بھارت اور پاکستان میں جنگ کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ جنونی عناصر جنگ کو مسئلہ کا حل قرار دے رہے ہیں، ایسے وقت بی ایم کٹی دنیا سے چلے گئے۔ خطہ میں امن کی صدا لگانے والی ایک آواز اور کم ہوگئی۔ بی ایم کٹی نے ساری زندگی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کو مضبوط بنانے کے لیے جدوجہد کی۔ ان کے چاہنے والے پاکستان، بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال میںکٹی صاحب کی یاد منا رہے ہیں۔
کٹی صاحب کو خراج عقیدت دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کی آواز بلند کرکے ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔ بی ایم کٹی 1930ء میں کرالہ ریاست کے شہر ٹیرڑTirur میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم چنائے کے محمڈن کالج میں حاصل کی۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ترقی پسندوں سے متعارف ہوئے، کرالہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے منسلک ہوگئے۔
دوستوں کے ساتھ گھومنے پاکستان آئے اور جمہوری تحریک سے ایسے منسلک ہوئے کہ زندگی کی آخری سانس تک سوشلسٹ سماج کے قیام اور قومیتوں کے حقوق کے بارے میں غور و فکر کرتے رہے اور لکھتے رہے۔ بی ایم کٹی نے سیاسی زندگی کا آغاز عوامی لیگ سے کیا۔ وہ آزاد پاکستان پارٹی اور پھر نیشنل عوامی پارٹی کے اہم اراکین میں شامل تھے۔ یہ ایوب خان کی آمریت کے آغاز کا وقت تھا۔
سیاسی کام کرنا خطرناک جرم بن گیا تھا۔ کٹی کراچی جیل میں بھی قید رہے اور لاہور میں بھی انھوں نے جیل کاٹی۔ ان کی اس دور کی اسیری دنوں اور مہینوں پر نہیں بلکہ برسوں پر محیط ہے۔ بی ایم کٹی نے لکھا کہ اس زمانے میں جیل میں جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی اور محمود الحق عثمانی وغیرہ نظربند تھے۔
جیل میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ ایک مشکوک شخص بھی تھا۔ یہ شخص جی ایم سید کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ کٹی صاحب نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ایک دن اس شخص نے سید سے بد تمیزی کی انتہا کردی کہ کٹی جیسے پرامن اور سنجیدہ شخص کو غصہ آگیا اور کٹی اس شخص کو مارنے کے لیے دوڑے، لوگوں نے بیچ بچاؤ کرالیا۔ بی ایم کٹی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما غوث بخش بزنجو کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ غوث بخش بزنجو اپنے قریزی عزیزوں سے زیادہ کٹی صاحب پر اعتماد کرتے تھے۔ میر بزنجو کے صاحبزادے حاصل بزنجو کہتے ہیں کہ وہ ہمارے خاندان کا حصہ تھے۔
جب پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقارعلی بھٹو نے اقتدارسنبھالا تو حزب اختلاف کے مطالبہ پر مارشل لاء ختم کیا اور عبوری آئین نافذ کیا اور مستقل آئین کی تیاری کے لیے قومی اسمبلی میں موجود جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل آئینی کمیٹی قائم کی گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی کی جانب سے میر غوث بخش بزنجو اس کمیٹی کے رکن تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو اس زمانے میں میر بزنجو سے خاص طور پر مشورہ کیا کرتے تھے، اس بناء پر غوث بخش بزنجو کا آئین سازکمیٹی میں کردار اہم ہوگیا تھا۔ غوث بخش بزنجو کی ہدایت پر بی ایم کٹی نے آئین کا ایک خاکہ تیارکیا۔ یہ خاکہ جمہوریت اور سیکولر اصولوں کی عکاسی کرتا تھا مگر اس دوران نیشنل عوامی پارٹی میں گروہ بندی شروع ہوگئی۔
پارٹی کے سربراہ ولی خان پیپلز پارٹی کی حکومت سے کسی سمجھوتے کے حق میں نہیں تھے، کمیونسٹ پارٹی جس کی نمایندگی پروفیسر جمال نقوی کررہے تھے ولی خان کے خیالات کی تائید کرتے تھے۔ ولی خان کے حامیوں اور کمیونسٹ پارٹی والوں نے غوث بخش بزنجو اور بی ایم کٹی کے خلاف مہم چلائی۔ پشاور میں نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین کا اجلاس ہوا۔
اس اجلاس میں غوث بخش بزنجو کو اس کمیٹی سے دستبردار ہونے کی ہدایت کی گئی۔ وزیر اعظم بھٹو نے جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور اور جمعیت علمائے پاکستان کے قائد شاہ احمد نورانی سے رابطہ کیا تو بی ایم کٹی کا ڈرافٹ پس پشت چلا گیا اور ان علماء کے دباؤ پر آئین میں ایسی شقیں شامل کردی گئیں جس سے شہریو ںکے درمیان امتیاز پیدا ہوا اور مذہبی رنگ نمایاں ہوگیا، پھر نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا۔
نیپ نے سرحد اور بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کے ساتھ حکومتیں قائم کیں۔ بلوچستان کے گورنر غوث بخش بزنجو مقرر ہوئے، سردار عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ بنے۔ میر بزنجو نے کراچی سے دو افراد کوکوئٹہ بلایا۔ بی ایم ٹی میر غوث بخش بزنجو کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔ صدیق بلوچ پریس سیکریٹری بنائے گئے۔
