Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Siasat Se Pehle Riyasat

Siasat Se Pehle Riyasat

یہ ملک صرف وزیراعظم شہبازشریف اورصدر زرداری کانہیں اورنہ ہی اس ملک میں صرف ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے کارکن رہے ہیں۔ یہ ملک جتنا شہبازشریف اورزرداری کاہے اتناہی یہ سابق وزیراعظم عمران خان کابھی ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ اس ملک میں کپتان کے کھلاڑی بھی ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں رہے ہیں۔

اس ملک نے باقیوں سے زیادہ کپتان کوعزت دی مگرافسوس کپتان کے کھلاڑیوں نے اس عزت کابدلہ ہمیشہ ملک وقوم سے نفرت، بغض اورحسدکی صورت میں دیا۔ اس ملک میں سیاست سب لوگ کرتے ہیں لیکن کپتان کے کھلاڑیوں کاسیاسی لیول، انداز سیاست اورسیاسی سوچ کچھ اورہے۔

پی ٹی آئی اوردوسری پارٹیوں ولیڈروں میں فرق یہ ہے کہ باقی پارٹیاں اورلیڈرملک کے لئے سیاست کرتے ہیں پرپی ٹی آئی سے وابستہ ہر لیڈر، عہدیدار اور کارکن سیاست کے لئے سب کچھ کرتے ہیں۔ ملک وقوم کااچھاہویانہ لیکن ان کی سیاست اور لیڈر کا سب اچھا ہونا چاہئے۔ ان کی سوچ، سیاست، عقل وشعورکودیکھ کریوں لگتاہے کہ جیسے لیڈراورسیاست کے سامنے ملک وقوم کوئی چیزہی نہ ہو۔

پانچ سال پہلے ان کی حکومت میں ملک کی تباہی کاجب آغاز ہو رہا تھااس تباہی پربھی یہ روزتالیاں بجایاکرتے تھے، پٹرول کی قیمت میں اگربیس روپے بھی اضافہ ہوتاتویہ سرجھکانے اورشرمندہ ہونے کے بجائے سینہ تان کرکہتے کہ اگرکپتان کی حکومت میں پٹرول ہزار روپے لیٹر بھی ہوجائے توکوئی بات نہیں۔ ماناکہ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے بھی اس ملک میں دودھ اورشہدکی کوئی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں مگر ملک وقوم کے یہ حالات نہیں تھے جوتحریک انصاف کے چارساڑھے چار سالہ دورمیں ہوئے۔

خان سے پہلے میاں نوازشریف کے دورمیں ملک کے اندردودھ اورشہدکی نہریں تونہیں بہہ رہی تھیں لیکن حالات ایسے تھے کہ لوگ کچھ نہ کچھ سکون سے جی تورہے تھے۔ میاں صاحب کے دور میں پٹرول ستراسی روپے اورڈالر کے مقابلے میں روپیہ بھی اس وقت تگڑا تھاجب تحریک انصاف کے کارکنوں نے گونواز گو کے نعرے لگانے شروع کئے۔ کم عقل اور نادان لوگوں نے عمران خان اور ان کے چہیتوں کو ملک و قوم کا مسیحا سمجھا۔ پھر سب نے دیکھا پی ٹی آئی کے چار سالوں میں ملک کا وہ ستیا ناس ہواکہ جس کی مثال نہیں ملتی۔

عمرانی ٹولہ چار سالہ اقتدار کے مزے بھی لوٹتا رہا اور ساتھ نواز شریف کو چور چور کہہ کرعوام کوبھی بیوقوف بناتارہا۔ یوتھیوں کے ان خانہ بدوش وزیروں اورمشیروں نے انتہائی چالاکی سے مہنگائی کا وہ پودا لگایا جس کا پھل پھر لوگ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی کھاتے ہوئے پی ڈی ایم کو گالیاں دیتے رہے۔

حالیہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ساتھ جوکچھ ہواوہ اسی عمرانی پھل کوشہبازشریف کے ہاتھوں لوگوں کوکھلانے کانتیجہ تھا۔ شہبازشریف اگرپی ڈی ایم کے وزیراعظم بن کرپی ٹی آئی کے گناہ اپنے سرپرنہ لیتا تو یقینی طور پر انتخابات میں نتائج مختلف ہوتے لیکن ملک وقوم کی خاطر شہباز شریف نے اس چیزکی پرواہ نہیں کی بلکہ ان کی ایک ہی بات تھی کہ سیاست بچے یانہ لیکن ریاست کو بچنا چاہئے۔

کپتان کے کھلاڑیوں کاتوحافظہ بہت کمزورہے انہیں کپتان کے علاوہ توکوئی بات یادہی نہیں رہتی یہ جوحالات آج دیکھ رہے ہیں اس وقت حالات ایسے نہیں تھے۔ غیراوربیگانے کیا؟ اپنے بھی اس وقت پی ٹی آئی حکمرانوں کوبرابھلاکہہ رہے تھے۔ اس وقت توملک کاایساحشرنشرہوگیاتھاکہ تحریک انصاف اورکپتان کے اپنے بھی نہ صرف اشاروں کنایوں بلکہ سرعام یہ کہتے دکھائی دیتے تھے کہ آج ہے یاکل ملک دیوالیہ ہونے والاہے۔ وہ توقوم کی دعائیں اوروزیراعظم شہبازشریف کی محنت تھی کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خواب دیکھنے والے خوددلیہ دلیہ ہوگئے۔

کپتان اوران کے کھلاڑیوں کی سیاسی لڑائی سیاستدانوں اورلیڈروں سے ہے مگرایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ ملک وقوم سے ان کی دشمنی کیوں ہے؟ کپتان کواگراقتدارسے بیدخل کیا تو سیاستدانوں اورلیڈروں نے کیاملک وقوم کاتواس میں کوئی کردارنہیں پھرکپتان کے کھلاڑیوں کا ملک وقوم سے کیامسئلہ ہے؟ کپتان کے کھلاڑی سیاسی مخالفین کے بارے میں چاہے جوبھی سوچ اپنائیں اورانہیں چاہے جوبھی کہیں لیکن ملک وقوم کے بارے میں توان کی سوچ مثبت اوردل پاک وصاف ہونے چاہئیں۔

ملک وقوم دونوں جب ان کی حکومت میں غلط فیصلوں اوراقدامات کی وجہ سے کھائی میں گررہے تھے تویہ تالیاں بجارہے تھے اوراب جب وہی ملک اورعوام کھائی سے آہستہ آہستہ نکل رہے ہیں توان کے پیٹ میں مروڑاٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر شہبازشریف بیٹھیں یاعمران خان واللہ ہمیں اس سے کوئی مسئلہ اورسروکار نہیں۔ ہماری توبس ایک خواہش اوردعاہے کہ اس ملک کا کوئی شہری ننگا، بھوکا اور کھلے آسمان تلے نہ رہے۔

بیس کلو آٹے کا تھیلا اگرتین ہزارسے دوہزار پر آ گیا ہے تواس پر ماتم کرنے کے بجائے خوش ہوجاناچاہئیے کہ غریبوں کو اب ایک کے بجائے دوروٹیاں تو نصیب ہوں گی۔ پاکستان اگرچاندپرپہنچ گیاہے تواس پر رونے دھونے کی کیا ضرورت؟ اس پر بھی رب کا شکر ادا کرنا چاہئیے کہ پیاراپاکستان چاندپرپہنچ گیا ہے۔

سیاسی اختلافات اورآپس کے لین دین اپنی جگہ اس ملک وقوم کی ہرکامیابی، کامرانی اورخوشی سب کی کامیابی اورخوشی ہے چاہے وہ ن لیگ کے کارکن ہوں، پیپلزپارٹی کے جیالے یاکپتان کے نادان کھلاڑی۔ یہ ملک ہم سے نہیں بلکہ ہم اس ملک سے ہیں۔ یہ ملک خداکی وہ نعمت ہے جس پرہم رب کاجتنابھی شکراداکریں وہ کم ہے۔ اس لئے نہ صرف کپتان اوران کے کھلاڑیوں بلکہ ملک کے تمام سیاسی کارکنوں کواپنی سیاسی لڑائیاں اور جھگڑے سیاست کے میدان تک ہی محدودکرنے

چاہئیں۔ بحیثیت قوم جو بھی حکمران، جو بھی لیڈر اور جو بھی سیاستدان ملک اورعوام کے لئے اچھا سوچیں اور اچھاکریں ہمیں دل سے اس لیڈر، اس سیاستدان اوراس حکمران کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ اپنے لیڈراورسیاستدان سب کو عزیزہوتے ہیں۔ صرف کپتان کے کھلاڑی نہیں بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں اورجماعتوں کے کارکن اپنے اپنے لیڈروں سے بہت پیارکرتے ہیں لیکن جب ملک وقوم کی بات آتی ہے توپھرلیڈراورسیاستدان پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ ملک وقوم سے آگے کچھ بھی نہیں۔

اس لئے کپتان کے کھلاڑیوں کوملک وقوم کی فلاح وبہبودکے لئے ہونے والے اچھے کاموں اوراقدامات میں کیڑے نکالنے کے بجائے ایسے اقدامات پراسی طرح تالیاں مارنی چاہئیے جس طرح یہ کپتان کے چارساڑھے چار سالہ دورمیں تالیاں ماراکرتے تھے۔ کام اچھااگردشمن بھی کرے تالی تواس پربھی بنتی ہے۔ یہ توپھربھی ملک وقوم کے مفادکامسئلہ ہے۔