث بخش بزنجو ایوب حکومت کے خلاف کرنسی نوٹ پر نعرے لکھنے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ حاصل بزنجو جب کالج میں آئے تو ان کے والد حیدرآباد سازش کیس میں ملوث ہونے پرگرفتار تھے۔ ان پر حیدرآباد میں خصوصی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔
حاصل بزنجو نے کراچی یونیورسٹی میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف آواز اٹھائی۔ ایک تنظیم کے طلبہ کے تھنڈر اسکواڈ کے سامنے جھکنے سے انکارکیا اورگولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ حاصل نے کمیونسٹ رہنما جام ساقی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف خصوصی عدالت میں چلنے والے مقدمے میں جام ساقی کے حق میں گواہی دی۔ حاصل بزنجو جنرل پرویز مشرف کے دور میں ججوں کی بحالی کی تحریک میں کراچی پریس کلب سے گرفتار ہوئے۔
حاصل بزنجو نے سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی قیادت کی اور ثابت کردیا کہ اب بھی منتخب اراکین کو خریدا جاتا ہے۔ جمہوری روایات کے مطابق حاصل بزنجوکوکامیابی حاصل ہوئی مگر اب سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف سینیٹ میں اپنے کچھ سینیٹرو ںکی بے وفائی کے بعد اپنا اتحاد برقرار رکھ سکے گی؟ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کے لیے اب حقیقی چیلنج یہی ہے۔ حزب اختلاف کا چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں مقررہ ووٹ حاصل نہ کرنا اور 14 سینیٹروں کا آخری لمحہ میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرنا موجودہ حکومت کے شفاف جمہوری نظام کے نعرے کی نفی ہے۔
حزب اختلاف کے 64 سینیٹروں نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر دستخط کیے تھے۔ سینیٹ کی صدارت کرنے والے پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے سینیٹ کے قواعد کے تحت عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں دستخط کرنے والے سینیٹروں کو اپنے دستخط کی توثیق کرنے کے لیے کھڑے ہوکر اظہار کے لیے کہا تو تمام سینیٹر کھڑے ہوگئے تھے، یوں انھوں نے عدم اعتماد کی تحریک کی توثیق کردی تھی مگر خفیہ ووٹنگ میں 14سینیٹروں نے عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں ووٹ نہیں دیے، یوں ظاہر ہوگیا کہ وہ کسی غیر مرئی دباؤکا شکار ہوئے تھے۔
اگرچہ سینیٹر اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے تو انھیں عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں دستخط نہیں کرنے چاہیے تھے اور جب پریزائیڈنگ افسر نے اس قرارداد کی حمایت کرنیوالے سینیٹروں کو کھڑے ہو کر قرارداد کی توثیق کے لیے کہا تو ان 14 سینیٹروں کو اپنی نشستوں پر بیٹھا رہنا چاہیے تھا یا ایوان میں موجود نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یوں ان سینیٹروں کے غیر مرئی دباؤ سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوگئی۔
یہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ 50ء کی دہائی میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی کے نمایندہ مرزا ابراہیم حصہ لے رہے تھے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ کے امیدوار احمد سعید کرمانی تھے، جب ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی تو مرزا ابراہیم کامیاب قرار ہوئے تھے مگر ریٹرننگ افسرکے مطابق احمد سعید کرمانی کامیاب ہوئے۔ کسی ذہین فرد نے اسی وقت جھرلو پھیرنے کی اصطلاح وضح کی تھی اور یہ اصطلاح انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے بہت مقبول ہوئی۔
جنرل ایوب خان نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا تو پاکستان کے بانی محمدعلی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ جنرل ایوب خان نے بی ڈی نظام کے تحت انتخابات منعقد کرائے تھے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوام نے 80 ہزار بی ڈی اراکین کا انتخاب کیا۔ فاطمہ جناح نے متحدہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ساتھ پر زور مہم چلائی تھی۔ عوامی شاعر حبیب جالب فاطمہ جناح کے جلسوں میں انقلابی نظمیں پڑھ کر لوگوں کو جوش و ولولہ دلاتے تھے۔
