جب دو روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے پر راضی ہو گئے ہیں تو اس کے فوراً بعد اماراتی وزیرِ خارجہ انور گرگیش نے خوشخبری دی کہ ہمارے اس فیصلے سے فلسطینی مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عمل رک گیا ہے مگر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے وضاحت کی کہ غربِ اردن کو ضم کرنے کا فیصلہ کالعدم نہیں ہوا صرف ملتوی ہوا ہے۔
البتہ جن فلسطینیوں کی بھلائی کے لیے امارات نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کا " کڑوا گھونٹ " پیا۔ وہی مورکھ فلسطینی اس تاریخی فیصلے کے فوائد سمجھنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ غزہ پر حکمران حماس ہو کہ غربِ اردن پر حکمران الفتح کی فلسطین اتھارٹی۔ دونوں نے اس فیصلے کو مسترد کر کے اسے فلسطینی کاز کی پیٹھ میں ایک اور چھرے سے تعبیر کیا ہے۔
سینئر فلسطینی رہنما محترمہ حنان اشراوی نے ٹویٹ کیا
" کاش کوئی بھی اپنی دھرتی چرائے جانے کے کرب سے دوچار نہ ہو، کاش کسی کو بھی نظربندی جیسے حالات میں زندہ رہنے کی اذیت نہ سہنا پڑے، کاش کوئی بھی اپنی نگاہوں کے سامنے اپنا ہی گھر منہدم ہوتے یا اپنا ہی کوئی پیارا ہلاک ہوتے نہ دیکھے، کاش کوئی بھی اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں فروخت ہو جانے کے عذاب سے نہ گذرے "۔
متحدہ عرب امارات کا اسرائیل سے باضابطہ تعلقات کے قیام کا فیصلہ اہم ضرور ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی رہ جائیں۔ یہ آنکھیں تو تب ہی پھٹ چکی تھیں جب اردن نے اکتوبر انیس سو تہتر میں اسرائیل کو مشترکہ عرب حملے کی پیشگی اطلاع دے دی تھی۔ یہ آنکھیں تب ہی باہر نکل آئی تھیں جب انور سادات نے اکتالیس برس پہلے یروشلم میں اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے تحت اپنے مقبوضہ علاقے تو واگذار کروا لیے مگر فلسطینیوں کو اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے کہا جہاں رہو خوش رہو۔
کہنے کو امارات پہلا خلیجی اور اردن و مصر کے بعد تیسرا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل سے باضابطہ سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ مگر غیر رسمی طور پر دیکھا جائے تو سوائے کویت کے اومان، امارات، بحرین وغیرہ کے کئی برس سے اسرائیل سے کئی حساس و معمول کے شعبوں میں غیررسمی تعاون اور تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو سعودی عرب کی خاموش تائید حاصل ہے۔
اومان پہلا خلیجی ملک ہے جس کا اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے دو برس پہلے دورہ کیا۔ قطر کے اگرچہ اسرائیل سے باضابطہ تعلقات نہیں لیکن اس حد تک ورکنگ ریلیشن شپ ضرور ہے جس کے سبب قطر غزہ کے فلسطینیوں کی کئی برس سے مالی مدد کر رہا ہے۔
خلیج کے ہی ایک اور ملک ایران کے رضا شاہ پہلوی کے دور میں انیس سو پچاس سے اسرائیل سے مکمل سفارتی و عسکری تعلقات تھے۔ مگر انیس سو اناسی میں شاہی دور کے خاتمے کے بعد ایرانی پالیسی نے یوٹرن لیا۔
البتہ عراق کے ساتھ دس سالہ جنگِ خلیج میں سی آئی اے نے نہ صرف صدام حسین کی مواصلاتی مدد کی بلکہ اسرائیلی کمپنیوں کے ذریعے ایران کو بھی میزائل، فاضل پرزے اور دیگر رسد فراہم کی۔ اس قصے کو امریکی سفارتی تاریخ میں ایران گیٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے کبھی بھی اسرائیل سے براہِ راست تعلقات نہیں رہے۔ البتہ سوویت افغان خانہ جنگی کے دور میں سی آئی اے کی امدادی پائپ لائن قائم ہونے سے پہلے اسرائیل نے اپنے مال خِانے میں موجود وہ روسی اسلحہ سی آئی اے کے توسط سے مجاہدین تک پہنچایا جو اس نے سڑسٹھ اور تہتر کی جنگوں میں شامی اور مصری افواج سے چھینا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد یہ تھا کہ سوویت قیادت کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ مجاہدین نے یہ اسلحہ افغان کیمونسٹ فوجیوں سے چھینا ہے۔
دو ستمبر دو ہزار پانچ کو پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے انقرہ میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ سلوان شلوم سے باضابطہ ملاقات کی۔ لگ بھگ ہفتے بھر بعد نیویارک میں صدر پرویز مشرف کے اعزاز میں اسرائیل کی سب سے طاقتور پشتی بان ورلڈ جیوش کانگریس نے عشائیہ دیا۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کو اپنے لیے براہِ راست عسکری خطرہ نہیں سمجھتا البتہ پاکستانی عوام کو فلسطینیوں اور ان کی مجوزہ ریاست کے تصور سے جذباتی لگاؤ ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں ریاستی سطح پر غیررسمی انداز میں کئی بار یہ مباحثہ چھیڑنے کی کوشش کی گئی کہ بدلی ہوئی دنیا میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں کیا قباحت ہے۔ آخری بار یہ سوال گزشتہ برس وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اٹھایا تھا۔ غالباً مذہبی سیاسی لابی فی الحال اس مہم جوئی میں خاموش مددگار بننے کے موڈ میں نہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کو دوغلا پن قرار دیا ہے۔ حالانکہ ترکی پہلا مسلمان ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے اسرائیل کے سفارتی تعلقات مارچ انیس سو انچاس سے ہیں (ایران اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلمان ملک تھا )۔
اگر شمالی افریقہ کی بات کی جائے تو مصر اور ماریطانیہ اگرچہ دو ممالک ہیں، جن کے اسرائیل سے بظاہر باضابطہ سفارتی تعلقات ہیں، مگر شمالی افریقہ میں اسرائیل کے سب سے پرانے مراسم مراکش سے ہیں۔ مراکش میں یہودی پندرھویں صدی میں اسپین سے مسلم سلطنت کے خاتمے کے بعد سے آن کر بسے۔ انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں مراکش کے موجود شاہ محمد ششم کے والد شاہ حسن ثانی نے لگ بھگ پچاس ہزار مراکشی یہودیوں کی اسرائیل نقلِ مکانی میں سہولت دی اور تہتر کی جنگ سے پہلے تک دونوں ممالک میں سفارتی و تاریخی تعلقات قائم تھے۔
اسلامی سربراہ کانفرنس کے رکن کئی افریقی ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کبھی بحال ہو جاتے ہیں تو کبھی خراب جاتے ہیں۔ اسرائیل ان ممالک کی نہ صرف زرعی و آبی و عسکری شعبوں میں مدد کرتا ہے بلکہ متعدد افریقی ممالک کے تارکینِ وطن اسرائیل میں محنت مزدوری بھی کرتے ہیں۔
ویسے اسرائیل کے اردگرد کے موجودہ حالات اس کے نقطہِ نظر سے قدر مثالی ہیں کہ اسرائیل کو اپنے مفاداتی تحفظ کے لیے اضافی پتہ تک توڑنے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل کا مسلسل دشمن شام اپنی ہی خانہ جنگی کے ہاتھوں برباد ہو چکا ہے۔ لبنانی ریاست پر سے جنتا کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اردن میں نہ پہلے سیاسی سکت تھی نہ اب ہے۔ مصر کہنے کو عرب دنیا کا سب سے گنجان اور طاقتور عسکری ملک ہے لیکن یہ ریاستی قد کسی بیرونی دشمن کے بجائے خود مصری شہریوں کو ڈرانے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
خلیج میں ایران ایک طرف اور دیگر خلیجی ریاستیں، امریکا اور اسرائیل دوسری طرف۔ قطر ایک طرف اور دیگر برادر خلیجی ریاستیں دوسری طرف۔ یمن ایک طرف اور سعودی و عرب و امارات دوسری طرف۔
لیبیا عملاً مغربی و مشرقی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ تریپولی میں قائم حکومت کو اقوامِ متحدہ اور ترکی کی حمایت میسر ہے۔ جب کہ بن غازی میں باغی جنرل خلیفہ ہفتر کی سپاہ کو کرائے کے روسی فوجیوں، فرانسیسی، اماراتی و مصری حکومتوں کی امداد حاصل ہے۔ یہ جنگ دراصل لیبیا کے تیل کی جنگ ہے۔ قذافی کے بعد سے لیبیا کے پنجر پر ہر طرح کے لگڑبگے اور مردار پسند گدھ بیٹھے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں مصر، یونان، اسرائیل اور فرانس کے مابین تیل و گیس کی تلاش کے لیے سمجھوتہ ہوا ہے مگر اس علاقے پر ترکی کا بھی معاشی دعویٰ ہے۔ یوں اب خلیج، شام اور لیبیا کے بعد مشرقی بحیرہ روم میں بھی ایک نیا محاذ کھل گیا ہے اور ترکی بمقابلہ عرب مع اسرائیل و یورپ و امریکا ایک نئی رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔
رہی بات فلسطینیوں کی تو اسرائیل بھلے غربِ اردن کے باقی ماندہ علاقے ضم کرے یا نہ کرے۔ بوٹ تلے دبے سانس کی قلت کا شکار فلسطینیوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ رہا ٹرمپ تو نومبر کے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے اگر اسے امید کا ایک اضافی تنکہ بھی مل جائے تو کیا برا ہے۔ اور تازہ تنکہ یہی اماراتی اسرائیلی سفارت کاری کی شعبدہ کاری ہے۔ نیتن یاہو ویسے ہی کرپشن کے مقدمات اور ممکنہ گرفتاری کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں کہیں سے بھی ذرا سی خوشخبری بھی اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔
مورل آف دی اسٹوری : حالات کو جیسے بھی الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ اس وقت اسرائیل خطے کا واحد ملک ہے جس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