Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Information Commission Ki Ghair Faalit

Information Commission Ki Ghair Faalit

عوام کے جاننے کے حق کی تسکین کے لیے قائم ہونے والا اطلاعات کمیشن ابھی تک فعال نہیں ہوسکا۔ چیف انفارمیشن کمشنر اعظم خان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک کمیشن کو فعال کرنے کے لیے مالیاتی اور انتظامی مدد نہیں دی ہے جس کی بناء پر کمیشن اپنے فرائض اپنے قواعد کے تحت انجام نہیں دے پا رہا۔ انفارمیشن کمیشن2017ء میں منظور ہونے والے انفارمیشن ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا تھا۔

اس قانون کے تحت ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وفاقی حکومت کی مختلف وزارتوں اور خود مختار اداروں کی کارروائی اور فیصلوں وغیرہ کے بارے میں دستاویزات حاصل کرسکے۔ انفارمیشن کمیشن میں عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کرنے کی جدوجہد کرنے والے کئی سماجی کارکن شامل ہیں۔

عوام اس کمیشن کے ذریعے اطلاعات حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ انفارمیشن ایکٹ 2017ء کے تحت مختلف وزارتوں اور وفاقی اداروں کو اپنی اطلاعات اپریل 2018ء تک اپنی اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کرنی تھی مگر ابھی تک اس پرکسی بھی وزارت اور خودمختار ادارے نے اس قانون پر عملدرآمد نہیں کیا۔

اس قانون کے تحت وزارت خارجہ، دفاع اور خزانہ وغیرہ کو اطلاعات کی فراہمی سے استثنیٰ قرار دیا گیا ہے مگر باقی تمام وزارتیں اور ادارے شہریوں کو اطلاعات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ انفارمیشن ایکٹ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں نافذ کیا گیا تھا مگر اس وقت کی حکومت اپنی آئینی مدت کے آخری 6 ماہ کے دوران انفارمیشن کمیشن قائم نہیں کرسکی تھی۔

تمام جمہوری ممالک میں عوام کو اپنی ریاست کے بارے میں جاننے کے حق کے اس حق کو Right to know کہا جاتا ہے۔ جاننے کا حق میڈیا کی آزادی کی بنیاد ہے۔ جمہوری اداروں کے ارتقاء پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام میں ہی عوام کی ریاست پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ عوام ووٹ کی طاقت کے ذریعے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اس طاقت کے ذریعے حکمرانوں کا احتساب کرتے ہیں۔

عوام کو جاننے کے ذریعے حکمرانوں کی کارکردگی کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں، یہ معلومات ذرایع ابلاغ سے ملتی ہیں اور اطلاعات کی بنیاد پر رائے عامہ ہموار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ریاستی اداروں میں شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ تمام معاملات کھلے ہوئے ہوں۔

عوام ان معاملات سے واقف ہوں، یوں بدعنوانی پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں 70 برسوں میں سے 30 سال کے قریب غیر سول حکومتیں برسراقتدار رہیں، یوں عوام کو ووٹ کا حق نہیں مل سکتا۔ اس بناء پر عوام کو جاننے کا حق بھی نہیں ملا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے اور 1973ء کے آئین کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ وجود میں آئیں تو جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے عوام کے جاننے کے حق کے بارے میں قانون سازی کے لیے ایک مسودہ سینیٹ میں پیش کیا مگر سینیٹ میں اس مسودہ پر کبھی غور نہیں ہوا۔

1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے منشور میں یہ عہد کیا گیا کہ وہ اطلاعات کے حصول کا قانون منظور کرائیں گے، مگر دونوں جماعتیں دو دو دفعہ برسر اقتدار رہیں مگر یہ قانون نہ بن سکا۔ جب بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف ہوئی اور پیپلز پارٹی کے بانی رکن ملک معراج خالد عبوری حکومت کے وزیر اعظم بنے تو ممتاز قانونی ماہر فخر الدین جی ابراہیم وزیر قانون، معروف صحافی ارشاد حقانی وزیر اطلاعات اور نجم سیٹھی وزیر اعظم کے مشیر مقرر ہوئے۔