فاطمہ جناح نے ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، ڈھاکا اور چٹگانگ وغیرہ میں تاریخی جلسے کیے تھے۔ مشرقی پاکستان کے شہروں اور گاؤں میں لوگوں نے فاطمہ جناح کا اتنا والہانہ استقبال کیا تھا کہ نئی تاریخ رقم ہوگئی تھی مگر انتخاب میں فاطمہ جناح کو ہرا دیا گیا۔ بعد میں ایوب خان کے قریبی معاونین نے اقرارکیا کہ انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی تھی۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اپنی صدارت میں مزید 5 سال اضافے کے لیے ریفرنڈم کا اعلان کیا تو اس وقت بیلٹ پیپر پر ایک سوال پوچھا گیا کہ کیا عوام جنرل ضیاء الحق کے اسلامی ایجنڈا سے متفق ہیں؟
اس کا مطلب یہ نکالا گیا کہ جو اس سوال پر ہاں کے حق میں ووٹ دے گا تو اس کا مطلب جنرل ضیاء الحق کی صدارتی ریفرنڈم میں کامیابی سمجھا جائے گا۔ اس وقت کے گورنر سندھ جنرل جہانداد خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ صبح ہی سے پولنگ اسٹیشن خالی تھے مگر شام کے بعد جاری ہونے والے نتائج میں جنرل ضیاء الحق کوکامیاب قرار دیاگیا۔ جب جنرل پرویز مشرف نے اپنی صدارت کی توثیق کے لیے ریفرنڈم کرایا تو چوراہوں پر پولنگ بوتھ رکھ دیے گئے اور ووٹر لسٹ میں نام کے اندراج کی پابندی ختم کردی گئی مگر ووٹ نہ پڑے البتہ الیکشن کمیشن نے رات گئے اعلان کیا کہ جنرل پرویز مشرف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں اقرار کیا کہ ریفرنڈم میں دھاندلی ہوئی تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ اس طرح کی انتخابی دھاندلیوں کی کامیابی کے باوجود جمہوری نظام مستحکم نہیں ہوا۔
جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے رخصت ہوتے ہی ان کا نافذ کردہ نظام اپنے انجام کو پہنچا۔ 1991ء میں سندھ میں جام صادق کی حکومت مصنوعی برتری کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء کے انتخابات منعقد کرائے تو پیپلز پارٹی سے ایک گروپ علیحدہ کرکے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی اور جنرل پرویز مشرف کے وزیر اعظم کے امیدوار ظفر اﷲ جمالی ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر ان سینیٹروں کی ایک فہرست گردش کررہی ہے۔
اس فہرست میں ان 14 سینیٹروں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ انھوں نے اپنے ووٹ فروخت کیے ہیں۔ اس فہرست میں دو ایسے سینیٹر بھی شامل ہیں جو سابق صدر کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے۔ اسی طرح ایک سابق وفاقی وزیر پربھی ووٹ فروخت کرنے کا شبہ ظاہرکیا جارہا ہے۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف کے ٹکٹ یافتہ کچھ سینیٹر بھی مشکوک سینیٹروں کی فہرست میں شامل ہیں مگر یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔
یہ بھی افواہیں ہیں کہ نیب کے مقدمات میں ملوث ایک اعلیٰ شخصیت کی عید الاضحیٰ سے پہلے ضمانت ہوجائے گی۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے پیپلز پارٹی پر بعض الزامات لگائے ہیں مگر میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کے لیے علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کمیٹیاں تمام ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ان سینیٹروں کی نشاندہی کریں جنھوں نے اپنے عہد سے روگردانی کی ہے۔ پھر ان کمیٹیوں کی رپورٹیں شایع ہونی چاہئیں۔ تمام جماعتوں کو واضح طور پر اعلان کرنا چاہیے کہ ان سینیٹروں کو پارٹی سے خارج کیا جارہا ہے۔ آیندہ انھیں دوبارہ کسی صورت اپنی اپنی پارٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کو عہد کرنا چاہیے کہ جب پارلیمنٹ میں اکثریت ہوگی تو وہ صدر، قومی اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب وزیر اعظم کے انتخاب کی طرح کھلے ایوان میں کرنے کے لیے قانون میں ترمیم کرے گی۔ اس صورتحال سے وزیر اعظم عمران خان کے شفاف جمہوری نظام کے ایجنڈے کو سخت نقصان ہوا ہے۔
وفاقی وزراء شیخ رشید نے اپنے بیانات میں حکومت کے تعویذ وغیرہ کا ذکرکرکے اور فواد چوہدری نے مولانا فضل الرحمن کے سینیٹروں پر الزام لگا کر خود اپنی جماعت کے غیر جمہوری کردارکو تسلیم کیا ہے۔ اس صورتحال میں حزب اختلاف شکست کھانے کے باوجود عوام کے سامنے ثابت کرچکی ہے کہ نیا پاکستا ن دراصل آمروں والا پاکستان ہے، اب اگر حزب اختلاف کی جماعتیں تقسیم ہو جاتی ہیں تو پھر کامیابی حکومت کی ہوگی۔