جناح صاحب نے ایک دعوت میں رتی کے والد سر ڈنشاسے دریافت کیا کہ بین المذاہب شادیوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ڈنشا نے جواباً کہا کہ یہ اچھا عمل ہے۔ اس سے مختلف مذاہب کے درمیان نفرتیں اور دوریاں کم ہوں گی۔ پھر محمد علی جناح نے ان سے کہا کہ وہ ان کی بیٹی رتی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ سر ڈنشا یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے۔
اختر بلوچ نے جناح صاحب کے بمبئی میں سیکریٹری کے فرائض انجام دینے والے شریف الدین پیر زادہ کی کتاب سے یہ اقتباس حاصل کیا اور اپنے ایک بلاگ میں شامل کر دیا اور 29 کے قریب اہم موضوعات پر لکھے گئے بلاگزکو اپنی کتاب "کرانچی والا 2 " میں اسموکرکتاب کی شکل دی۔
یہ کرانچی والا کی دوسری جلد ہے۔ معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کتاب کے ابتدائیہ میں " عوامی مؤرخ "کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ اختر بلوچ کا شمار سیاست اور تاریخ کے نمایاں طالب علموں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے مطالعہ کی بنیاد پر لکھنے میں خاصی تاخیرکی لیکن اس میں شک نہیں کہ انھوں نے تاریخ کو صحیح معنوں میں عوام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ مجھے خوشی ہے کہ اختر بلوچ نے روایتی تاریخ سے ہٹ کر عام اور نادر لوگوں کی گم شدہ تاریخ کو تحریرکیا ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان کی تحقیق کا مقصد سندھ کے چھوٹے شہروں اور قصبوں کے رہنے والے ان لوگوں کو بھی منظرعام پر لانا ہے، جو بڑے شہروں کی چھاؤں میں کہیں گم ہوگئے تھے۔
پاکستان کی تاریخ کا المیہ یہ بھی ہے کہ اسے حکمراں طبقوں کے مفادات کے تحت بار بار بدل کر مسخ کیا گیا۔ اختر بلوچ نے ایسے بہت سے مغالطوں اور مبالغوں کو دورکرنے کی کوشش کی ہے۔ اختر بلوچ کا تاریخ پرکام ان کی ذاتی دلچسپی اورکاوشوں کا نتیجہ ہے۔ وہ ایک عوامی مؤرخ کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ پاکستان اور سندھ کی تاریخ میں ایسے لاتعداد موضوعات پر لکھنے کی ضرورت ہے۔ اختر بلوچ ایک ایسی متبادل تاریخ لکھ کر عوام کے احساس اور تاریخی شعور میں اضافہ کریں گے۔
گزشتہ چند برسوں سے وہ کراچی کی تاریخ، قدیم عمارات، شاہراہوں اور شخصیات پر تحقیق کے ذریعے کتابیں تصنیف وتالیف کر رہے ہیں۔ اختر بلوچ دل آویز انداز میں پاکستانی شہریوں کو خود آگہی کے سفر پر چلنے کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ اس کتاب کا پہلا موضوع " قرارداد پاکستان 23 مارچ یا 24 مارچ "میں مصنف کا کہنا ہے کہ اس مضمون کا موضوع 23 مارچ کی قرارداد پاکستان ہے لیکن متعدد حوالے سے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ قرارداد 24 مارچ 1940ء کو منظورکی گئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ تاریخی قرارداد 24 مارچ کو اس وقت منظور ہوئی جب عیسوی کیلنڈرکی تاریخ بدلنے میں فقط نصف گھنٹہ رہ گیا تھا۔ یعنی یہ قرارداد 24 مارچ 1940ء کو رات 11:30بجے منظورکی گئی۔ کتاب کا دوسرا مضمون " درویش کا قتل " ہے۔ اختر بلوچ لکھتے ہیں کہ بھگت کنور رام تقسیم سے قبل سندھ کی ایک ایسی ہستی تھے، جنھوں نے سماج سیوا میں کوئی بھید بھاؤ نہ کیا اور نہ ہی ہندو مسلم کی تفریق رکھی۔ وہ ایک عظیم موسیقار اورگلوکار تھے۔
لوگ ان کا کلام سننے کے لیے جوق در جوق پہنچتے تھے اور ہزاروں روپے ان پر نچھاور کرتے تھے۔ لیکن محفل کے اختتام کے بعد بھگت کنور رام وہ تمام رقم ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ بھگت کنور رام کو 1939ء میں ایک مسلمان مذہبی پیشوا کے پیروکاروں نے قتل کر دیا تھا۔ سینئر صحافی اور دانشور شیخ عزیزکے مطابق جب قاتل انھیں قتل کرنے وہاں پہنچے تو ان کے کسی چاہنے والے نے سنتروں کا ایک ٹوکرہ ان کو تحفتاً دیا تھا۔ انھوں نے خوش دلی سے قاتلوں کا استقبال کیا اور اپنے ہاتھوں سے سنترے چھیل کرکھانے کو دیے۔
اس کتاب کے تیسرے مضمون کے عنوان " یہ ایمپریس مارکیٹ ہے یا رام دین پانڈے کی قبر" میں اختر لکھتے ہیں کہ ایمپریس مارکیٹ کی تعمیرکا تعلق 1857ء کی جنگ آزادی سے بھی بنتا ہے۔ اس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ 1857ء میں کراچی میں مقیم برطانوی فوج کی 21 ویں رجمنٹ کے سپاہیوں نے رام دین پانڈے کی قیادت میں ایک نیا منصوبہ تشکیل دیا، جس کے مطابق ایک رات کو 21ویں رجمنٹ کے سپاہیوں کو پورے کنٹونمنٹ پر قبضہ کرنا تھا اور انگریز افسروں کو قتل کرکے آزادی کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا۔ کچھ مخبروں نے اس کی اطلاع انگریز سرکار کو دے دی۔
