گزشتہ دو مضامین میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اسرائیلی سرحد سے متصل مصر اور اردن نے تو اسرائیل سے یوں امن سمجھوتہ کر لیا کیونکہ وہ تین جنگوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ بھرپور امریکی پشت پناہی کے ہوتے وہ اسرائیل کو عسکری لحاظ سے نیچا نہیں دکھا سکتے لہذا اسرائیل کو تسلیم کر کے اپنے علاقے واپس لینا ہی عقلمندی ہے۔
رہا فلسطینی حقوق کا مسئلہ تو ان کی مدد کے لیے اوپر والا ہے نا۔ البتہ اسرائیل کے دو ہمسائے شام اور لبنان اسرائیلی جارحیت کا متعدد بار شکار ہونے کے باوجود جھکنے کو تیار نہیں اور آج چوہتر برس بعد بھی اسرائیل سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ مگر ان دونوں ممالک کا اندرونی طور پر اتنا پتلا حال ہے کہ ان کی دشمنی اسرائیل کے لیے فی الحال کوئی معنی نہیں رکھتی۔
تاہم اسرائیل سے ہزاروں کلومیٹر پرے کی دو خلیجی ریاستوں کو ( امارات و بحرین ) اسرائیل سے تعلقات باضابطہ کرنے کی اتنی غیر مشروط عجلت کیوں تھی؟ اس کا براہ راست تعلق چھ ہفتے بعد ہونے والے امریکی انتخابات کے ممکنہ نتائج سے بھی ہے اور تادم ِ تحریر ڈیموکریٹ جوبائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔ ظاہر ہے اس موقع پر ٹرمپ کے بیرونی دوستوں میں سب سے زیادہ اسرائیل اور متعدد عرب ممالک کے مفادات داؤ پر ہیں۔
اوباما دور میں دنیائے عرب نے تیونس سے بحرین تک بہارِ عرب نامی عوامی بغاوت کی لہر دیکھی اور اوباما انتظامیہ نے اس بغاوت کے بارے میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا۔ وائٹ ہاؤس کی اس بیگانگی کا امریکا پر بھروسہ کرنے والی آمریتوں کو خاصادھچکا اور رنج پہنچا۔ اوباما دور میں اسرائیل امریکا تعلقات بھی سردِ مہری کی تاریخی تہہ تک پہنچ گئے۔
نیتن یاہو اور اوباما ایک دوسرے کے لیے انتہائی ناپسندیدہ شخصیات رہے۔ اوباما کی جانب سے ایران سے بین الاقوامی جوہری سمجھوتے کی توثیق نے تو گویا تعلقات کے اونٹ کی کمر توڑنے کے لیے آخری تنکے کا کام کیا۔
مگر اوباما کے بعد ٹرمپ کے آنے سے تل ابیب سے ابوظہبی تک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ایسا لگا بہت مدت بعد وائٹ ہاؤس میں کوئی اپنا آیا ہے۔ ویسے تو ہر امریکی صدر اسرائیل نواز رہا مگر ٹرمپ نے تو بندہ نوازی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
ٹرمپ نے ایماندار امریکی ثالث کا نقاب بھی اتار پھینکا۔ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل میں ضم کرنے کے فیصلے کی مکمل حمایت کی، متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت تسلیم کر لیا۔ فلسطینیوں کو ڈیل آف دی سنچری کے نام پر پیش کش کی کہ دس ارب ڈالر کے عوض اسرائیل کی دائمی غلامی میں آجاؤ۔ کل کو شائد یہ غلامی بھی نصیب نہ ہو۔
ٹرمپ نے ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتہ ختم کر کے اسرائیل اور خلیجی ممالک کے دل موہ لیے۔ یمن میں خلیجی ممالک کی فوج کشی کے باوجود ان ممالک کو جدید اسلحے کی فراہمی روکنے کی امریکی کانگریس کی کئی قراردادوں کو ویٹو کیا۔ برادر خلیجی ممالک کی جانب سے برادر قطر کی اقتصادی ناکہ بندی پر ٹرمپ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