فخر الدین جی ابراہیم کی وزارت قانون نے اطلاعات کے حصول کے قانون کے مسودہ کی تیاری شروع کی مگر بعض اصولی اختلافات کی بناء پر فخر الدین جی ابراہیم مستعفی ہوگئے۔ وزیر اعظم ملک معراج خالد نے اپنی وزارت کے آخری دن اطلاعات کے حصول کے ایک آرڈیننس پر دستخط کیے، اس آرڈینس کی مدت چار مہینے تھی مگر میاں نوازشریف کی حکومت اس کو اسمبلی سے ایکٹ نہیں بنوا سکی۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2002ء میں جب نثار میمن وزیر اطلاعات تھے اور انتخابات کے بعد جمالی حکومت قائم ہورہی تھی تو عبوری آئینی حکم (P.C.O) کے تحت کئی سو قوانین ملک میں نافذ ہوئے۔ ان میں اطلاعات کے حصول کا قانون بھی شامل تھا۔ سندھ اور بلوچستان نے اس قانون کا چربہ اپنے اپنے صوبوں میں نافذ کیا۔ یہ ایک کمزور قانون تھا، اس قانون سے جاننے کے حق کی تسکین نہیں ہوئی۔

پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے 2006ء میں لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا۔ اس میثاق میں دونوں جماعتوں نے عہد کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد آئین میں ترمیم کر کے جاننے کے حق کی شق کو شامل کیا جائے گا۔

2010ء میں آئین میں ہونے والی 18ویں ترمیم میں شق19(A)کے تحت حصول اطلاعات کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہوا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق اور سندھ میں اس پرانے قانون کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد میاں شہباز شریف نے اپنی دوسری مدت کے آغاز پر اطلاعات کے حصول کا جامع قانون نافذ کیا۔

خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ایسا ہی ایک مؤثر قانون بنایا، دونوں صوبوں میں چیف انفارمیشن کمشنر کا تقرر ہوا، یوں ان صوبوں میں طرز حکومت بہتر ہوئی مگر وفاق، سندھ اور بلوچستان میں کچھ نہیں ہوا۔ 2017ء میں قومی اسمبلی نے ایک جامع قانون منظورکیا، مگر اس قانون پر عملدرآمد عمران خان کے دور میں ہوا۔ اس دوران پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انفارمیشن کمیشن غیر فعال ہوئے۔

سندھ میں انفارمیشن کمیشن کے لیے قانون سازی ہوئی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے قانون پر عملدرآمد کے لیے انفارمیشن کمیشن قائم نہیں کیا۔ ایک شہری نے سندھ ہائی کورٹ میں عرض داشت داخل کی۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت نے انفارمیشن کمیشن بنایا مگر یہ اب تک غیر فعال ہے۔ تحریک انصاف احتساب کے نعرے پر اقتدار میں آئی۔ احتساب کے لیے امتناعی قوانین نافذ ہوئے۔ اطلاعات کے حصول کے حق کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

وفاق میں انفارمیشن کمیشن تو قائم ہوا مگر کمیشن کو حکومت نے بے یارومددگار چھوڑ دیا اور نہ ہی وزیر اعظم عمران خان نے تمام وزارتوں اور خود مختار اداروں کو ہدایات دیں کہ وہ اپنا ریکارڈ اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کریں۔ ابلاغ عامہ کے استاد پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ جاننے کے حق کو عملی طور پر نافذ کرنے اور ذرایع ابلاغ کی آزادی کو تسلیم کیے بغیر حقیقی احتساب نہیں ہو سکتا۔

موجود ہ حکومت ذرایع ابلاغ کے بیانیے کوکنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور انفارمیشن کمیشن کے ادارے کو فعال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت احتساب کے نعرے کو یکطرفہ طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ حکومت اطلاعات کی فراہمی کے نظام کو مؤثربنا کر احتساب کے عمل کو غیر جانبدار اور خودکار بنا سکتی ہے۔