انگریز سرکار نے رام دین پانڈے اور ان کے ساتھیوں کو 13 اور 14 ستمبر 1857ء کی درمیانی شب ایمپریس مارکیٹ کے خالی میدان میں توپوں کے منہ پر باندھ کر اڑا دیا۔ اس واقعہ کے بعد مقامی لوگ رات کی تاریکی میں یہاں آتے تھے اور اس مقام پر گلدستہ رکھ کر چلے جاتے تھے۔ انگریز سرکارکو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ یہ جگہ شہداء کی یادگار نہ بن جائے، اس لیے یہاں ایمپریس مارکیٹ تعمیر کی گئی۔ اس کتاب کا ایک مضمون کا عنوان "جام ساقی آپ کسی دن مروائیں گے" ہے۔
اختر اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ اکثر لوگ جام ساقی کی شریک حیات سکھاں کو بتاتے تھے کہ ان کے شوہر پر بہت زیادہ تشدد کیا جا رہا ہے۔ جب یہ اطلاعات تسلسل کے ساتھ آنے لگیں تو مایوس ہو کر سکھاں نے کنویں میں کودکر خودکشی کرلی۔ انھوں نے جام ساقی کا ایک واقعہ اپنے مضمون میں شامل کیا ہے۔ جام ساقی نے طویل عرصہ روپوشی میں گزارا۔ روپوشی کے اس طویل دور میں جام ساقی نے خود یہ واقعہ سنایا "ایک دفعہ بس میں نذیر عباسی کے ساتھ جا رہا تھا۔ میں نے ایک بوڑھے کولہی تکلیف کی حالت میں کھڑا دیکھا۔ میں کھڑا ہوگیا اور اسے بیٹھنے کی جگہ دی۔
وہ میری سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اختر بلوچ "رام باغ سے آرام باغ تک " کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ہندوؤں کی ایک سماجی تنظیم کے عہدیدار نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ رام باغ سوامی نارائن مندرکے قریب واقع ایک پارک تھا، جہاں ایک اسٹیج بنایا جاتا تھا۔ دس دن تک اس پر ڈرامہ پیش کیا جاتا تھا۔ رام باغ 1939ء میں ایک مخیر ہندو دیوان جیٹھا نند نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ رام باغ اب بھی سوامی نارائن مندر کے قریب برنس روڈ پر موجود ہے۔ اس رام باغ کی آخری نشانی باغ سے کچھ دور ہمدرد دواخانے والی سڑک پر بجلی کے ایک کھمبے پر لگی شکستہ پلیٹ ہے۔ کراچی میں رام باغ کو اب آرام باغ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مصنف نے" ٹھگوں کی دنیا دور قدیم سے عصر جدید تک" کے موضوع پر لکھا ہے کہ ٹھگ پاک و ہند سے پہلے ایک منظم گروہ تھا۔ ان کے اپنے قاعدے اور قوانین تھے۔
حد تو یہ تھی کہ آہستہ آہستہ ٹھگی نے ایک مذہبی فرقے کی شکل بنالی تھی۔ یہ وارداتیں اپنے اصول و ضوابط کے تحت کرتے تھے۔ ٹھگی کے ذریعے لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا ایسا نظام مرتب ہوگیا، جو دو صدیوں تک ہندوستان پر مسلط رہا۔ اس دوران ٹھگوں نے بے شمار تاجروں اور مسافروں کو لوٹا۔ انھیں قتل بھی کیا۔ برطانوی راج نے پورے نظام کو ملیامیٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اختر " قائد اعظم کے اپنی بیٹی دینا سے تعلقات کیسے تھے "کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ دینا جناح کے معاملے میں جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جناح صاحب نے بیٹی کو اپنی زندگی سے نکال دیا تھا، ان کے لیے دینا جناح کا یہ بیان پڑھنا ضروری ہے " میرے والد ایک شفیق انسان تھے۔ میری ان سے آخری ملاقات بمبئی میں 1946ء میں ہوئی۔ وہ اہم مذاکرات کے لیے دہلی سے بمبئی آئے ہوئے تھے۔
انھوں نے ٹیلی فون پر گھر آنے کا کہا۔ دینا کا بیٹا نسلی دو سال کا تھا۔ ہم بیشتر وقت بچوں اور سیاست کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان وجود میں آرہا ہے۔ دہلی میں اپنی ناگزیر مصروفیات کے باوجود ہمارے لیے تحائف خریدنے کے لیے وقت نکالا تھا۔ جب وہ نسلی کو پیارکرنے کے لیے جھکے تو خاکستری ٹوپی جو اب ان کے نام سے مشہور ہے نسلی کو پسند آگئی۔
انھوں نے فوراً وہی ٹوپی اتار کر اپنے نواسے کے سر پر رکھ دی اور بولے اسے تم رکھ لو۔ میرے بیٹے نسلی نے آج بھی اس ٹوپی کو بہت عزیز رکھا ہے۔ " اختر بلوچ آسان اور سادہ زبان لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں مگر صرف زبان کی صحت کا ہی خیال نہیں رکھتے بلکہ بلاگ میں تحریر کیے گئے مواد کی معروضیت کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قدیم تاریخ اور جدید تاریخ کے واقعات تحریر کیے ہیں مگر معروضیت کی بناء پر انھیں کبھی وضاحت یا تردید کرنے کی ضرور ت پیش نہیں آئی۔ علم و ادب پبلشر نے "کرانچی والا "کو جاذب نظر سرورق کے ساتھ شایع کیا ہے۔ یہ کتاب تاریخ کی ایک اہم دستاویز قرار دی جاسکتی ہے۔