ایک فرد ایک ووٹ، ہانگ کانگ کے عوام نے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے منظم جدوجہد تیزکردی ہے۔ ہانگ کانگ کی کل آبادی 75 لاکھ افراد کے قریب ہے مگر یکم جولائی(یوم آزادی) کو ایک تہائی آبادی اس مطالبے کے حق میں سڑکوں پر مظاہرہ کر رہی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکن بصیر نوید جنھوں نے ان جلوسوں میں شرکت کی، آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں کہ ان جلسوں میں اکثریت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ یہ سب انتہائی منظم انداز میں جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ انھوں نے خود یہ نظارہ دیکھا کہ اچانک دور سے ایمبولینس کے سائرن کی آواز آنا شروع ہوئی، جلوس کے شرکاء نے سڑک خالی کرنا شروع کردی اور چند لمحوں میں ایمبولینس کے لیے راستہ بن گیا۔ ایمبولینس لاکھوں لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی اسپتال پہنچ گئی۔
ہانگ کانگ کی انفرادیت اور خود مختاری کی تحریک کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب برطانوی دورکا خاتمہ 1997ء میں ہوا اور اسے عوامی جمہوریہ چین کی نگرانی میں دیا گیا تو اپنی طرز زندگی، معیشت اور ثقافت تھی۔ اس بناء پرکمیونسٹ پارٹی نے ایک ملک دو نظام کے تحت اس جزیرے کو اپنے تحویل میں لیا، یوں برطانوی نظام اختتام پذیر ہوا۔
برطانوی دور سو سال کے عرصے پر محیط تھا۔ اس دور میں جدید تعلیم، صنعتی ترقی اور جدید معیشت کی بناء پر متوسط اور امراء کا طبقہ وجود میں آیا۔ اس بناء پر سول سوسائٹی خاصی مضبوط ہوگئی۔ چین نے یہاں پر جو نظام نافذ کیا ہوا ہے وہ ایوب خان کے نافذ کردہ بی ڈی نظام سے خاصی مشابہت رکھتا ہے۔ یہاں پہلے ڈسٹرکٹ اور پھر لیجسلیٹوکونسل کے انتخابات ہوتے ہیں۔ جتنے رکن لیجسلیٹوکونسل کے رکن بنتے ہیں اتنی ہی تعداد چین کے حکومت اپنے نمایندوں کو نامزد کردیتی ہے۔ چین اپنی مرضی کا چیف ایگزیکٹو نامزد کرتا ہے، اگرچہ یہ چیف ایگزیکٹو ہانگ کانگ کا شہری ہوتا ہے مگر یہ چینی حکومت کے احکامات کا پابند ہوتا ہے، حکمراں پارٹی ڈی اے بی چین نواز کہلاتی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈی اے بی پارٹی ہی ایک فرد ایک ووٹ کے حق کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت چین کی بالادستی کے خلاف ہے۔ یہ نوجوان سول سوسائٹی میں متحرک ہیں۔ سول سوسائٹی نے گزشتہ برسوں میں زرد چھتری کی تحریک شروع کی تھی۔ اس تحریک کے دوران نوجوانوں نے سرکاری عمارتوں کا گھیراؤکیا۔ پولیس فورس نے طاقت استعمال کر کے سرکاری عمارتوں پر سے یہ قبضہ ختم کرایا تھا۔
اب حکومت بے دخلی کا ایک قانون منظورکرانا چاہتی ہے، اگر بے دخلی کا قانون منظور ہوگیا تو چین کی حکومت کو انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، چین اور دیگر ممالک سے منحرف ہوکر ہانگ کانگ میں پناہ لینے کے لیے آنے والے افراد کو بے دخل کرنے اور اپنے ملک میں لے جا کر مقدمہ چلانے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔ یوں مختلف ممالک کے منحرفین اور سیاسی پناہ لینے والوں کے لیے ہانگ کانگ میں جگہ نہیں رہے گی۔ نوجوان اس قانون کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس قانون کی منظوری سے قانون کی بالادستی متاثر ہوگی۔
بصیر نوید جو ایک عشرے سے وہاں مقیم ہیں اور انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم میں کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ برطانوی دور میں بہت سے چینیوں نے گوروں سے شادیاں کیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں نے بھی گوروں میں جوڑے بنائے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ بہت زیادہ تعداد میں نہیں ہیں مگر یہ لوگ جلسوں میں برطانیہ کا پرچم لے کر آتے ہیں، یوں مغربی ذرایع ابلاغ کی کوریج سے تاثر ملتا ہے کہ سول سائٹی کی تحریک کا مقصد ہانگ کانگ کو دوبارہ برطانیہ کی تحویل میں دینا ہے، یہ تاثر مکمل طور پر غلط ہے، کارپوریٹ سیکٹر، پروفیشنلز اور سرمایہ دارانہ کمپنیاں اس تحریک کی حمایت کررہی ہیں۔
