سیاست اب وہ سیاست نہیں رہی ہے، پہلے لوگ نہ صرف سیاست کو اتحاد، اتفاق اورخدمت خلق کاذریعہ سمجھتے تھے بلکہ علاقائی وقومی ترقی اورعوامی خوشحالی کے لئے سیاست کوبروئے کاربھی لاتے تھے لیکن اب؟ اب معاملہ مکمل طورپرالٹ اورسیاست کے معنی ومفہوم یکسربدل چکے ہیں۔ کل تک جس سیاست کے ذریعے لوگوں کومتحدکرکے ترقی وخوشحالی کے منازل طے کئے جاتے تھے آج اسی سیاست کی وجہ سے لوگوں کوتقسیم کرکے ترقی وخوشحالی کے مینارگرائے جارہے ہیں۔
چندسال پہلے تک جس سیاست کے ذریعے نہ صرف شہروں بلکہ دوردراز علاقوں، گاؤں اوردیہات کے لوگ بھی ایک دسترخوان اورایک چارپائی پربیٹھ کردکھ سکھ اورمحبتیں بانٹاکرتے تھے آج اسی سیاست کی وجہ سے ایک ہی چھت تلے رہنے والے بھائی بھی بھائی کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ جن شہروں، علاقوں، گاؤں اوردیہات میں لوگوں کادکھ سکھ کبھی ایک ہواکرتاتھا اس کمبخت سیاست کی برکت سے اب ان شہروں، علاقوں، گاؤں اوردیہات میں بھی دکھ سکھ ایک نہیں رہاہے۔
پہلے کچھ کچھ سیاستدان، عوام کولڑاؤاورحکومت کراؤ، کافارمولہ اپناتے تھے لیکن اب گلی محلوں میں بنٹے کھیلنے والے سیاستدان بھی یہ فارمولہ جیبوں میں تیار رکھتے ہیں۔ سیاست اورسیاستدانوں کے معاملے میں عوام کی لاشعوری، لاعلمی اورکم فہمی کودیکھ کرافسوس ہوتاہے۔ سیاست میں حمایت اورمخالفت یہ شروع سے ہے اورغالبانہیں یقینناًآخرتک رہے گا۔ حمایت اورمخالفت یہ کوئی بلااورکوئی بری چیزبھی نہیں۔ اچھائی کاساتھ اوربرائی کی مخالفت یہ تورب کابھی حکم ہے۔ ہمارادین اسلام بھی ہمیں یہی تعلیم، شعوراوردرس دیتاہے کہ اچھائی کاساتھ دواوربرائی کی مخالفت کرو۔
ہمارے بزرگ سیاست کے میدان میں بھی اچھے لوگوں کودیکھ کران کاساتھ دیتے تھے یہی وجہ تھی کہ اس وقت پھرہمارے شہروں، گاؤں اوردیہات میں کام بھی اچھے ہوتے تھے۔ ہمیں نہیں یادپڑرہا کہ ہمارے بزرگوں کے اس دنیاسے جانے کے بعدہمارے اپنے گاؤں جوز یاقریبی علاقوں میں کوئی خاص ترقیاتی کام ہوئے ہوں۔ بجلی ہمارے علاقے میں پچیس تیس سال پہلے آگئی تھی، علاقے میں سکول اورہسپتال بھی وہی ہے جوبیس پچیس سال پہلے بنے تھے۔ روڈکی جوحالت بزرگوں کے وقت تھی غالباًروڈکاوہی حال آج بھی ہے۔
ہمارے بزرگ سیاستدانوں کاکام اورکرداردیکھ کران کاساتھ دیتے تھے لیکن اب ہمارے ماڈرن دورکے لوگ اورجوان کام اورکردارکوچھوڑکرسیاستدانوں کے چہرے دیکھ کران کی حمایت اورمخالفت کرتے ہیں۔ پہلے سیاست میں پورے گاؤں، علاقے اوردیہات والوں کاکہیں ایک سیاسی بھگوان ہواکرتاتھالیکن اب ہرشخص نے اپناایک الگ سیاسی بھگوان پالاہواہے۔ یہ جانتے، سمجھتے اوردیکھتے ہوئے بھی کہ ان سیاسیوں سے سوائے پانی کے ایک کالے پائپ یابجلی کے دوکھمبوں کے اورکچھ حاصل نہیں ہوگااس کے باوجودلوگ سالہاسال ان کی خاطر گاؤں، علاقے اورگھروں میں دشمنیاں پالتے ہیں، عقل وشعورسے کورے اوربے خبریہ لوگ اپنے بچوں اوررشتہ داروں کااتناخیال نہیں رکھتے جتنایہ اپنے سیاسی بھگوانوں کاپاس رکھتے ہیں۔ ووٹ لیکربھی کام کوئی نہیں کررہالیکن عوام پھربھی ان کے گن گاتے ہیں۔
