ہر ریاست کو اپنی بقا اور ترقی کے لیے مستقل اور مسلسل آمدنی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آمدنی ٹیکس، برآمدات، سہولتوں کو کرائے پر دینے، قدرتی وسائل کے استعمال، سیاحت، ایجاداتی جدت کاری اور جنگ کے بدلے امن کی خریداری جیسے طریقوں سے حاصل ہوتی ہے۔
دوسرا طریقہ جو کہ اب متروک ہو چلا ہے نوآبادیاتی طریقہ ہے۔ کسی بھی خطے پر بزور یا سازش کے ذریعے قبضہ کر کے اس کے وسائل کو باپ کا مال سمجھ کر استعمال کیا جائے اور جب اس خطے سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا جائے تو اسے ترک کر کے کسی نئے خطے پر پنجے گاڑ دیے جائیں۔
ہر ترقی پذیر ملک کی طرح پاکستان کو بھی انفرادی یا مخصوص طبقاتی و اداراتی ترقی کے بجائے مجموعی مساوی ترقی کے لیے پیسہ اور اس پیسے کو خرچ کرنے کے لیے مخلص و خدا ترس و عوام دوست بیدار مغز درکار ہے۔ ترقی پذیری کے سبب پاکستان بھی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور اس شیطانی چکر سے نجات کی کوئی واضح صورت اور امکان بھی سجھائی نہیں دے رہا۔ علاوہ روزمرہ کام چلانے کے لیے مزید قرضہ لیا جائے۔ حتی کہ سود در سود ادا کرتے کرتے اور غیر ترقیاتی اخراجات کے ہاتھی کو پالتے پالتے ہی جان دے دی جائے۔
ان حالات میں کوئی بھی حکومت اپنی آمدن بڑھانے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے یا سودے بازی کے لیے آمادہ ہو سکتی ہے۔ حتی کہ اپنی بقا کے لیے پوری ریاست اور اس کے وسائل کرائے پر دے سکتی ہے یا آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی رہن رکھ سکتی ہے۔ ہمارے اردگرد ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔
البتہ کامن سینس، حاضر دماغی اور ترجیحات کو سیدھا رکھنے کی حکمتِ عملی سے کام لیا جائے تو پیسہ کمانا آج بھی مشکل نہیں۔ میں کسی ترقی یافتہ یورپی ملک، جاپان، سنگاپور وغیرہ کی مثال نہیں دینا چاہتا۔ بنگلہ دیش کو ہی لے لیں۔ دو ہزار چھ تک وہ کیا تھا اور آج کیا ہے؟ ( اس پر ایاز امیر نے پچھلے ہفتے ایک کالم بھی لکھا ہے )۔
آپ کو بھی فوری طور پر اپنے عظیم الشان مغلئی منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ارب ہا ڈالر درکار ہیں؟ بالکل درست۔ ظاہر ہے کہ ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے اور پچاس لاکھ گھر بنانے اور چالیس فیصد آبادی کو خطِ غربت سے اوپر کھینچنے کے لیے صرف دوست ممالک کی نظرِ کرم یا قرضوں سے تو کام نہیں چل سکتا۔
مگر کچھ خواب آنکھیں کھلی رکھ کے دیکھنے چاہئیں۔ الہ دین کا چراغ، پتھر کو سونے میں بدلنے والا پارس اور علی بابا کا قصہ سنا سب نے ہے دیکھا کسی نے نہیں۔
ابھی چند ماہ پہلے کی ہی تو بات ہے جب تواتر سے ڈھول پیٹا گیا کہ کراچی سے ٹکرانے والے سمندر میں تیل اور گیس کے اتنے بڑے ذخائر ملنے والے ہیں کہ سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور پھر یہ خواب بھی پانی کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
اب کہا جا رہا ہے کہ تیل اور گیس نہیں ملا کوئی بات نہیں مگر کراچی شہر کے عین سامنے یہ جو دس پندرہ ہزار ایکڑ کا جڑواں جزیرہ لاکھوں برس سے یونہی پڑا ہوا ہے۔ دراصل یہ ہے وہ پارس پتھر کہ جسے رگڑتے ہی کم ازکم پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اس جزیرے پر اتر پڑے گی۔ پھر دیکھنا آس پاس کے تمام مچھیرے شیوخ میں تبدیل ہو جائیں گے اور ان کی ٹوٹی پھوٹی کشتیاں لگژری بوٹس بن جائیں گی۔ دنیا بھر کے سیاح اس جزیرے پر ٹوٹ پڑیں گے اور جو وہ خرچ کریں گے وہ ہم سب کی جیب میں جائے گا۔
میں بھی چاہتا ہوں کہ ایسا ہی ہو۔ مگر پھر سوچتا ہوں کہ جو سرمایہ کار پچاس ارب ڈالر لگانے کو تیار ہے۔ وہ کیا سوچ کر یہ پیسے لگانا چاہتا ہے؟ پچاس ارب کو سو ارب ڈالر میں بدلنے کے لیے یہاں آنا چاہتا ہے یا پھر اپنی سرمایہ کاری سے ہونے والا منافع ابراہیم حیدری کے مچھیروں میں بانٹنے کے لیے بے چین ہے؟ کیا یہ سرمایہ دار کوئی فرشتہ صفت خدا ترس ہے جسے جزیرے کے اردگرد روزانہ پانچ ملین گیلن سے زائد شہری فضلہ اور گندہ پانی پھیلتا بھی نظر نہیں آئے گا۔
اور وہ کون سے لاکھوں سیاح ہیں جو اس جزیرے پر کروڑوں ڈالر لٹائیں گے اور پانچ پانچ کروڑ کے اپارٹمنٹس میں رہیں گے؟ ان کو کون سی کشش یہاں کھینچ کر لائے گی؟ جہاں بسکٹ کے اشتہار، ورزش کے ایک منظر اور کرکٹ کی باؤلنگ میں سے فحاشی دریافت کرنے والی عقابی نظریں ہمہ وقت چوکس ہوں۔ وہاں سیاحت کا پرندہ کیسے زندہ رہے گا؟ ایک ایک یورپی، امریکی، جاپانی سیاح کو پکڑ پکڑ کے کون سمجھائے گا کہ بھائی ٹینشن لینے کا نہیں۔ آپ بس انجوائے لیں اور ٹی وی مت دیکھیں اخبار مت پڑھیں۔
آپ ایک پھٹے حال آدمی کو ترقی کی تصوراتی جلیبی کا شیرہ چٹانے کے بجائے سیدھا سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ بھائی چند پسندیدہ سرمایہ کار اور ان کے شراکت دار جنھوں نے خشکی پر اربوں ڈالر املاکی سٹے سے کما لیے ہیں اب وہ اسی دولت کے دباؤ سے جزائر کو بھی تجوری میں بند کرنا چاہتے ہیں۔ کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟ اگر ہے بھی تو جہنم میں جاؤ اور اٹھاؤ اپنا یہ تام تپڑ۔ خبردار جو آیندہ اس جزیرے سے اپنی کشتی لگانے کی کوشش کی۔
ایسی ترقی تو ہر کوئی کر لے گا جس کے پاس طاقت ہے۔ بات تو تب ہے کہ کسی پرندے کا گھونسلہ، کسی درخت کی جڑ، کسی کا روزگار اور کسی کی جھونپڑی اجاڑے بغیر ترقی کر کے دکھاؤ۔ اور اپنی اس ترقی میں اس گھونسلے، درخت، جنگل، چرند پرند، بے روزگار و پسماندہ نسل اور جھونپڑی کو بھی شریک کرو جو تب سے وہاں موجود ہے جب لفظ ترقی بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔
تمہیں اربوں ڈالر چاہئیں نا؟ بہت آسان ہے۔ آٹھ ارب ڈالر سالانہ کی ٹیکس چوری بند کروا دو، ہر پروجیکٹ میں کرپشن کی شرح چالیس فیصد سے کم کر کے بیس فیصد تک لے آؤ، خام فصلیں اور خام معدنیات بیچنے کے بجائے انھیں تیار شدہ مصنوعاتی و نیم مصنوعاتی شکل دینے کے لیے سرمایہ کاروں کو سہولتیں دے کر سو روپے کے خام مال میں ویلیو ایڈیشن کر کے اسے ہی ہزار روپے کا بیچو۔ وہ دیہات اور گوٹھ جنھیں ترقی کے نام پر مسلسل بے دخل کیا جا رہا ہے انھیں ہنرمند بنا کر چھوٹی و بڑی صنعت و جدت کاری سے جوڑدو۔ یہی دیہاتی تمہیں سونا کما کر دے دیں گے۔
اپنے سمندر سے کماؤ۔ غیر ملکی ٹرالر لاکھوں روپے کے لائسنس کے نام پر تمہارے پانیوں سے کروڑوں روپے کی مچھلی، جھینگے، کیکڑے سمیٹ کر لے جا رہے ہیں۔ اگر سمندر یونہی خالی کرنا ہے تو تم خود یہ کام کیوں نہیں کرتے۔ کیا سمندر بھی کوئی اتنا سستا بیچتا ہے؟ مانا کہ یہ ملک تمہیں ورثے میں ملا ہے مگر ورثہ حلوائی کی دوکان تو نہیں ہوتا جس پر ہر ایرا غیرا جب چاہے فاتحہ دلوانے آ جائے۔ یہ ریاست جیسی بھی ہے پر غریب کی جورو تو نہیں کہ کوئی بھی اس کی جھولی میں چند سکے ڈال کر صحن کو رستہ بنا لے۔
اپنے جغرافیے سے کماؤ۔ وسطی ایشیا اور ایران سے آنے والی سڑک اور تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی فیس اور مال برداری کی راہداری وصول کرو۔ پندرہ سے بیس ارب ڈالر یوں مل جائیں گے۔ اپنی خام افرادی قوت کو ہنرمند طاقت میں بدل دو تاکہ بیرونی سرمایہ کار بے فکری سے اس افرادی قوت پر انحصار کر سکیں۔ پچاس لاکھ یا کروڑ گھر بنانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہنرمند خود ہی اپنا گھر بنا لیں گے۔ تم بس انھیں مچھلی کی خیرات دینے کے بجائے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھا دو۔
مجھے معلوم ہے کہ تم ہر حال میں ہر صوبے کو ترقی دینا چاہتے ہو۔ مجھے تمہاری نیت پر کوئی شبہہ نہیں۔ لیکن اگر کوئی صوبہ تمہاری شرائط اور فرمائش پر ترقی نہیں کرنا چاہتا تو اسے اپنے حال پر چھوڑ دو اور ترقی پر مجبور مت کرو۔ مانا کہ وہ اپنا اچھا برا تم سے زیادہ نہیں جانتا۔ پھر بھی ضد نہ کرو۔ وقت آنے پر وہ اپنا نفع نقصان خود دیکھ لے گا۔ ماں سے زیادہ ماں بننا بھی بعض اوقات بدزنی بڑھا دیتا ہے۔ تم سے زیادہ کون یہ بات سمجھ سکتا ہے۔ تم ہی تو ہم سب میں سب سے زیادہ سیانے ہو۔ نہیں ہو کیا؟ ؟