یہ حکومت نو ماہ تک چلی۔ وفاقی حکومت نے ہر روز نیپ کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کیے۔ بی ایم کٹی اور صدیق بلوچ اس مشکل وقت میں غوث بخش بزنجو کے شانہ بشانہ رہے، اچانک وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کی حکومت کو برطرف کردیا۔ عراقی سفارت خانہ سے اسلحہ کی برآمدگی اور پیپلزپارٹی کے رہنما حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے تمام رہنما اور کارکن جیلوں میں بند کردیے گئے، جب کوئٹہ کے گورنر ہاؤس سے میر بزنجو اور بی ایم کٹی رخصت ہو رہے تھے تو سخت سردی پڑ رہی تھی۔ کٹی صاحب کے پاس گر م کوٹ نہیں تھا، بزنجو نے اپنی واسکٹ کٹی صاحب کو دی اور کہا گُڈ لگ، پھر بزنجو اورکٹی گرفتار ہوگئے۔
بی ایم کٹی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کوئٹہ کے تھانوں کے لاک اپ میں اس واسکٹ نے ان کی جان بچائی، بعد میں ان کو رہا کردیا گیا۔ جب پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی تو بھٹو صاحب نے بی ایم کٹی کو بلایا اور کہا کہ وہ غوث بخش بزنجو کو مذاکرات کے لیے تیار کریں مگر اب دیر ہوچکی تھی، یوں یہ مذاکرات شروع نہ ہوئے اور جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
بی ایم کٹی، غوث بخش بزنجو کے ساتھ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوئے۔ وہ پاکستان نیشنل پارٹی بنانے والوں میں بھی شامل تھے۔ جب ایم آر ڈی کی بنیادی دستاویز میں صوبائی خودمختاری کی شق شامل ہوئی تو پاکستان نیشنل پارٹی ایم آر ڈی میں شامل ہوئی اور کٹی ڈپٹی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
بی ایم کٹی نے تحریک بحالی جمہوریت کی قراردادوں کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی اس صلاحیت سے بعد میں ان کے لیے پھر مشکلات پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوتے ہی بی ایم کٹی کو نظربند کردیا گیا۔ یوں کٹی صاحب پھر تقریباً ایک سال تک کراچی سینٹرل جیل میں مقید رہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران بے نظیر بھٹو بی ایم کٹی کی صلاحیتوں سے متاثر ہوئیں۔ بی ایم کٹی 90ء کی دھائی کے آغاز پر پاکستان انڈیا دوستی فورم کو منظم کرنے میں مصروف ہوگئے۔
انھوں نے پاکستان اور بھارت کے امن کی تحریک کے کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے انتھک کوشش کی۔ بی ایم کٹی، آئی اے رحمن، ڈاکٹر مبشر حسن اور کرامت علی وغیرہ کی کوششوں سے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط بڑھے اور عام آدمی کے لیے ویزے کی پابندیوں کو نرم کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو قائل کرنے کی کوششیں کیں، یوں کچھ برسوں تک دونوں ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلیاں ہوئیں۔ بی ایم کٹی صاحب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر اینڈ ریسرچ کے بانی اراکین میں شامل تھے۔
اس ادارے نے مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیوں کی تیاری اور روشن خیالی کی تحریک کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بی ایم کٹی نے میر غوث بخش بزنجو کی سوانح عمری کی ادارت کی۔ اس کتاب کی اشاعت کے روحِ رواں ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا ہے کہ میر غوث بخش بزنجو کی کتاب "In search of solution" کا نام معروف صحافی ایم بی نقوی نے تجویزکیا۔ بی ایم کٹی کی سوانح عمری Sixty years in self exile noregrets کے عنوان سے شایع ہوئی۔
بی ایم کٹی نے اس کتاب میں اپنی خاندانی تاریخ کے علاوہ 50 سے 80 کی دھائی کے اختتام تک کے اہم واقعات تحریر کیے ہیں۔ حاصل بزنجو بی ایم کٹی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ " بی ایم کٹی نے جمہوریت، سوشل ازم اور مظلوم قوموں کے حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ وہ مشرقی پاکستان کے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں میں شامل تھے اور انھوں نے زندگی کے آخری لمحہ تک بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔
ان کے انتقال سے بلوچستان کے عوام اپنے ایک دوست سے محروم ہوگئے۔ ان کے انتقال پر نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی افسوس کا اظہار ہورہا ہے۔ بھارت کی ریاست کرالہ کے وزیر اعلیٰ Pinaragi Vijayan نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ بی ایم کٹی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