وہ الگ بات کہ اس پالیسی کے سبب قطر کا جھکاؤ ایران و ترکی کی جانب بڑھ گیا۔ صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعدپیدا ہونے والی سعودی مخالف بین الاقوامی سفارتی تنہائی کو کم سے کم کرنے میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
ایسے دوست کو کون آسانی سے جانے دے گا۔ کورونا کے سبب دو لاکھ اموات سے ہلے ہوئے امریکا میں ٹرمپ کو انتخابی ہار کا سنجیدہ خطرہ درپیش ہے۔ لہذا خارجہ پالیسی کے میدان میں جتنی کامیابیاں دکھا کر ووٹروں کو رجھایا جا سکے۔ چنانچہ متحدہ عرب امارات، بحرین، کوسوو اور سربیا نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ باقی ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے احسان مند دوست ٹرمپ انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔
مثلاً اگلا اعلان سوڈان کی جانب سے بھی ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے خرطوم کا دورہ کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی صورت میں دہشت گردی کے پشت پناہ عالمی ممالک کی فہرست سے سوڈان کا نام نکالا جا سکتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ ہفتے ابوظہبی میں سوڈان کی حکمران عبوری کونسل کے سربراہ جنرل ابوالفتح البرہان، مصری و سوڈانی انٹیلی جینس کے سربراہوں اور امریکی و اماراتی حکام کی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
سوڈان کی تباہ حال معیشت کو فوری طور پر تین ارب ڈالر کا امدادی انجکشن اور اگلے تین برس کے لیے اتنی ہی سالانہ امداد درکار ہے۔ نیز دہشت گرد ممالک کی امریکی فہرست سے نام خارج ہونے کی صورت میں سوڈان سے مغربی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے تعاون کا راستہ بھی کھل سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے لیے اتنا پیسہ جیب سے نکالنا کوئی مسئلہ نہیں لہذا قوی امکان ہے کہ معاشی بد حالی سوڈان کو نئے کیمپ کی دہلیز پر جلد لے آئے گی۔
امریکیوں کو امید ہے کہ اومان بھی شائد الیکشن سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ ویسے بھی اومان کے اسرائیل سے انیس سو بانوے سے غیر رسمی تعلقات ہیں اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے دو ہزار اٹھارہ میں مسقط کا دورہ کیا۔ اس سے قبل نوے کی دہائی میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ شمعون پیریز بھی اومان جا چکے تھے۔ مگر اومان شائد کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے امریکی انتخابی نتائج کا انتظار کرے۔
اومان کی خارجہ پالیسی کبھی بھی اماراتی و سعودی ترجیحات کے تابع نہیں رہی۔ بلکہ ہمسایہ یمن میں جاری جنگ کے سبب اومان کو پناہ گزینوں کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ مرحوم سلطان قابوس بن سعید کے دور سے غیرجانبدارانہ پالیسی کے سبب اومان کے ایران، اسرائیل، فلسطین، ترکی اور قطر سے اچھے تعلقات ہیں۔ اومان کو خلیج کا سفارتی سوئٹزرلینڈ بھی کہا جا سکتا ہے جہاں متحارب فریق اطمینان سے میڈیا کے کیمروں سے دور رہ کر بات چیت کرتے رہتے ہیں۔
قطر میں بھی نوے کی دہائی سے اسرائیل کا تجارتی دفتر ہے۔ اور دو طرفہ غیر رسمی تعلقات کے سبب ہی قطر کئی برس سے غزہ کے محصور فلسطینیوں کی مالی و اقتصادی مدد کر پا رہا ہے۔ لہذا اسے اسرائیل سے باضابطہ مراسم قائم کرنے کی عجلت نہیں۔ نیز یہاں امریکی سینٹرل کمانڈر کا دفتر بھی قائم ہے۔