ہانگ کانگ چند صدیوں تک ایک ماہی گیروں کی بستی تھی۔ چین کے جنوب مشرقی ساحل کے قریب واقع ہونے کی بناء پر اس کی ایک اسٹرٹیجک اہمیت قائم ہوئی۔ محل وقوع کی وجہ سے اس جزیرے کا شمار دنیا کے جدید ترین میٹرو پولیٹن شہروں میں ہوتا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 1842ء میں پہلی افیون جنگ میں چین کی کونگ ڈائینسٹی کی حکومت کی شکست ہوئی تو ہانگ کانگ پر برطانیہ کا قبضہ ہوا۔ برطانوی عملدرآمد میں یہ بین الاقوامی تجارت کا مرکز بن گیا۔
ہندوستان میں کمپنی کی حکومت پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے افیون کاشت کروانے کے لیے بنگال کے کسانوں پر مظالم ڈھائے تھے اورکمپنی کے گماشتے ہندوستانی تاجر، ہندوستان سے افیون ہانگ کانگ لے جاتے تھے اور یہ چین میں فروخت ہوتی تھی۔ آبادی کی اکثریت چین سے ہجرت کرنے والے خاندانوں پر مشتمل ہے اور ان میں وہ لاکھوںخاندان بھی شامل ہیں جو ماؤزے تنگ کے انقلاب کے بعد چین سے ہجرت کر کے یہاں آئے۔ یوں ان پناہ گیروں کی کوششوں کے نتیجے میں جلد ایک صنعتی مرکز میں تبدیل ہوا۔
چین کی صنعت ترقی کے ساتھ ہانگ کانگ میں سروس اکنامی کا نیا شعبہ وجود میں آیا۔ چین نے یکم جولائی 1997ء کو ہانگ کانگ کا نظام سنبھالا تو اس کو خصوصی انتظامی ریجن کا درجہ دیا گیا۔ اس نئے نظام کی بنیادی خصوصیات میں سرمایہ دارانہ نظام، آزاد عدلیہ، قانون کی حکمرانی، آزاد تجارت اور آزادئ اظہارکو چینی حکومت نے تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ہانگ کانگ میں سو فیصد خواندگی اور مضبوط معاشی نظام پر بناء پر متوسط کلاس امراء کے لیے ایک محفوظ علاقے کی حیثیت رکھتا ہے۔ نوجوان نسل میں برطانوی دور کے اثرات انتہائی گہرے ہیں۔ سول سوسائٹی سے منسلک نوجوان برطانیہ کی طرح جمہوری نظام کے استحکام کے خواہاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ " ایک فرد، ایک ووٹ" کا نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہے جس کو چین کی حکومت قبول کرنے کو تیار نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہانگ کانگ میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر حکومت قائم ہوئی تو پھر برطانوی جمہوری روایات کے امین اقتدار میں آئیں گے اور یہ لوگ آزادئ اظہار، قانون کی بالادستی اور ہر شخص کو حکمراں بننے کے حق کو تسلیم کرنے کی روایت پر عمل پیرا ہونگے۔ چین میں اب بھی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت ہے اگرچہ چین نے ترقی کے لیے آزاد معیشت کو اپنالیا ہے جس کی بناء پر ملٹی نیشنل کارپوریشن نے چین میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے مگر ایک فرد ایک ووٹ کے ذریعے حکمرانوں کو منتخب کرنے کا حق چینی شہریوں کو اب تک حاصل نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی حکومت ہانگ کانگ میں ان آزادیوں کو نافذ کرنے سے خوفزدہ ہے۔ مگر عوام ان بنیادی انسانی حقوق کے عادی ہوچکے ہیں اور ان حقوق کے تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر عوام کی خواہشات کا احترام نہ کیا گیا اور بے دخلی کے قانون کے ذریعے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا تو اس کے برے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس عوامی تحریک کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر منظم ہے اور اس میں کسی بھی سطح پر تشدد کے رجحانات نہیں ہیں۔ اس کا اظہار لاکھوں لوگوں پر مشتمل احتجاجی جلسوں میں ہوتا ہے۔ چین کی حکومت کو عوام کے ان بنیادی مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور عوام کو اپنے حکمرانوں کو منتخب کرنے کا حق دینا چاہیے تاکہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنے حکمرانوں کا احتساب کرسکیں۔ اگر چین کی حکومت نے عوام کی اس تحریک کے مطالبات کو تسلیم کرلیا تو ہانگ کانگ میں ترقی کا عمل تیز تر ہوگا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا۔ دوسری صورت میں امریکا اور اس کے اتحادی خراب صورتحال سے فائدہ اٹھائیں گے اور چین کا عوام دوست چہرہ مسخ ہوگا۔