صحت، تعلیم، پانی، بجلی، گیس اورشاہراہوں کی خستہ حالی جیسے مسائل ہرجگہ موجودہیں جہاں سڑکیں ہیں وہاں پانی اوربجلی نہیں جہاں پانی اوربجلی ہے وہاں گیس اورسڑکیں نہیں، کئی کئی علاقے، شہر، گاؤں اوردیہات ایسے ہیں جہاں سال نہیں سالوں سے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجوداگرآپ وہاں کے لوگوں کودیکھیں تووہ آپ کوسیاسیوں کی محبت میں گرفتاردکھائی دیں گے۔
ہمارے درمیان اکثریت اب ان لوگوں کی ہوگئی ہے جنہیں اپنے شہروں، علاقوں، گاؤں اوردیہات کی ترقی اوراپنوں کی خوشحالی کی توکوئی فکرنہیں لیکن سیاسیوں کی سیاست پروہ ہروقت مرے جارہے ہیں۔ یہ رات کوجب سوتے ہیں توخواب میں بھی یہ میراخان، تیراخان اورمیرالیڈر، تیراقائدکے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ ان کاتوکوئی لمحہ خان جی، نواب جی اورچوہدری جی کے وردسے خالی نہیں ہوتالیکن خان جی، چوہدری جی اورنواب جی کے پاس ان خواب دیکھنے والوں کے لئے لمحے کابھی ٹائم نہیں ہوتا۔ یہ پانچ سال میں صرف ایک بارالیکشن کے دوران عوام کادیدارکرتے ہیں۔
الیکشن کے بعدان کوپتہ ہی نہیں ہوتاکہ ان کے بھی کوئی ووٹرسپورٹرہیں۔ ہم نے ایسے کئی لوگ دیکھے ہیں جن کی ساری زندگیاں ان خانوں، نوابوں اورسیاسیوں کے لئے ووٹ وسپورٹ مانگتے گزری لیکن جب وہ اس دنیاسے گئے تویہی خان، نواب اورسیاسی ان کے جنازوں تک میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ ان کے پاس ٹائم نہیں تھا۔ جن لوگوں کے پاس اپنے محسنوں کے آخری دیدارکے لئے بھی ٹائم نہیں ہوتااب خوداندازہ لگائیں وہ کسی کے لئے کیاکام کریں گے؟ پہلے بھی پھربھی کچھ گزاراتھالیکن اب سیاست نے مکمل طورپرایک کاروبارکاروپ دھارلیاہے۔ چھوٹے ہیں یابڑے، گلی محلے کی سطح کے ہیں یاہائی لیول کے۔
معذرت کے ساتھ ہمارے اکثرسیاستدان اب دکانداربن چکے ہیں۔ پہلے لوگ سیاست کوعبادت سمجھ کرلوگوں کی خدمت کے لئے کیاکرتے تھے لیکن اب سیاست لوگ عبادت اورخدمت نہیں اپنی ذات اورمفادکے لئے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا۔ کہ بلی اللہ کی رضاکے لئے کوئی چوہا نہیں مارتی۔ ہمارے سیاستدان بھی اللہ کی رضاکے لئے سیاست میں تھوڑے آتے ہیں۔ ان کااگربس اوروس چلے تویہ پانچ سال بعدبھی عوام کواپنی شکل نہ دکھائیں۔
یہ توشکل صرف اس لئے دکھاتے ہیں کہ یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ یہ اگرعوام کے ووٹ اورسپورٹ کے بغیرناظم، ایم این اے اورایم پی اے بن سکتے توآپ یقین کریں یہ آپ کودوربین کیا؟ خوردبین میں بھی کہیں نظرنہ آتے۔ اس لئے ہرمداری کومسیحانہ سمجھیں بلکہ اصلی اورنقلی میں فرق کرکے سیاست سیاست کے گن اورگیت گائیں۔
پانچ سال تک ہاتھ ملنے اورمگرمچھ کے آنسوبہانے سے بہتر ہے کہ صرف ایک بارجوش کے بجائے ہوش سے کام لیاجائے۔ ویسے بھی ہماری سیاست اب جس ڈگرپرچل نکلی ہے اس میں جوش دکھانے یاجوش سے کام لینے کی ضرورت ہی باقی نہیں بچی ہے۔ اس سیاست سے تواب جوجتنادوررہے گاوہ اتناپرسکون رہے گا۔