کویت تاریخی طور پر فلسطینیوں کا پرزور حامی رہا ہے۔ اس خلیجی ریاست نے سب سے زیادہ فلسطینوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔ اگست انیس سو نوے میں کویت پر صدام حسین کے قبضے تک کویت میں چار لاکھ فلسطینی آباد تھے۔ مگر پی ایل او کی جانب سے صدام حسین کی حمایت کے ردِعمل میں ان فلسطینیوں کو کویت سے نکال دیا گیا۔ بعد ازاں فلسطینی قیادت نے معافی مانگ لی۔
دو ہزار تیرہ میں سفارتی تعلقات بحال ہوگئے اور اس وقت لگ بھگ ستر ہزار فلسطینی کویت میں آباد ہیں۔ فی الحال بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کویت اسرائیل کو بعجلت تسلیم کرے۔
بحرین سے اسرائیل کے تعلقات کی بحالی کی اہمیت علامتی ہے۔ حکمران خاندان کا دارو مدار امارات و سعودی حمایت پر ہے۔ نیز سترہ لاکھ آبادی پر مشتمل تین سو مربع میل کا یہ جزیرہ آٹھویں امریکی بحری بیڑے کا بھی ہیڈ کوارٹر ہے۔
رہی بات سب سے بڑے خلیجی ملک سعودی عرب کی تو ٹرمپ سعودی تعلقات اگرچہ مثالی ہیں مگر سعودی عرب فی الحال اسرائیل سے رسمی دوستی نہیں کر پائے گا۔ کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے دیگر ممالک کے برعکس سعودی عرب کا وجود حرمین و شریفین کے سبب زیادہ حساس ہے۔ اسے ایران اور ترکی کی جانب سے عالمِ اسلام کی قیادت اور اثر و نفوذ کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔
وہ الگ بات کہ سعودی قیادت نے امارات، بحرین اسرائیل تعلقات کا غیر علانیہ خیر مقدم کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سالانہ سربراہ اجلاس سے تین روز قبل خطاب کرتے ہوئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے "ایرانی علاقائی توسیع پسندی " کو ہی اپنا بنیادی موضوع رکھا۔
بظاہر فلسطین کے بارے میں سعودی ریاستی پالیسی کا محور انیس سو بیاسی اور دو ہزار دو کا سعودی امن منصوبہ ہی ہے جس کے تحت اسرائیل کی انیس سو سڑسٹھ سے پہلے کی سرحدوں تک واپسی اور ایک خودمختار فلسطین کے بدلے عرب دنیا کی جانب سے تسلیم کیے جانے کی پیش کش کی گئی تھی۔
مگر تیزی سے بدلتے حالات میں اس امن منصوبے کی اہمیت بھی محض کاغذی ہے۔ سعودی فضائی حدود اسرائیلی فضائی ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہیں۔ اس سال کے شروع میں سابق سعودی وزیر اور موتمرِ عالمِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل محمد ال عیسی نے پولینڈ میں قائم سابق نازی کنسنٹریشن کیمپ آشوٹز کا دورہ کیا۔ یہ کیمپ ہٹلر کے ہاتھوں یہودی نسل کشی کا سب سے بڑا استعارہ ہے۔
بعد ازاں جون میں محمد ال عیسی نے امریکن جیوش کمیٹی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو یہود و اسلام دشمن فوبیا سے پاک کرنے کی یکساں ضرورت ہے۔
امامِ کعبہ عبدالرحمان السدیس جو اپنی مناجات میں ہمیشہ غاصب یہودیوں سے فلسطین کی نجات کی دعا شامل کرتے آئے ہیں۔ انھوں نے پانچ ستمبر کو پہلی بار اپنے خطبے میں یہ بھی فرمایا کہ اہلِ یہود کے بارے میں ہمیں غیر ضروری جذباتی رویے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہمسایوں سے حسنِ سلوک کا فروغ ِ اسلام میں بنیادی کردار ہے۔ امامِ کعبہ کے ہر اہم خطاب کی طرح یہ خطاب بھی سرکاری ٹی وی پر نشر ہوا۔ وماعلینا الا البلاغ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )